تیونس کے حالیہ انقلاب نے پوری
دنیا کی سوچ اور فکر کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور اسے سوچنے کے نئے
انداز اور زاویے عطا کئے ہیں ۔ زین العابدین بن علی کا ۳۲ سالوں پر محیط
اقتدار یوں چشمِ زدن میں زمین بوس ہو سکتا ہے وہم و گمان و خیال کی سرحدوں
سے ماورا تھا لیکن تیونس کے بہادر عوام نے اپنی اجتماعی قوت سے ایک بے رحم
آمر کی آمریت کو جس طرح ہوا میں تحلیل کر کے جرات و بسالت کی لہو رنگ
داستان رقم کی ہے اس پر ساری دنیا کے ادیب شاعر اور دانشور رطب اللسان ہیں
اور تیونسی عوام کی جرا توں کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔ تیونس کا
انقلاب در حقیقت ایک نئی صبح کی نوید ہے نئے جمہوری دور کا آغاز ہے، نئی
سوچ کا آئینہ دار ہے ا ور عوامی حا کمیت کی نادر مثال ہے۔ تیونس کا حالیہ
انقلاب ایک ایسی بے نظیر سوچ کا اظہار ہے جس میں عوام کی رائے کو نظر انداز
کر کے ذاتی اور شخصی اقتدار کو دوام نہیں بخشا جا سکتا۔
آزاد میڈیا کے موجودہ دور میں لوگو ں کو اپنی خواہشات کا غلام بنا نا اور
ان پر ریاستی جبر سے حکومت کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ کرپشن اور لو ٹ کھسوٹ
سے اپنی جیبیں بھرنے کا دور لدھ چکا ہے۔ ملکی خزانوں پر فردِ واحد کی اجارہ
داری کا دور اختتام پذیر ہو چکا ہے ۔ لوگوں کو سنگینوں کے سائے میں رکھ کر
ڈرانے اور دھمکا نے کا انداز بے اثر ہو چکا ہے۔ ریاست کے آہنی شکنجے میں
مخالفین کو جکڑ کر تہس نہس کرنے کی روایت کا دور قصہِ پارینہ بن چکا ہے۔
ریاستی امور کو سفاکیت کی روش سے چلانے کا نداز فرسودہ ہو چکا ہے۔عوام کو
حکومتی امور سے دور رکھ کر عوامی دولت پر عیش و عشرت کرنے اور گل چھڑے
اڑانے کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ حقِ حکمرانی کی جنو نیت کا خناس دم توڑتا
جا رہا ہے اور دنیا میں ایسے جمہو ری دور کا آغاز ہو چکا ہے جس میں عوامی
رائے کی قوت و اہمیت کو تسلیم کئے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ اب عوامی رائے
ہی حرفِ آخر قرار پائے گی اور اسی رائے کے مطابق حکو متیں بھی تشکیل پا ئیں
گی اور فیصلے بھی ہوں گے ظلم کی رات کا خاتمہ یقینی ہے اور نئی صبح کا ظہور
ایک انمٹ حقیقت ہے اور اس سے روگردانی کسی کے بس میں نہیں ہے۔
نظامِ ظلم کا سورج تو ڈھلنے والا ہے۔۔مہِ منیرِ بغاوت نکلنے والا ہے
نئے نظام سے دنیا بدل ہی جائے گی۔۔جہانِ کہنہ کا نقشہ بدلنے والا ہے
یہ میرے ہا تھوں کی زنجیر کہہ رہی ہے مجھے۔۔تمھارے جبر کا لوہا پگھلنے والا
ہے (ڈاکٹر مقصود جعفری)
باعثِ حیرت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہو ر یت کا راگ الا پنے وا لا بھارت
کھلی آنکھوں سے بدلتی دنیا کو دیکھنے کے با وجود کشمیر کے شہریو ں کو
سنگینو ں کے سائے میں رکھنے کی انو کھی راہ کا انتخا ب کر رہا ہے۔ سچ تو یہ
ہے کہ بھارت کی جمہو ریت پسند ی کے سارے دعو ے ملمع سازی کے علا وہ کچھ
نہیں بھی نہیں ہیں۔ یقین کیجئے اس نے ایک ایسا سوانگ بھرا ہوا ہے جس میں
صدا قت کا ہلکا سا بھی شا ئبہ نہیں ہے۔ آ ج کے آزاد میڈیا کا کمال یہ ہے کہ
اب عوام کو ریا ستی جبر سے دبا نے اور اپنی سفا کیت کو چھپا نے کے سارے
امکا نات با لکل معدوم ہو چکے ہیں ۔دنیا ا س وقت ایک گلو بل ویلج میں تبدیل
ہو چکی ہے لہٰذا دنیا کے کسی بھی کو نے میں رو نما ہو نے والے واقعات چشمِ
زدن میں پو ری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جب یہ با ت ا ٹل ہے کہ
اب دنیا کا کو ئی بھی ملک اپنے ہی لو گوں کو اپنی جا برانہ خو اہشات کا
غلام نہیں بنا سکتا تو پھر بھا رت کشمیر یو ں کو ریا ستی جبر کا غلام بنا
نے جیسے گھنا ﺅنے کھیل میں کیسے فتح یاب ہو سکتا ہے ۔ تیونس کے حالیہ
واقعات حریت پسندوں کے لئے روشنی کی مانند ہیں جو انھیں حوصلہ عطا کر رہے
ہیں کہ عوامی قوت سے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور
اپنے حقوق کا حصول ممکن بنا یا جا سکتا ہے۔ تیونس کا ا نقلاب در حقیقت ایک
ایسا انوکھا واقعہ ہے جو آزادی کی تحریکوں کو نیا جذبہ عطا کرے گا اور
محکومی کی زنجیریں کاٹنے کے لئے انھیں ہمت و جرات عطا کرے گا۔ ان میں اس
احساس کو ابھارے گا کہ عزمِ مصمم ،قربا نیوں اور جہدِ مسلسل سے آزادی کو
یقینی بنا یا جا سکتا ہے۔
آخری رات ہے سرن ہ جھکانا لوگوں۔۔حسنِ ادراک کی شمعیں نہ بجھانا لوگوں
انتہا ظلم کی ہو جائے وفا والوں پر۔۔۔غیر ممکن ہے محبت کو مٹا نا لوگوں (
عوامی شاعر حبیب جالب)
تقسیمِ ہند کے فارمو لے کے مطابق مسلم اکثریتی صوبوں کے علاقے پاکستان میں
شامل ہو نے تھے اور ہندو اکثریت کے علاقے بھار ت میں شامل ہو نے تھے ۔اس
فارمولے کے تحت کشمیر چونکہ مسلم اکثریت کا علاقہ تھا لہٰذا اس کا الحاق
پاکستان کے ساتھ بنتا تھا لیکن ایک سازش کے تحت کشمیر کے مہا راجہ ہری سنگھ
نے بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے ایک ساز باز کے تحت کشمیریوں
کی خواہش اور تقسیمِ ہند کے فارمو لے کے بر خلاف کشمیر کا الحاق بھارت سے
کرنے کا اعلان کر کے کشمیر کو ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا جو آج تک سرد نہیں
ہو سکی اور جسکا ایندھن ہزاروں انسانی جانیں بن چکی ہیں ۔ اس سازش کا واحد
مقصد نو زائیدہ مملکت پاکستان کو کمزور کرنا تھا اور اسے یہ پیغام دینا تھا
کہ جنوبی ایشیا کا بڑا ملک ہو نے کے ناطے بھارت کی مرضی اور منشا کے بغیر
یہاں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔اگر کسی کو پر امن زندہ رہنا ہے تو اسے بھارت کی
حاکمیت کو کو تسلیم کرنا ہو گا ورنہ بصورتِ دیگر اس کی علا قا ئی سلامتی
خطرے میں گھری رہے گی۔
۶۲ اکتوبر ۷۴۹۱ میں بھا رت نے اپنے جا ر حانہ عزا ئم کی تکمیل اور تو سیع
پسندا نہ عزا ئم کے حصول کی خا طر کشمیر میں فو جیں بھیج کر اس پر غاصبانہ
قبضہ کر لیا ۔ وادی کے لوگ بھا رت کے اس غا صبانہ قبضے کے خلاف سرا پا
احتجاج بن گئے ۔ وہ پچھلے کئی عشروں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جس
میں لا کھو ں لوگ شہید ہو چکے ہیں لیکن بھا رت کشمیر یو ں کی یہ آواز سننے
کے لئے با لکل تیار نہیں ہے۔ آجکل مقبو ضہ کشمیر میں ایک دفعہ پھر آزادی کی
تڑپ نے پو ری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ بھا رتی فوج سنگینو ں کے
سا ئے میں کشمیر یو ں کی جدو جہدِ ِ آزا دی کو کچلنے میں مصروف ہے لیکن آزا
دی کی یہ تڑپ ایک جوا لہ مکھی کا روپ اختیار کرتی جا رہی ہے جسے پو ری دنیا
محسوس کر رہی ہے۔ نہتے نوجوانوں کے گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے
اور بہت سے حریت پسندوں کی زندگی کے چراغ گل کئے گئے ہیں ایک ایسا ہی نام
مقبول بٹ کا تھا جسے آزادی کا مطالبہ کرنے پر سرِ دار کھینچ دیا گیا تھا
لیکن مقبول بٹ کی موت ہزاروں پروانوں کو شمع آزادی پر قربان ہو نے کا ولولہ
عطا کر گئی۔
سو پیکاں تھے پیوستِ گلو جب چھیڑی شوق کی لے ہم نے۔سو تیر ترازو تھے دل میں
جب ہم نے رقص آغاز کیا
جس خاک میں مل کر خاک ہو ئے وہ سر مہِ چشمِ خلق بنی ۔ جس خار پہ ہم نے خون
چھڑکا ہم رنگِ گلِ طناز کیا ( فیض احمد فیض )
اکتوبر ۷ ۴۹۱ میں جب بھا رتی فو جیں پہلی بار کشمیر میں دا خل ہو ئیں تو پو
ری عالمی برادری نے بھارت کی جا رحیت کی مذمت کی اور اسے وادی سے اپنی فو
جیں نکا لنے کے لئے مجبور کیا۔ سلا متی کو نسل نے ۵ جنوری ۹۴۹۱ کو ایک
قرارداد کی منظور ی دی جسکی روح سے کشمیر کے مقدر کا فیصلہ کشمیر ی عوام کی
مرضی سے کیا جانا تھا ۔ بھارتی وز یرِ اعظم پنڈ ت جوا ہر لال نہرو نے سلا
متی کونسل کی ان قرارد ادو ں پر سرِ تسلیم خم کیا اور د نیا کو ان کے مطا
بق استصو ا بِ را ئے کرا نے کی یقین دہا نی کر وا ئی لیکن افسوس صد افسوس
کہ وہ یقین د ہا نی آج تک حقیقت کا روپ اختیار نہیں کر سکی کیو نکہ بھا رت
اپنے استصوا بِ را ئے کے وعدے سے مکر گیا ہے۔
کو ئی ملک چا ہے جتنا بھی طا قتور ہو جا ئے عوامی را ئے عامہ کا مقابلہ
نہیں کر سکتا ۔ لو گو ں کو ان کی خوا ہشات کے خلاف انھیں اپنا غلام نہیں
بنا سکتا ، کشمیر کشمیر یو ں کا ہے اور انھیں اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا
مکمل حق حا صل ہے۔بھا رت ریا ستی جبر کے زور پر کشمیر یوں کو یہ حق دینے کو
تیار نہیں ہے وہ انھیں ان کے اس حق سے محروم کرنے کی سا زش کر رہا ہے جسے
کشمیری ہر حال میں نا کام بنا نے کا عہد کئے ہو ئے ہیں۔ کشمیر جل رہا ہے ۔
اور اسکا وا حد حل استصوا بِ را ئے ہے ۔جب تک ایسا نہیں ہو گا کشمیر جلتا
رہے گا ۔ وقت آگیا ہے کہ عا لمی برادری کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے آگے
بڑھے اور وادی کو آگ وخون کے اس کھیل سے بچا ئے جس میں روزا نہ سینکڑو ں
لوگ اپنی جا نو ں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ نئی کروٹ لیتی ہو ئی اس دنیا
میں کشمیر کی آزادی کا نعرہ اب حقیقت بنتا نظر آرہا ہے کیونکہ دنیا ظلم
وجبر کی سیاست سے تائب ہو رہی ہے۔
کشمیری پچھلے کئی عشروں سے بھا رتی ظلم و ستم کے سامنے سینہ سپر ہیں ۔
آزادی کی عظیم جنگ کا ایک ایک پنہ اپنے لہو کی سرخی سے رقم کر رہے ہیں۔
عظیم قربا نیوں کی نئی داستان رقم کر رہے ہیں۔ شمعِ آزادی کو اپنے لہو سے
سینچ رہے ہیں ۔ عالمی را ئے عا مہ کو اپنی قربا نیو ں سے بیدار کر رہے ہیں
لیکن بھا رت ان کی ان قربا نیو ں کو ریاستی جبر سے کچلنے کی پا لیسی پر گا
مزن ہے۔ایک جنگ ہے جو سچ اور جھوٹ کے درمیان جا ری ہے قربا نیو ں اور فریب
کے درمیان جا ری ہے ظلم اور صبر کے درمیان جا ری ہے بہا دری اور بزد لی کے
درمیان جا ری ہے۔ انصاف اور بے انصا فی کے درمیان جا ری ہے لیکن آخر ی فتح
حق کا مقدر ہو تا ہے یہی قا نونِ فطرت ہے ۔ لہو کے داغ مٹا نا کسی کے بس
میں نہیں ہو تا۔ جب لہو پکار اٹھتا ہے تو اس کی پکار پر سر فرو شو ں کی پیش
قدمی کو روکنا کسی قوت کے بس میں نہیں ہوتا وہ آگے بڑ ھتے چلے جا تے ہیں
اور اند ھیر و ں سے سحر لے کر نمو دار ہو جا تے ہیں ۔
راستہ نہیں ملتا منجمد اند ھیرا ہے ۔۔پھر بھی با وقار انسان اس آس پہ زندہ
ہے
سورج کے نکلنے میں پو پھٹنے کا وقفہ ہے ۔اس کے بعد سورج کو کون روک سکا ہے
(احمد ندیم قا سمی)
۵ فروری ایک ایسا دن ہے جسے پوری پاکستانی قوم یوم ِ یکجہتی کے نام سے منا
تی ہے۔ جلسے، جلوس اور سیمینار منعقد کرتی ہے اور نہتے کشمیریوں سے اپنی
اخلاقی اور سیاسی حمائت کا اعادہ کر تی ہے۔ اسی حمائت کی وجہ سے بھارت
پاکستان پر کئی دفعہ جارحیت کا ارتکاب بھی کر چکا ہے لیکن پاکستان نے
کشمیریوں کی حما ئت کے اپنے اصولی موقف سے کبھی بھی رو گردانی نہیں کی اور
آز مائش کی گھڑیوں میں کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھو ڑا۔عالمی برادری
اصولی طور پر کشمیریوں کے ساتھ ہے لیکن بھارت کی فسوں کاری اور مکرو فریب
کے آگے ان کی ایک نہیں چل رہی ۔ وادیِ کشمیر جنت نظیر ہے لیکن بھارت نے
اپنی جارحیت سے اسے لہو رنگ بنا دیا ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب یہ وادی
بھارت کے چنگل سے آزاد ہو کر آزادی کی نعمت سے سرفراز ہو گی، کشمیر کی آزاد
فضا ئیں اسے پھر حقیقی معنوں میں جنت نظیر بنا دیں گی۔تیونس کے حالیہ وا
قعات اس بات کے گواہ ہیں کہ آزادی کی صبح اب زیا دہ دور نہیں ہے۔۔
میرے چمن میں بہا روں کے پھول مہکیں گے۔۔ مجھے یقین ہے شراروں کے پھول
مہکیں گے
کبھی تو دید ہ نرگس میں روشنی ہو گی۔۔کبھی تو اجڑے دیا روں کے پھول مہکیں
گے (ساغر صدیقی) |