نواز شریف کی آخری پیشی اور حکومتی پھرتیاں

بالآخر سابق وزیراعظم نواز شریف 19 دسمبر کو اپنی آخری پیشی (فی الوقت) پر احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ توقع ہے کہ اس بار جمعہ کے بجائے پیر 24 دسمبر کو نواز شریف کے سیاسی کیریئر کا ایک اور فیصلہ آجائے گا، کیونکہ دلائل کے بعد سماعت مکمل و فیصلہ ’’محفوظ‘‘ ہوچکا ہے۔ سابق وزیراعظم اس وقت دو مقدمات میں سزا پانے کے بعد ضمانت پر ہیں اور دو مزید ریفرنس کا ’’فیصلہ‘‘ آنے والا ہے، ہر طرح کا عدالتی فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے لیے اہم ترین ہے۔ زیر سماعت مقدمے کے ممکنہ فیصلے کے حوالے سے قیاس آرائی کرنا مناسب نہیں، اس لیے احتساب عدالت کے فیصلے تک کسی بھی قسم کی ’’قیاس آرائی‘‘ سے محتاط رہنا چاہیے تھا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت سیاسی تدبر کا مظاہرہ نہیں کررہی اور متنازع بیانات کے جارحانہ طرز عمل کو دہرائے جارہی ہے، جس سے اپوزیشن کے تحفظات میں متواتر اضافہ ہورہا ہے۔

حکومتی وزراء اب پیپلز پارٹی کے خلاف بھی بیانات کا جارحانہ محاذ کھول بیٹھے ہیں۔ شیخ رشید نے نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے کہ ’’مارچ تک صفائی ہوجائے گی۔‘‘ سنجیدہ حلقوں کے مطابق حکمراں جماعت اور ان کے اتحادیوں کے بیانات کو عدلیہ کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی پالیسی قرار دیا جارہا ہے۔ ایسے بیانات سے احتساب کا عمل جانب دارانہ نظر آنے لگا ہے جو ریاستی اداروں کی شفافیت کو متاثر کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ حکمراں جماعت کو اپوزیشن والی سیاست چھوڑنے یا کم کرنے کا مشورہ کئی مو?قر حلقوں و دانشوروں کی جانب سے دیا جاچکا لیکن بعض وزراء ممکنہ حد تک ایک طے شدہ پالیسی کے تحت جارحانہ طرز بیان میں تبدیلی نہیں لارہے، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے بیانات اور الزامات میں شدت کا عنصر نمایاں ہے۔

یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار میں کیے جانے والے مثبت کاموں کا کریڈٹ لینا مناسب نہیں۔ 26 ممالک سے معاہدوں اور اثاثوں کی تفصیلات ملنے کا کریڈٹ نوزائیدہ حکومت کو لینا، برٹش ایئرلائن کے پاکستان میں آپریشن شروع کرنے کے اعلان کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دینا غیر صحت مندانہ ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر حکومت جو پروجیکٹ یا سفارتی رابطوں میں معاہدے کرتی ہے، ضروری نہیں کہ اس کے دور حکومت میں ہی اس کے نتائج آئیں۔ جس طرح تحریک انصاف، اپوزیشن کے خلاف نیب مقدمات میں بیانیہ دیتی ہے کہ یہ مقدمات ان کی حکومت نے قائم نہیں کیے اور نہ کسی کو بھرتی کیا تو انہیں فراخ دلی سے سابق حکومت کے مثبت اقدامات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ اب یہ ضروری تو نہیں کہ سابق حکومتوں نے بالکل ہی ’’کچھ‘‘ نہ کیا ہو۔ مقدمات اپنی جگہ، لیکن عوام کو یہ دیکھنا ہے کہ تحریک انصاف احتساب کے لیے اپنے دائر ریفرنسوں میں کتنی کامیاب رہتی ہے اور ان کے فیصلے کتنے عرصے بعد آتے ہیں۔ ضروری ہے کہ حکمران جماعت اپنی توجہ معیشت و امن کی بحالی پر مرکوز رکھے۔ ان کے مثبت بیانات کے اثرات سے ہی ملکی سیاسی ماحول بدلے گا۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں کتنی کامیابی ملی، اس حوالے سے حکومت عوام کو ہر وقت آگاہ کرے۔ خصوصاً ان کی پارٹی کے معروف عہدے داروں اور کابینہ نے اپنے کتنے غیر ملکی اثاثے پاکستان منتقل کیے۔ سب جانتے ہیں کہ اُس وقت تک کسی اچھی بات کا اثر دوسروں پر نہیں ہوتا، جب تک پہلے خود اس پر عمل نہ کیا جائے۔

تحریک انصاف میں شامل کئی کھرب پتی عہدے دار اور وزراء کے بیرون ممالک سے تمام اثاثے پاکستان منتقل ہونے کی خبروں کا ملکی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی انتظار ہے۔ جہانگیر ترین ہوں یا علیم خان، اعظم سواتی، انیل مسرت، زلفی بخاری سمیت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے اور عمران خان کو اپنا آئیڈیل قرار دینے والے لوگ، پاکستانی عوام اور اوورسیز پاکستانی دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا انہوں نے اپنے اثاثے، بیرون ملک اکاؤنٹ میں رکھے یا پاکستان منتقل کردیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کررہے تو اس کی کیا وجہ ہے۔ جب حکومتی عہدے دار ہی پس و پیش سے کام لیں گے تو بیرونی سرمایہ کار کو مطمئن کرنا کتنا مشکل ہوگا۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف سے بہتر کون جان سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان کسی وسط مدتی انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا، کیونکہ انتخابات میں اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ ہوجاتے ہیں اور حکومتی پالیسیوں کا تسلسل قائم نہیں رہتا۔ نت نئے تجربوں سے عوام ہی نہیں بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں سمیت دوست ممالک بھی بے یقینی کا شکار رہتے ہیں اور طویل المدتی منصوبوں میں شراکت اور صنعت کاری کے نئے شعبے شروع کرنے میں انتہائی محتاط روی دِکھاتے ہیں۔ مملکت میں جب تک امن و سیاسی ماحول سازگار و مستحکم نہیں ہوگا، اُس وقت تک بیرونی ممالک سے سرمایہ کاروں کا پاکستان میں بے خوفی سے کام کرنا دشوار ہے۔ عوام میں امن و مستحکم حکومت کا اعتماد بحال کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے، کیونکہ کسی بھی مملکت کا امیج دنیا کے سامنے اس ملک کے عوام ہی مثبت پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن جب عوام کی اکثریت کا یہ عالم ہو کہ وہ حکومتی ڈھانچے سے مطمئن نہ ہوں اور انہیں تحفظات ہوں تو پھر کسی مثبت پیغام کے لیے ذہن سازی کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔

حکومت زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے بیانات میں محتاط رہے۔ اداروں میں مداخلت کے تاثر کو ختم کرے، کیونکہ سیاسی مداخلت کے خاتمے کا دعویٰ ابھی تک موجودہ حکومت پورا نہیں کرسکی ہے۔ آئے روز وائرل ویڈیوز کے اسکینڈل سے اداروں میں سیاسی مداخلت کا علم ہوتا ہے۔ بعد میں حکومتی وزراء تاویلات و وضاحتیں دیتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی فضا کو دُور کرنا حکومت کی پہلی ذمے داری ہونی چاہیے، لیکن جب حکومت خود ہی سیاسی عدم استحکام کے خدشات میں قبل ازوقت انتخابات کی پیش گوئیاں کرتی نظر آئے تو اپوزیشن کا کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ ’’حکومت کو گرانے کے لیے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، یہ کام تحریک انصاف خود ہی کررہی ہے۔‘‘ ان حالات میں مستحکم معیشت کی پالیسیوں پر کوئی سرمایہ کار مطمئن نظر نہیں آئے گا، کیونکہ جب تک ملکی پالیسیاں مربوط اور ریاستی ضمانتوں کے ساتھ سامنے نہیں آئیں گی، تب تک سرمایہ کاروں کے تحفظات دُور نہیں کیے جاسکتے۔

مسلم لیگ (ن) کے بعد پیپلز پارٹی کتنی پیشیاں بھگتے گی، اس پر حکمرانوں کی پھرتیاں خود ان کے لیے سیاسی عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہیں۔ آمروں کے دور میں سیاست دانوں پر مقدمات بھی دائر کیے گئے اور گرفتاریاں بھی ہوتی رہی ہیں، یہ سیاست دانوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ تحریک انصاف حکومت کو بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، انہیں اپنے منصوبوں و پالیسیوں کے ثمرات و کامیابی کے دعوے کرنے میں کافی وقت درکار ہے۔ اصل بات یہ کہ موجودہ حکومت اپنی توجہ اگر احتساب کے ساتھ کارکردگی پر بھی مرکوز رکھے تو یہ مثبت لائحہ عمل ہوگا۔

Qadir Khan Yousuf Zai
About the Author: Qadir Khan Yousuf Zai Read More Articles by Qadir Khan Yousuf Zai: 399 Articles with 296786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.