وزیراعظم عمران خان یہ کام کرسکتے ہیں۔پاکستان نے مسلہ
کشمیر کے حل کے لئے سفارتی مہم تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیراعظم
عمران خان نے اس سلسلے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ہدایات دی ہیں۔
اسی تناظر میں دنیا بھر میں پاکستانی مسفارتی مشنز نے کشمیر کو اپنی
ترجیحات میں رکھنے کی حکمت عملی طے کرنی ہے۔ وزارت خارجہ نے جو تازہ میمو
جاری کیا ہے اس کے مطابق پاکستان مسلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنا
چاہتا ہے۔ بھارت کو بار بار بات چیت کے پیغامات دیئے جا رہے ہیں۔ مگر وہ
جارحیت پر قائم ہے۔ وہ کشمیر میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ اس
سے قبل شمالی ائر لینڈ اور مشرقی تیمور ماڈلز کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں ایک معذرت کہ غیر شعوری تکنیکی خرابی سے یہ کہا گیا کہ شمالی
ائر لینڈ نے انڈونیشیا سے آزادی حاصل کی جب کہ مشرقی تیمور نے انڈونیشیا سے
آزادی حاصل کی۔ جب کہ ائر لینڈ فارمولے پر بھارت میں کانگریس بھی غور کرتی
رہی ہے۔ اس کے لیڈر اور سابق سینئر سفارتکار سلمان خورشید نے بھی اس
فارمولے کو زیر گور لانے کی تجویز دی تھی۔ جس کی بی جے پی کے سینئر لیڈر
اور سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا نے کھل کر حمایت کی تھی۔ وہ آئی آر
اے امن معاہدہ کے طرز پر بات چیت کی وکالت کر رہے تھے۔ بی جے پی بلکہ اس حد
تک کہا تھا کہ جنوبی ایشیا کی یونین قائم کی جائے۔ جس میں سرحدین سافٹ کر
دی جائیں۔ جنوبی ایشیا کی یونین یورپین یونین کے طرز پر قائم کی جا سکتی ہے۔
مگر یہ معاملہ سیاست اور نفرتوں کی نذر ہو گیا ۔ یشونت سنہا نے کہا کہ
مواقع کو ضائع کیا گیا، فیصلوں میں غلطی ہوئی اور ہم 1947میں اختیار کئے
گئے سسٹم کا شکار ہو کر رہ گئے۔
عمران خان حکومت اب سرگرمی سے مسلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے نئے انداز میں
مہم چلانا چاہتی ہے۔ جب کہ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی کبھی سرگرمی دکھائی
دیتی تھی۔ میاں نواز شریف کی پہلے اٹل بہاری واجپائی اور پھر نریندر مودی
کے ساتھ براہ راست ڈپلومیسی چل رہی تھی۔ پرویز مشرف نے بھی واجپائی اور
منموہن سنگھ کے ساتھ بات چیت جاری رکھی اور دعویٰ کیا گیا کہ وہ کشمیر حل
کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ ان کے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے مسلے کے صرف
نٹ اور بولٹ کسنے کی بات کی۔ وہ دعوی کر رہے تھے کہ کسی معاہدے پر دستخط
ہونے باقی تھے۔ پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو صاحب ہزار سال تک جنگ کی بات کر
رہے تھے۔ پھر ان کی بیٹی محترمہ بینظیر صاحبہ نے بھارتی وزیر اعظم راجیو
گاندھی کے ساتھ بات چیت جاری رکھی۔ محترمہ دہلی میں میڈیا کو بتایا تھا کہ
کہ مسلہ کشمیر کا حل مستقبل پر چھوڑ دیا جائے گا۔ آصف علی زرادری حکومت نے
بھی یہی لائن اختیار کی کہ پاک بھارت دوستی کریں اور کشمیر کا حل مستقبل پر
چھوڑ دیا جائے۔ مسلہ کشمیر کو منجمد کرنے کی صدائین کئی بار سنائی دی ہیں۔
مگر کشمیر میں تحریک آزادی اور لازوال قربانیوں کے بعد ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
کشمیریوں نے بھی سمجھا کہ وہ بار بار تحریک آزادی کو کیسے منظم کر سکیں گے۔
جو ہونا ہے آج ہی ہو۔ تا ہم یہ بھی ایک رائے رہی کہ اگر آج کی حکومت یا
حالات نا موافق ہیں تو بلا شک تحریک کو آئیندہ نسل پر چھوڑ دیا جائے۔ مگر
تحریک آزادی کے حالات نے اس کی اجازت نہ دی۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلہ کشمیر کا حل فوجی نہیں۔ بندوق سے تباہی پھیلتی ہے۔ تا
ہم حل تک پہنچنے کے لئے بندوق کو مجاہدین نے ایک سیڑھی کے طور پر استعمال
کیا۔ مگر کسی حل کے لئے تمام فریق سیز فائر کریں جو غیر مشروط ہو۔ اس سیز
فائر کی نگرانی اقوام متحدہ براہ راست کر سکتی ہے۔ اس کے فوجی مبصرین
سرینگر، مظفر آباد، راولپنڈی اور کشمیر کے دونوں علاقوں میں موجود ہیں۔ وہ
جنف بندی لکیر کی نگرانی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کر سکتے ہیں۔ بات چیت پاکستان
اور بھارت کے درمیان صرف دو طرفہ نہ ہو، دو طرفہ بات چیت کا 71سال میں کوئی
فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ مذاکرات سہ فریقی ہوں۔ پاک بھارت اور کشمیری اس میں ایک
میز پر شامل ہوں۔ یا اقوام متحدہ کا نامزد مشن یا ایچی پاکستان، بھارت،
کشمیریوں سے بات چیت کرے ، ، انٹرا کشمیر بات چیت ہو، پاک بھارت حکومتوں
میں بات چیت ہو، ،چین اور یو این بھی بات چیت میں شامل ہو۔ تیسرا فریق کی
پاک ، بھارت اور کشمیریوں کے درمیان بات چیت کی کوارڈی نیشن اور معاونت کرا
سکتا ہے۔
کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 7کے تحت لانا ضرورہ ہو گا۔ اس
چیپٹر کے آرٹیکل 39تا 51میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی ملک جارحیت
کرتا ہے یا کسی ملک کی وجہ سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے تو سلامتی کونسل
از خود نوٹس لے کر اس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ جب کہ کشمیر کو چیپٹر
6کے تحت رکھا گیا ہے۔ جس کے آرٹیکل 33تا 38تک تنازعات کے حل کے لئے باہمہ
بات چیت پر زور دیا گیا ہے۔ کسی ایک ملک کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں
ہو سکتا۔ پاکستان لاکھ بار مذاکرات پکارتا رہے ، بھارت کی اگر مرضی نہ ہو
تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ مگر آج کے حالات میں جب پاک بھارت ایٹمی طاقتین ہیں
تو مسلہ کشمیر پر ایٹمی جنگ کا بھی خطرہ موجود ہے۔ اس خطرہ کو عمران خان
حکومت دنیا میں اجاگر کر سکتی ہے۔ اس سے عالمی امن خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ اس
لئے سلامتی کونسل از خود کارروائی کا حق محفوظ رکھے۔ سب سے پہلے مسلہ کشمیر
کو چیپٹر 7کے تحت لانے کے لئے کوئی قرارداد سلامتی کونسل میں لائی جائے۔
|