وطنِ عزیز میں ہمیشہ پاک چین دوستی کو عزت اور افتخار کی
نظر سے دیکھتے ہوئے پاکستان کےلیے مسعود اور مثبت دوررس نتائج کا حامل
نظریہ خیال کیا جا تا رہا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ موجود ہ دور کی بین
الاقوامی طاقتوں کے توازن کو پاکستانی لینڈ اسکیپ میں متوازن کرنے کے لیے
پاکستان کو چین کی حمایت بہر صورت درکا ر ہے جس کی سب سے بڑی وجہ پاکستانی
کے ازلی حریف بھارت کی موجودگی اور امریکہ کے ساتھ بنتے بگڑتے تعلقات رہے
ہیں۔ اسکے علاوہ پاکستان کی اپنی داخلی سیاست نے بھی وطنِ عزیز کی سالمیت
اور بقا کو دنیا میں کئی جگہ بطور رہن رکھوایا ہے ۔ سونے پر سُہاگہ یہ کہ
پاکستان اور چین اب مزید سالوں کے لیے سی پیک جیسے منصوبے کے بندھن میں
بندھ چکے ہیں جسےہر لحاظ سے پاکستانی معیشت کے Revival سے تعبیر کیا جا رہا
ہے اور ہمیشہ کی طرح عوام کو اس منصوبے کے بھی تمام نتائج سے قطعی طور پر
بے خبر رکھا جا رہا ہے۔ لہذا حقیقت پسندی تو یہی ہے کہ پاکستان فی الواقع
قطعی طور پر چین جیسی معاشی طاقت کے ساتھ بہترین تعلقات قائم رکھنے کے
علاوہ کوئی دوسری متضاد یا دوہری پالیسی خاص کر چین کے حوالے سے وضع نہیں
کرسکتا ۔
لیکن کیا کبھی نے اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ دوستی اور سپورٹ کے اس طشت
میں سرمایہ کاری اور جدید ٹیکنالوجی کے غلاف کے نیچے پاکستانی عوام کےلیے
غربت، بیروزگاری اور معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز کی خودمختاری پر
جس طرح چینی کاروباری کمپنیاں دست درازی کر رہی ہیں وہ آنے والے وقت میں
ہمارے ملک و قوم کےلیے کس قدر پریشان کن نتائج سامنے لاسکتی ہیں؟ محض پاک
چین دوستی کے نعرے کی آڑ میں جس طرح چھوٹی بڑی پاکستانی کنسٹرکشن اور
کنسلٹنٹ کمپنیاں چینی کمپنیوں کی محتاج بن کر رہ گئی ہیں اسکی وجہ سے
پاکستان کے لوکل سرمایہ کاروں ، انجینئرز، ٹیکنیکل لیبر اور مزدور طبقے پر
کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ سوا ل یہ ہے کہ یہ کیسی دوستی ہے جس میں آپ کا
دوست آپ کے گھر سے تمام تر وسائل سمیٹنے کے لیے اپنے لوگ بھی ساتھ لے آئے
اور آپ اپنی عوام کو یہی باور کرواتے رہیں کہ جو ہورہا ہے انکے بہتر مستقبل
کے لیے ہو رہا ہے؟
رواں سال جولائی میں Competition Commission of Pakistan کی ایک رپورٹ کے
مطابق پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کےنتیجے میں
مطلوبہ انفراسٹرکچر Developکرنے کے لیے پاکستان نے سڑکوں اور پلوں کا جال
بچھانے کے لیے چین کی نامزد کردہ چند سرکاری کمپنیوں کو کنٹریکٹس دیے ۔
چونکہ یہ کمپنیاں چین کی سرکاری کمپنیاں تھیں اس لیے لامحدود وسائل اور
سرمایہ کاری کے باعث کوئی لوکل کمپنی انکا مقابلہ ویسے ہی نہیں کر سکتی تھی
لہذا Competitive Tendering کا تو سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن
گورنمنٹ آف پاکستان کی ہدایت پر چینی کمپنیوں نے تمام کنٹریکٹس کا 30فیصد
کام لوکل کنٹریکٹرز سے کروانے کا وعدہ کیا۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب بھی
کنٹریکٹ ایوارڈ کروانے میں کامیاب ہو جانے والی کمپنی چھوٹی کمپنیوں کو کام
آگے Sublet کرتی ہیں تو وہ سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع کا بہت کم
حصہ چھوٹی کمپنیوں تک پہنچنے دیتی ہیں جس کی وجہ سے مقامی کمپنیوں نے بجائے
Sublet کیا ہوا کام لینے کے چینی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچرز کرنا شروع
کر دیا جسکا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ چینی کمپنیاں خود تو Sleeping Partner
بن جاتی ہیں اور کام سارا وہی لوکل کمپنی کر رہی ہوتی ہے جسکی وجہ سے ایک
تو کوالٹی پر اچھا خاصہ سمجھوتہ ہوتا ہے دوسرا آپ کے مقامی کاروباری افراد
اور ملازمین پھر بھی اس وسیع تر سرمایہ کاری سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا
سکتے۔ جو کہ پاکستان انجینئر نگ کونسل کے بائی لاء سیکشن 4سب سیکشن 4 کی
کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے۔
چائنیز کمپنیاں اپنے جو ڈاکیومنٹس ویریفیکیشن کے لیے لوکل اتھارٹیز میں جمع
کرواتی ہیں وہ ویسے ہی نا انگلش میں تحریر کیے گئے ہوتے ہیں نا اردومیں ،
بلکہ وہ چینی زبان میں ہی تحریر شدہ ہوتے ہیں جس وجہ سے اپنے مقامی
کنٹریکٹرز کو قانونی پیچیدگیوں اور قواعد و ضوابط کے بکھیڑوں میں الجھانے
والی لوکل اتھارٹیز چینی کمپنیوں کی فنانشل رپورٹس، Annual Construction
Turnoverیا ان کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد کی Qualifications کا معیار
تک چیک کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔
ایک اور چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری اینٹر پرائز کو پاکستان میں
بڈسیکورٹی (Bid Security) اور انکم ٹیکس کی مد میں استثنی حاصل ہے ، چونکہ
پاکستان میں کنٹریکٹس لینے والی تمام چینی کمپنیاں State Owned Enterprises
کی مد میں آتی ہیں لہذا وہ پراجیکٹ کا مجموعی تخمینہ اسی بنیاد پر حکومتی
PC-1سے بھی بہت کم لگاتی ہیں اور اسی وجہ سے کنٹریکٹ انہیں ایوارڈہوجا تا
ہے ۔ اب لوکل کمپنیاں نا تو سرمایہ کاری کے اعتبار سے ، نا دیگر وسائل کے
اعتبار سے اور نا ہی ٹیکس میں چھوٹ کے اعتبار سے ان چینی کمپنیوں کا مقابلہ
کر سکتی ہیں ، نتیجتا پاکستانی چھوٹے بڑے کنٹریکٹرز محکوم بن جاتے ہیں اور
چینی کمپنیاں حاکم ، نتیجہ جسکا یہ نکلتا ہے ہر پراجیکٹ پر کسی صورت بھی
دلجمعی سے کام نہیں کیا جاتا ۔ نا سرمایہ لگانے والوں کو پراجیکٹس کی خیر
مطلوب ہوتی ہے نا کام کرنے والوں کو ۔اسی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس بات
کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جن چینی کمپنیوں کو چین میں اعتماد حاصل نہیں
ہے اور انہیں وہاں مختلف اداروں میں بلیک لسٹ کیا جا چکا ہے وہ یہاں قابل
پاکستانی کنٹریکٹرز کا مقابلہ کر کے سارا کام لے جاتی ہیں اور کوئی پوچھنےو
الا بھی نہیں ہے۔
یہ سب وہ حقائق ہیں جنہیں ہم ایک بار پھر فراموش کر رہے ہیں اور ہمیشہ کی
طرح جب سانپ نکل جا ئیگا تو ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں گے ۔ مملکت خداداد وسیع
تر قدرتی وسائل سے مالا مال جنت کا ٹکڑا ہے ، ہم سب لوگوں کو مل کر اپنی
زمین کی حفاظت ، بقا اور سلامتی کی جنگ لڑنی ہے بجائے اسکے کہ ہم دوسروں کو
اپنا ہمدرد سمجھ کر حسبِ سابق خطا کھاتے رہیں۔ جو کوئی بھی ہمارے لوگوں کی
حق تلفی کرتا ہے وہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر ایسا مخلص دوست نہیں کہ اس پہ
اندھا اعتماد کر لیا جائے۔
|