مولانا ابوالکلام آزاد کسی تعارف کے محتاج نہیں،آپ بے بدل
خطیب عالم اور سیاست دان تھے، تاریخ اور سیاست کا طالب علم ان سے اچھی طرح
واقف ہے، آپ 1939ءسے 1946ءتک مسلسل سات سال کانگریس کے صدر رہے ۔آپ نے اپنی
آپ بیتی "انڈیا ونس فریڈم"(جس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے)میں لکھا" میری
زندگی کی سب سے بڑی غلطی جس کے لئے میں خود کو کبھی معاف نہیں کرسکتا، نہرو
کو اپنی جگہ کانگریس کا صدر نامزدکرناتھی ، اگر میں ایسا نہ کرتا تو شائد
آج تاریخ کچھ اور ہوتی"۔مولانا لکھتے ہیں " گاندھی جی سمیت پوری کانگریس اس
فیصلے کے حق میں نہیں تھی"۔ وہ قائداعظم محمدعلی جناح سے ذیادہ نہرو اور ان
کے ساتھیوں کو تقسیم ہند کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔وہ اپنی کتاب میں گاندھی جی
اورسردار پٹیل کی ناراضی کی وجہ مسلمانوں کا قتل عام بتاتے ہیں ۔خود گاندھی
جی ایک جنونی ہندو کے ہاتھوں صرف اس لئے مارے گئے کہ وہ فسادات میں گھرے
مسلمانوں کی حمائت کررہے تھے ۔ میں جب تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے
مسلمانوں کا تقابل کرتا ہوں، توقائداعظم اور ان کے رفقاء کی دور اندیشی اور
بصیرت کا قائل ہوناپڑتاہے ، کہ وہ بہت جلد بھانپ گئے تھے کہ ہندو ، مسلم دو
الگ قومیں ہیں جن کا ایک ساتھ برابری کی سطح پہ رہنا ممکن نہیں، یہ ایک ہی
صورت میں اکٹھے رہ سکتے ہیں کہ ان میں سے ایک حاکم ہو اور دوسری محکوم ۔
اگرچہ اپنے نااہل حکمرانوں کی بدولت پاکستان کچھ خاص مادی ترقی نہیں کرسکا
(تاہم اس کا قائم رہنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں )لیکن ہندوستان کی اقلیتوں
سے بہرحال یہاں کے لوگ بہتر زندگی بسر کررہے ہیں ۔ 2004ء میں احمدآباد کے
ہندو مسلم فسادات میں ہزاروں نہتے مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام آخر ان
کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہی تو کیاگیا ، بابری مسجد کی شہادت ابھی کوئی
ذیادہ پرانی بات نہیں ۔ اس کے علاوہ آئے روزاپنی " گئوماتا" (گائے)کے تحفظ
کے لئے مسلمان نوجوانوں کی تذلیل اور ان کا قتل ہندوستان میں عام سی بات ہے
۔حقیت یہ ہے کہ جنونی ہندووں سے کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں، کبھی عیسائیوں
سمیت پوراچرچ جلاکر راکھ کردیا جاتاہے، تو کبھی دہلی میں صرف دو دنوں میں
70 گردوارے مسمار اور تین ہزارسکھ زندہ جلا دیے جاتے ہیں ۔سکھ قوم نے
1984ءمیں بھارت ماتا سے وفاداری کی بڑی بھاری قیمت چکائی، جب ہندوستانی فوج
نے ان کے مقدس ترین "گولڈن ٹیمپل میں چند دنوں میں پانچ ہزار مرد ،
عورتیں،بزرگ اور بچے کالی ماتا کی بھینٹ چڑھادئے۔
مشہور صحافی خوشونت سنگھ اپنی کتاب "بھارت کاخاتمہ" میں اندراگاندھی کے قتل
کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پہ پولیس کے ریٹائرڈ ڈائرکٹر جنرل این ایس
سکسینہ کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔" دہلی، کانپور،غازی آباد کی پولیس کا تاثر
یہ تھا کہ سکھوں کے خلاف بلووں کو حکومت کی منظوری حاصل ہے"۔
بھارتی فلموں سے متاثر ہمارے نوجوان کاش ایک گہری نظر وہاں کے مسلمان اور
دوسری اقلیتوں کی ابتر حالت پہ ڈالنا گوارہ کریں، پاکستان اللہ کی طرف سے
ہمارے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے ، اور اس نعمت کا تحفظ دو قومی نظریے میں
مضمر ہے۔ خوشونت سنگھ اپنی اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں ۔" جناح
نے دو قومی نظریہ پیش کیا تو وہ غلط نہیں تھے۔کیونکہ ان سے پہلے ہم خود
عملی طور پہ مسلمانوں کو ایک الگ قوم تصور کرتے تھے"۔ |