خان کو چلنے دو

پاکستان کی سیاست کا ایک اجمالی خاک ہلکے پھلکے انداز میں

پاکستان کی تاریخ کا ایک اجمالی جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ ہماری اساس جمہوری نہیں ہے۔سیاست برائے خدمت کبھی سیاست دانوں کا مطمع نظر نہ تھا ۔ جاگیردار وڈیرے تھے جو تحریک پاکستان کے دوران ہوا کا رخ بھانپتے ہوئے مسلم لیگ کا حصہ بن گئے تاکہ وقت آنے پر زاتی فوائد سمیٹیں اور عوام پر راج کرسکیں ۔ ان میں اتنی صلاحیت اور قابلیت نہیں تھی کہ وہ اپنے تئیں حکومت چلاسکیں۔ اس کے برعکس فوج اور بیوروکریسی برٹش گورنمنٹ کے تربیت یافتہ دو منظم ادارے تھے جو مملکت کے انتظام وانتصرام سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ اس سیاسی خلا کو عسکری قوتوں نے جھاندیدہ بیوروکریسی کی مدد سے پر کیا اور شروع ہی سے بیشتر حکومتی امور پر غالب رہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ گٹھ جوڑ مظبوط ہوتا گیا اور بالآخر یہ انداز حکمرانی یہ پیٹرن ہی دنیا میں ہماری پہچان اور ریاست کا ٹریڈ مارک بن گیا۔

اور ایسا ہونا کچھ قرین قیاس بھی نہ تھا ۔ ہمارا ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور دنیا میں اسلام کا قلعہ قرار پایا۔اب قلعہ کی حفاظت تو فوج ہی کا کام ہے نائ ،تیلی،دھوبی لوہار تو اس کام کو کرنے سے رہے۔ ۔ہمارے ہیرو ہمیشہ سے بہادر اور جرئ سپاہ سالار ہی رہے ہیں ۔صلاح الدین ایوبی،طارق بن زیاد ،محمود غزنوی، ٹیپو سلطان یما ری قوم نے ہمیشہ ان ہی کو اپنا آہیذیل مانا ہے۔ہماری تو دوشیزاوں کے سپنوں کا راجہ بھی ہمیشہ فوجی وردی میں ملبوس جوان ہی رہا ہے جو یاتھ میں تلوار تھامے گھوڑے پر سوار بڑی شان سے آرہا ہوتا ہے اسکے برعکس جب کوئی بنیا ان کو بیاہ کر لے جاتا ہوگا تو ان کے ارمانوں پر کیا بیتتی ہوگی یہ وہ ہی یہتر بتا سکتی ہیں یا بنیا۔

قطع نظر سیاسی ماشگافیوں کے ہمارے یہاں فوجی ادور معیشت اور ملکی ترقی کے حوالے سے بہترین رہے ہیں۔ان ادوار میں مملکت ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھتی ہی نظر آئے گی۔کہیں کہیں کوتاہیاں بھی نظر آتی ہیں مگر ملک سے وفاداری مسلمہ ہے۔ اہل سیاست ہمیشہ انکی کاسہ لیسی میں مصروف رہے تاکہ فوجیوں کے کاندھوں پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں تک رسائ حاصل کرسکیں۔ ایسے ہی جیسے کسی کمپنی کے عیار ملازم کے پاس کمپنی کا مالک بننے کا ایک ہی شارٹ کٹ ہوتا ہے وہ یہ کہ ہوشیاری اور خوشامد سے سیٹھ کا دل جیتے اور پھر اسکی بیٹی سے شادی کر کے اس کے کاروبار پر قبضہ کرلے۔

اسی طرح ہمارے سیاستدان بھی اقتدار میں آگے ۔اب انھیں اپنی علحیدہ نظریاتی شناخت بھی ڈھونڈنی تھی وہ ٹھرتی ہے جمہوریت اور برانڈ بنا اسلامک سوشلزم ۔

اسطرح ہمارے پاس دو حکومتی نمونے ہوگئے ایک *فوجی* ایک *نظریاتی* ۔

نظریاتی سیاست اپنے نظریہ کے ساتھ ہی سولی پر چڑھا دی گئ۔ اس کے بعد اسلام کا لبادہ اوڑھے اصل محافظ واپس آگئے ۔ اس دور میں پوری دنیا میں اسلام اور الحادکی نظریاتی کشمکش عروج پر تھی سیاستدان بھی دائیں اور بائیں کی سیاست میں تقسیم تھے۔جھاد کی برکتوں سے ڈالروں کی ریل پیل ہوئ تو مذہبی حلقوں کی آنکھیں بھی خیرہ ہونے لگیں۔ جنرل ضیاءالحق ایک حادثے میں شھید ہوگئے ۔یہ حادثہ پاکستان کی سیاست میں Big Bang ثابت ہوا۔ملک میں بظاہر جمہوری حکومت قائم ہوگئ مگرجمہوریت کے نام پر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا ۔ کاروبار سیاست میں منافع کی بھاری شرح کو دیکھ کر ہر ایک کی رال ٹپکتے لگی۔لینڈ مافیا ہو یا گینگ مافیا سب جمھوریت کا راگ الاپنے لگی ۔جس کا بس چلا اس نے اپنی سیاسی دکانیں سجا لیں جو کہ بعد ازاں ترقی کرتے کرتے لمیٹڈ کمپنیاں بن گئیں۔ یعنی سیاسی پارٹیاں بناذالیں ۔دولت اور طاقت کی جلوہ طرازیاں دیکھ کرمولوی صاحبان بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے لنگوٹ کس کر سب سے آگے جمہوریت کا ہراول دستہ بن گئے ۔ یر طرف سیاسی دکانیں اور پتھارے لگ گئے ۔ ان دوکانداروں نے نظریہ اور جمہوریت کے نام پر لسانیت فرقہ واریت اور منافقت کے چورن بیچے ۔ضمیر بیچے یہاں تک ک ملک کی سالمیت تک کو چند ٹکوں کے عوض داو پر لگا دیا۔

ایسے میں ہمارے ااصل کرتا دھرتا ایک بار پھر آگے بڑھے اور تمام بڑے سر جوڑ کر بیٹھ گے تاکہ ملک کو سلامتی کی طرف لے جاسکیں ۔ براہ راست حکومت کی جاے تو دنیا عالم قبول نہیں کرتی لہذا اب پیش کیا گیا ہے اک نیا خیال یعنی *رومانوی* حکومت کا ایسی حکومت جو بظاہر عوامی ہو مگر حکومتی فیصلہ سازی سے اس کا تعلق واجبی ہو ۔یہ پبلک پرائویٹ پارٹنرشپ طرز کا منصوبہ ہے۔

اس کو کامیاب کرنے کے لیے چنا گیا ایک ایسا ہیرو جوکہ سحر انگیز شخصیت کا مالک ہے۔مشرق مغرب اس کے سحر میں مبتلا رہا ہے ۔اس کا رول حکومت میں وہی ہے جوکہ فلم میں ہیرو کا ہوتا ہے پس پردہ ہدایت کار ہمارے اصل محافظ ہی ہیں جن کی وطن سے وفاداری مسلمہ ہے۔ عوام پر ہیرو کا جادو چل رہا ہے۔اگر یہ اسکرپٹ کے مطابق چلتا رہا اور۔اداکار سے ڈائریکٹر بننے کی کوشش نہ کی تو یقینا ملکی سیاست اور معیشت میں استحکام رہے گا ۔ملک ترقی کرے گا۔فلم ہٹ ہوئ تو ہیرو کو مزید کام بھی ملتا رہے گا ۔ہمیں صبر سے کام لینا ہوگا ۔ اس نئے تجربہ کو کامیاب ہونے دیں ۔ انشاءاللہ اچھا وقت ضرور آئے گا۔ورنہ دوسری صورت میں ہمارے پاس فی الحال کوئی ہیرو نہیں ہے۔دور رور تک خلا نطر آتا ہے۔خان کے بعد تو صرف ایک ہی عوامی ہیرو ہےوہ ہے شاہد خان آفریدی ۔

خان صاحب کو تو کسی نہ کسی طرح قوم برداسشت کرہی لے گی آفریدی کا تو تصور کرکے ابھی سے جھرجھری سی آجاتی ہے۔ذرا چشم تصور سے دیکھیں تو سہی مزا نہ آئے تو آنکھیں کھول لیجئے گا۔

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50213 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.