عدم تحفظ کا شکار محافظ

ملوکیت میں ’جیسا راجہ ویسی پرجا ‘ ہوا کرتی تھی لیکن جمہوریت میں ’ جیسی پرجا ویسا راجہ‘ ہوگیا لیکن ہر دو صورت میں ’راجہ اور پرجا ایک جیسے ‘ہوتے ہیں ۔ اس حقیقت کا نظارہ فی الحال اترپردیش میں ہورہا ہے جس کو’ اُتمّ پردیش‘ بنانے کا دعویٰ کرنے کے بعد ’الٹا پردیش ‘ بنا دیا گیا ۔ یہ وعدہ جس چوکیدار نے کیا تھا وہ چور نکل گیا ۔ اس نے ایک یوگی کے لبادے میں ملبوس بھوگی کے ہاتھوں میں زمامِ حکومت سونپ دی اور اب اس حماقت کی قیمت صوبے کے لوگ اور انتظامیہ چکا رہا ہے۔ بلند شہر میں تھانیدار سبودھ کمار سنگھ کا دن دہاڑے بہیمانہ قتل ہوگیا ۔ اس ظلم کو وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ ایک حادثہ قرار دے دیا اور گئوماتا کے لیے آنسو بہانے لگے ۔ اس کے بعد بلاثبوت یہ دعویٰ کردیا کہ اقتدار سےمحروم لوگوں کی سازش ہے ۔ اس کے بعد بی جے پی کے ارکان اسمبلی نے یہ جواز پیش کیاچونکہ سبودھ کمار ایف آئی آر نہیں درج کررہے تھے اور گئوکشی کو روکنے میں ناکام ہوگئے تھے اس عوام کو غصہ ابل پڑا۔ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فساد کو عوام کے غم و غصہ کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔

سبودھ کمار کیلاش کے پوسٹ مارٹم نےجب گولی سے موت کی تصدیق کردی تو علی گڈھ سے بی جے پی کے رکن اسمبلی دیویندر سنگھ لودھ نے یہ انکشاف فرما دیا کہ اپنے آپ کو بچانے کی جلدی میں سبودھ کمار خود پر گولی چلادی ۔ اس طرح سے گئوتنکوادیوں کا تحفظ تو راجستھان کی سابق وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا نے بھی نہیں کیا تھا اس کے باوجود وہ اپنے عبرتناک انجام کو پہنچ گئیں اب یوگی جی کا کیا حشر ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا ؟ ویسے دیویندر سنگھ سے کوئی اور توقع کرنا بھی درست نہیں ہے۔ تین ماہ قبل ان کے خلاف بجلی گھر کے ایک جونیر انجنیر کی پٹائی کا مقدمہ درج ہوچکا ہے۔

اس بیچارے سرکاری افسر کاقصور صرف یہ تھا اس نے رکن سمبلی کی مرضی کے مطابق رپورٹ بنانے سے انکار کردیا ۔ ڈیوٹی پراس سرکاری افسر کو پہلے تو رکن اسمبلی کے بیٹے گنگا پرساد نے دھمکایا پھر اس کے والد نے وہاں پہنچ کر گالی گلوچ کی اور قمیض پھاڑ دی ۔ اس کو دھمکی دی اگر وہ اپنا تبادلہ نہیں کرواتا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ اس طرح کا مجرم سیاستداں اگر اپنے جیسے قاتلوں کو بچانے کی سعی نہیں کرے تو کیا کرے گا؟ دیویندر سنگھ نے اس افسر کے خلاف اپنا رسوخ استعمال کرکے شکایت درج کرادی لیکن ان کی ویڈیو ذرائع ابلاغ میں وائرل ہوچکی ہے۔

مجرم پیشہ زعفرانی پارٹی کے ذریعہ اپنےکارکنا ن کی اندھی حمایت کا یہ نتیجہ نکلا کہ سبودھ کمار کے بعد ایک بھیڑ نے سریش کمار وتس نامی پولس حوالدار کو پہلے تو پتھر سے مار کر زخمی کیا اور پھر زدوکوب کرکے جان سے مارڈالا۔ فی الحال بی جےپی کے ستارے اس قدر گردش میں ہیں کہ اس کے سارے داوں الٹے پڑجاتے ہیں۔ رافیل معاملے میں عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ کروانے کے بعد عدلیہ کو گمراہ کرنے کا الزام گلے آگیا ۔ اسی طرح نشاد ذات کے لوگوں کو ان کے رہنما راج بھر سے الگ کرکے اپنے ساتھ کرنے کے لیے مودی جی نے غازی پور میں جنراجہ سہیل دیو کے نام ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کی چال چلی ۔

اس موقع خوش ہونے کے بجائے نشاد سماج کے لوگ اپنا ۱۰سال پرانا ریزرویشن کا مطالبہ لے کر احتجاجاً راستہ جام کردیا۔ بی جے پی کے کارکنا ن کو اس بات پر غصہ آیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے خلاف مظاہرے کی جرأت کیسے کی۔ اس طرح این ڈی اے کے دو فریق آپس میں بھڑ گئے۔ یہ جھگڑا چکانے کے پولس درمیان آئی تو مشتعل بھیڑ نے حوالدار کو قتل کردیا۔ اس طرح سریش وتس کی بلی چڑھ گئی۔اس معاملے میں وزیراعظم کی پراسرار خاموشی قابل مذمت ہے اس لیے کہ یہ پولس دستہ وزیراعظم اوران کے ساتھیوں کا تحفظ عطا کرنے پر تعینات کیا گیا تھا۔

یہ مجرمانہ ذہنیت صرف بی جے پی کی حد تک نہیں ہے۔ بنگلور میں کانگریس کی حلیف جنتادل (ایس) کے وزیراعلیٰ کمار سوامی کو جب وجئے پورہ ضلع سےاپنی پارٹی کے کارکن پرکاش کے قتل کی خبر ملی تو انہوں نے برملا کہا کہ (انہیں) بے دری سے قتل کردو۔یہ ویڈیو جب وائرل ہوا تو وزیر موصوف نے صفائی میں کہا میں جذبات میں آگیا تھا۔ یہ معاملہ صرف سیاستدانوں تک بھی محدود نہیں بلکہ ویر بہادر سنگھ پوروانچل یونیورسٹی کے وائس چانسلر راجہ رام یادو کا وائرل ویڈیو بھی اگر کوئی پڑھا لکھا آدمی بھی دیکھ کے تو اس کا سر شرم سے جھک جائے ۔ راجہ رام فرماتے ہیں طالبعلم وہ ہے جو چٹانوں پر پاوں مارے تووہاں سے پانی دھار نکلتی ہے۔ جو اپنی زندگی میں ارادہ کرے اور اسے پورا کرکے رہے تو اسے پوروانچل یونیورسٹی کا طالب علم کہتےہیں۔ اگر آپ اس جامعہ کے طالب علم ہیں تو میرے پاس کبھی روتے ہوئےمت آنا۔ اگر کسی جھگڑا ہوجائے تو اس کی پٹائی کرکے آنا۔ بس چلے تو مرڈر( قتل)کرکے آنا۔ اس کے بعد ہم دیکھ لیں گے ۔

وائس چانسلر جب اس طرح اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دے ، وزیراعلیٰ پر تشدد بھڑکانے کا مقدمہ درج ہو اور وزیراعظم کے ہاتھ بے قصوروں کے خون سے رنگے ہوں تو محافظوں کا عدم تحفظ کا شکار ہوجانا توقع کےعین مطابق ہے ۔ اتر پردیش میں اگرسبودھ سنگھ کے قاتل گئوتنکوادیوں کو بچایا نہیں جاتا تو سریش وتس کے قتل کی نوبت نہیں آتی اور وتس کے اہل خانہ ۴۰ لاکھ کی مدد وزیراعلیٰ کے منہ پر نہیں مارتے۔سریش وتس کے گھر والوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ ہم رقم نہیں انصاف چاہیے ۔ کاش کہ سیاستداں انصاف کی قدروقیمت سے واقف ہوتے اور ملک کو جنگل راج بننے سے بچا لیتے۔ فی الحال یہ لاقانونیت کے یہ شعلے اترپردیش میں تیزی کے ساتھ پھیلتے جارہے ہیں ۔غازی پور ٔ کے بعد لکھنو بھی میں پولس پر لوگوں نے پتھراؤ کیا ہے۔

لکھنو کے اندر ایک پانچ سال کی بچی جمعہ کے روز لاپتہ ہو گئی تھی۔ بچی کی لاش جب ریلوے کراسنگ کے پاس ملی تو اس کے اہل خانہ لاش کے ساتھ سڑک پر جام لگا دیا۔ مقامی لوگ پولس انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے لگے۔ پولس موقع نے جب موقع واردات پر پہچر کر مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن ناراض بھیڑ نے پولس پر پتھراؤ شروع کر دیامجبوراً پولس لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ اتر پردیش کے علاوہ جھارکھنڈ سے بھی سنگھ کارکنان کے آپس میں لڑ پڑنے کی خبر آگئی ۔ مزے کی بات یہ ہے اس دنگا فساد سے قبل سر سنگھ چالک موہن بھاگوت انہیں ہندوتوا کے سنسکار سکھا کر گئے تھے جس کی مشق انہوں نے ایک دوسرے خلاف شروع کردی ۔ ایک دوسرے پر خوب لات-گھونسے چلاکر گالیاں دے کر اپنی عظیم تہذیب و تمدن کا نمونہ پیش کیا ۔ پہلے یہ فتنہ اقلیتوں کے لیے پھر انتظامیہ اور اب ایک دوسرے کے لیے عذاب جان بن گیا ہے ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220844 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.