سابق وزیر اعظم کی خاموشی کے دومطلب ہیں۔ایک تو یار لوگوں
کی طرف سے کسی خفیہ ڈیل کی بات کی تصدیق یا پھر یہ کہ میاں صاحب کی حکمت
عملی جس کے ذریعے وہ نام نہاد تبدیلی کی اصل حقیقت سامنے لایا جانا مقصود
ہے۔میاں صاحب خاموش ہیں۔مریم صاحبہ لاتعلق لاتعلق سی ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے
اندر ہی اندر کوئی لانگ ٹرم پلاننگ کی جارہی ہو۔ووٹ کو عزت دو کے راؤنڈ ٹو
کی کوئی پلاننگ ۔جب تک یہ پلاننگ مکمل نہیں ہوتی خاموش رہنے کا فیصلہ کیا
گیا ہے۔جب سے سابق وزیر اعظم کو ضمانت پر رہائی ملی تھی تب سے ا ن کے رویے
میں ٹھہراؤ جارہاہے۔وہ اظہار سے زیاد مشاہدے پر زور دے رہے ہیں۔ ان کے خلاف
دوسرے ریفرنسز کا فیصلہ بھی حسب توقع آچکا ۔اب کوئی بے چینی نہیں۔وہ قدرے
ریلیکس ہیں۔اپنی سزا کے خلاف اپیل کرچکے ان دنوں تحریک انصاف ۔سندھ حکومت
اور عدلیہ کے درمیان جو عجب چومکھی معاملہ چل رہا ہے اس سے بھر پور لطف
اندوز ہورہے ہیں۔
تحریک انصاف لیگی قیادت کو اپنے تئیں قابو میں کرلیے جانے کے بعد اب پی پی
قیادت کی طرف نظریں جمائے ہوئے تھی۔جعلی اکاؤنٹس کی بنیا د پر سابق صدر اور
پارٹی کے شریک چیئرمین کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہاتھا۔ایسے میں جانے کس
سیانے نے مشورہ دے دیا کہ سندھ حکومت کو گرایا جائے۔اس سے پی پی قیادت کو
قابو کرنا آسان ہوجائے گا۔مشور ہ دیا گیا کہ اول تو وہاں ان ہاؤس طریقے سے
تبدیلی کی کوشش کی جائے۔سندھ اسمبلی کے ممبر ان کی وفاداریاں بدلوائی
جائیں۔اگر یہ طریقہ کامیاب نہیں ہوتا تو پھر گورنر راج لگا کر کچھ مہینوں
تک یہان کا کنٹرول حاصل کیا جائے ۔گورنر راج کے دوران ہی تمام پکڑدھکڑ کرکے
ٹارگٹ اچیو کرلیا جائے۔اس طرح کے مشورے کو غیر داشمندانہ مشورہ ہی کہا
جاسکتا ہے۔بھلا حکومت گرانا ضروری تھا؟ اگر آپ کے پاس معقول مواد ہے تو
قانونی کاروائی میں کون مانع ہوسکتاہے۔مداخلت تو تب ہوگی نا جب آپ کوئی غیر
قانونی یا کوئی بے تکا کام کرنے جارہے ہوں گے۔مشورے کی نامعقولیت ہی تھی کہ
یہ چوبیس گھنٹوں میں ہی ٹھس ہوگیا۔وفاقی وزیر اطلاعات کا دورہ سندھ ملتوی
ہونا اس مشور ے کی نامعقولیت کی دلیل ہے ۔ان کہ کہنا تھا کہ دورہ سندھ
ملتوی ہونا مشاورت کے تحت تھا۔وزیر اعظم سمجھتے تھے کہ اس دورے سے منفی
تاثر سپریم کورٹ میں جاسکتاتھا۔یاد رہے چیف جسٹس صاحب نے نہ صرف وزیر اعلی
سندھ کا نام ای سی ایل پر ڈالے جانے پر حکومت سے وضاحب طلب کی تھی۔بلکہ یہ
بھی کہہ دیا کہ اگر گورنر راج لگا تو اسے ہٹنے میں ایک منٹ لگے گا۔سپریم
کورٹ کے اس اعلان کے بعد وفاقی حکومت کے پاس سوائے انگور کھٹے ہیں کہنے کے
کوئی چارہ نہ تھا۔وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد نے بھی کہہ دیاکہ ان کی
جماعت نے کبھی بھی سندھ میں گورنر راج کی بات نہیں کی یہی نہیں بلکہ پی ٹی
آئی سندھ کے رہنماؤں کی اچھل کود کو بھی بریک لگ گئی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف اس سارے منظر نامے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔قدرے
لاابالی انداز میں ۔العزیزیہ ریفرنس مین ملنے والی سز اکے خلاف ان کی اپیل
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کردی جاچکی ۔سابق وزیر اعظم کے وکیل کا موقف ہے
کہ سز ا قانون کی غلط تشریح کے سبب ہوئی۔اسے ختم کرکے ضمانت پر رہائی کا
حکم جاری کیا جائے۔تحریک انصا ف کے لیے اچھ اوقت نہیں ہے۔سندھ حکومت پر
یورش فی الحال ناکام ہو چکی۔شاید اب کچھ مہینوں تک دوبارہ ایسا ماحول نہ
بنایا جاسکے۔یہاں سے تحریک انصا ف کی قیادت کو فی الحال پسپائی ہوئی۔سابق
وزیر اعظم نوازشریف کی اپیل پر فیصلہ بھی وفاقی حکومت کی توقع کے خلاف
آسکتاہے۔ایسے وقت میں جب کہ دو ایک جیسے ریفرنسز میں سے ایک میں بریت سامنے
آچکی۔کرپشن ثابت نہ ہونے کا فیصلہ آچکا۔اگر دوسرے ریفرنس جس پر نوازشریف کو
سز اسنائی گئی کا فیصلہ بھی معطل ہوجاتاہے تو حیرت نہ ہوگی۔تحریک انصاف کے
لیے آزمائشیں بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔۔اپنے وہ مسلم لیگی قیادت کا کھاتہ
بند کیے بیٹھی تھی۔اس کی توجہ صرف پی پی قیادت کی طرف تھی۔اب ایک تو سندھ
میں تبدیلی اقتدار کا منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہوپایادوجے مسلم لیگ قیادت کے
سیاسی میدان میں دوبارہ سرگرم ہو نے کے امکانات بڑھتے نظرآرہے ہیں۔اگر میاں
صاحب ایک بار پھر ضمانت پر جیل سے باہر آجاتے ہیں تو اس وقت وفاقی حکومت کے
پاس انہیں پابند کرنے کا کام آسان نہ ہوگا۔پچھلے دو اڑھائی سال سے نوازشریف
کے بال بال کا احتساب کیا جاچکا۔ان کی حکومتوں کااحتساب ۔ان کی فیملی کا
احتساب ۔ان کے کاروبار کا احتساب ابھی تک وہ کسی بڑے معاملے میں جرم وار
ثابت نہیں کیے جاسکے۔بالخصوص جس طرح کا سار ا ٹبر چور ہے کا پراپیگنڈ ا کیا
گیا تھا۔ویسی کوئی بات نکل نہیں پائی۔نوازشریف کا نام کچھ دنوں کے لیے
مصنوعی طور پر ضروری دھندلا بنا دیا گیا تھا۔یہ دھندلاہٹ گھٹتی چلی جارہی
ہے۔ممکن نہ ہوگا کہ اب سابق وزیر اعظم پر کوئی نیا معاملہ فٹ کیا جاسکے۔
برا وقت ٹلتا محسوس ہورہا ہے۔ |