اس 71 سال کے پاکستان میں تمام صفِ اول اور دوم کے
سیاستدانوں اور چھوٹے بڑے سرکاری افسروں نے اس مقولے کو بڑی تندہی سے اپنا
نصب العین بنا لیا ہے کہ” کھا و پیو ، پکڑائی نہ دو “۔ماضی میں جوں ہی اس
غلیظ و کثیف فعلِ بد میں مبتلا لوگوں کے خلاف قانون حرکت میں آیا تو انہوں
نے راتوں رات لندن کا رخت سفر باندھ لیا، ہمیشہ یہی شہر ان سب کے کرپشن زدہ
ملجا و مادیٰ کا مسکن ٹھہرتا ہے ۔ دو چار دفعہ مجبور عدالتیں ہاؤ ہو کرتی
ہیں، میڈیا بھی اپنے مفادات کی حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئے شورمچاتا ہے
اور پھر بس گرد بیٹھ جاتی ہے ،اس کے بعد نہ کوئی شوکت عزیز کو پوچھتا ہے،
نہ پرویز مشرف کی بات ہوتی ہے نہ ہی حسین حقانی، اسحاق ڈاراور الطاف وغیرہ
کو انٹرپول کے ذریعے حاضر کیا جاتا ہے ۔اگر کوئی فاضل جج اپنے فرائضِ منصبی
کا پاس رکھتے ہوئے ان کامیزان الاعمال تولنے کی جسارت کر بھی لیتا تو یہ
جعلساز جتّھا پہلے ہی سے وطنِ عزیزکے ُسست الوجود اور اپاہج انصاف کے مزید
پَر کترنے کے لیے سرگرم ہو جاتاہے۔
2014 میں ماڈل ٹاون واقعہ کی انکوائری کرنے والے جج جسٹس علی باقر نجفی
سمیت عدالتِ عالیہ کے 3 ججوں کو ملنے والی سنگین نتائج کی دھمکیوں سے لے کر
2016 میں ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی عدالتوں سے متعلق اشتعال انگیز اور
مرعوب گفتگو تک،پانامہ کیس کے حوالے سے نہال ہاشمی کی ہاتھ اٹھا اٹھا کرججز
کو ناقابل ِبیان زبان میں نصیحتیں کرنے سے لے کر کمرہ عدالت میں ہاتھ باندھ
کے جھک کر کھڑے ہونے تک،طلال کی تحقیری بڑھکوں سے لے کردانیال کی ہتک آمیز
شعلہ بیانیوں تک، دشام طرازی کی ایک داستانِ لامتناہی ہے ۔یہاں طلا لوں،
نہالوں اور دانیالوں کے ساتھ ساتھ اگر رضوی صاحب اور ان کے حواریوں کی جانب
سے عدالت اور پاکستانی فوج پر کی گئی لفظی تیغ بازی کا ذکر نہ کروں تو
ناانصافی ہوگی،
اب اگر پاکستان کی سیاست پر قابض دو سیاسی خاندانوں کی بددیانتی، کرپشن اور
لوٹ مار کی داستانیں اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہیں، صبح آصف زرداری اور
بھٹو خاندان کی کرپشن کی ہوشربا کہانی منظر عام پر آتی ہے اور شام ہونے سے
پہلے نوازشریف کو ایک ایسی فیکٹری کے مالک ہونے کی وجہ سے سزا سنائی جاتی
ہے جس کے بارے میں وہ عدالت کو ایک لفظ بھی نہ بتا سکے۔
مجرم پکڑے جاتے ہیں، عدالتوں کے روبرو پیش ہوتے ہیں، سزا پاتے ہیں، جیل
کاٹتے ہیں، لوہا ہو جاتے ہیں، لیکن اگر اسی طرح یہ سب کچھ ہوتا رہے تو بات
تکلیف دے نہیں ہے اذیت اور تکلیف کا مرحلہ تو اس وقت شروع ہوا جب ان دونوں
سیاسی خاندانوں کے حاشیہ نشینوں نے اس کرپشن اور لوٹ مار کی کالک کو روشنی
اور اس جرم کی ذلت و رسوائی کو عزت اور توقیر بخشنے کا عمل شروع کیا اور بے
شرمی کی بھی کوئی حد ھوتی ہے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ ڈھٹائی کا بازار
صرف سیاستدان ہی سیاستدان کے لئے سجاتا ہے اگر کسی سیکرٹری، انسپکٹر، کلکٹر
یا کمشنر کی فیکٹری پکڑی جاتی اور وہ جواب دینے کی بجائے آئیں بائیں شائیں
سے کام لیتا تو ایسا کبھی نہیں ہوسکتا تھا کہ اس کے ساتھی میڈیا پر کھڑے ہو
کر اسے ڈھٹائی کے ساتھ انتقام اور سیاسی تعصب کا شاخسانہ قرار دے کر کسی
عظیم مقصد کے لئے قربان گاہ پر چڑھنے والا ثابت کرتے ۔
کیسا حماقتوں اور تضادات میں گندھا یہ نظام ہے ساٹھ سے ستر فیصد معیشت کالی
ہے، غیر دستاویزی۔ باقی ماندہ بھی پورا ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ ٹیکس وصول کئے
بغیر صحت، تعلیم، نظام ِعدل حتیٰ کہ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر بھی کیوں کر
ممکن ہے ۔ غضب خدا کا اسی فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ ججوں
کی تعداد مطلوب سے ایک تہائی بھی نہیں۔ایک چھوٹا سا کاروبار، ایک چھوٹا سا
گھر بھی ایسے نہیں چل سکتا ملک کیسے چلے گا؟ ان تمام مسائل کے باوجود پھر
سیاستدانوں کی آپسی منافقت اور شعبدہ بازیاں۔وقت بدلا قدرے بدلیں مگر شورش
صاحب کا یہ شعر آج بھی حالاتِ حاضرہ پر بالکل صادق آتا ہے:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں |