گلوکارسونو نگم نے اپنے ٹویٹ میں پہلے تو لکھا ’’خدا آپ
سب کا بھلا کرے۔ میں مسلمان نہیں ہوں اور مجھے اذان کی آواز سن کر صبح
اٹھنا پڑتا ہے۔ انڈیا میں مذہبی زبردستی کب ختم ہو گی‘‘۔ اس پر تسکین نہیں
ہوئی تومزید لکھا ’’میں کسی ایسے مندر یا گردوارا پر یقین نہیں رکھتا جو
بجلی استعمال کر کے اُن لوگوں کو اٹھائیں جو ان کے مذہب کے پیروکار نہیں
ہیں۔‘‘صبح سونے قبل سونو نگم کی آخری ٹویٹ تھا’’غنڈہ گردی ہے بس۰۰۰‘‘ اس کے
بعد مخالفت وحمایت کا ایسا سلسلہ دراز ہوا کہ ہر طرف سونو ہی سونو کی گونج
تھی۔آگے چل کر تنقید کےجواب میں سونو نگم نے اپنے صفائی پش کی کہ اُنہوں
نے اذان کو نہیں بلکہ لاؤڈ اسپیکر کو نشانہ بنایا تھا اور ایک ویڈیو شیئر
کردی جس میں لکھا تھا ’ ’صبح کا آغاز اذان کے ساتھ‘‘۔ اس طرح بات آئی گئی
ہوگئی ۔سونونگم کواذان کی مخالفت میں متنازع ٹویٹ نے جس طرح مقبولیت کی
بلندیوں پر پہنچا دیا تھا اسی طرح جماعت اسلامی بنگلا دیش کی مخالفت کرکے
شیخ حسینہ واجد نے جمہوریت کے حامیوں کی مدد سے اپنے مخالفین کا صفایہ
کردیا ۔
گزشتہ دنوں ایک کرم فرما نے تشویش ظاہر کی کہ پڑوسی ملک کے انتخابات پر
ہمارے یہاں کیوں نہیں لکھا جاتا ؟ سچ تو یہ ہے اس توذیش کے بعد خیال ہوا کہ
بنگلا دیش میں انتخاب جیسی کوئی چیز ہورہی ہے۔ نتائج نے ظاہر کردیا کہ یہ
کم از کم انتخاب تونہیں تھا۔ ۲۹۸ میں ۲۸۸ نشستوں پر کامیابی بھلا کسی کو
کیسے مل سکتی ہے ؟ ایسا تو چار افراد کے مختصر ترین خاندان میں نہیں ہوتا
کہ اگر ایک بھی اختلاف کرجائے تو کامیابی کا تناسب ۷۵ فیصد پرآجاتا ہے۔
کروڈوں کے ملک میں ۷ء ۹۹ فیصد نشستیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ دال میں
کالا ہے۔ مصر اور روس کے انتخابات خاصے بدنام ہیں لیکن وہاں بھی ایسا نہیں
ہوتا ہے کجا کہ ایسے دیش میں جس کی حجت ساری دنیا میں مشہور ہو۔ بنگلادیش
جہاں ہم فکر تبلیغی جماعتوں کے درمیان تصادم خونیں ہوجائے مگر سیاسی
اختلافات کا یکسر خاتمہ ہوجائے یہ کیونکر ممکن ہے؟ پچھلی بار تو خیر بی این
پی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا مگر اس بار انتخاب لڑنے کے باوجود عوامی
لیگ نے بغیر ای وی ایم مشین کے جمہوریت و شورائیت کی دھجیاں اڑا دی۔شیخ
حسینہ واجد نےکامیابی کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کا دعویٰ مسترد کر دیا
کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن قیادت سے محروم ہے
اور وہ اپنی انتخابی مہم بھرپور طور پر نہیں چلا سکی ۔ اب اس سے کون پوچھے
کہ وہ مہم کیسے چلاتی جبکہ بی این پی کی رہنما خالدہ ضیاء کو جیل میں بند
کرکے ان کےبیٹے کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا جاچکا ہے۔
حزب مخالف کے رہنما کمال حسین کا کہنا ہے کہ 'بی این پی' کی قیادت میں قائم
انتخابی اتحاد نیشنل یونٹی فرنٹ نے انتخابات کو " ناقص " قرار دیتے ہوئے
الیکشن کمیشن سے جتنی جلد ازجلدغیر جانبدار حکومت کے تحت نئے انتخابات کا
مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے رائٹرز کو بتایا " ماضی میں بھی خراب انتخابات ہوتے
رہے ہیں لیکن جس خراب طریقے سے یہ انتخابات ہوئے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں
ملتی۔ "انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائس واچ کے جنوبی ایشیا کی
ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے ٹوئٹر پر بنگلہ دیش کے انتخابات کی ساکھ پر
سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’انتخابات سے قبل سینکڑوں کی تعداد میں
حزب اختلاف کے اراکان کو، حزب اختلاف کے بقول خود ساختہ الزامات کے تحت
حراست میں لے لیا گیا تھا اور مخالفین کو مبینہ طور پر حکمراں جماعت کے
کارکنوں نے پولنگ اسٹیشن پر جانے سے روکنے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا۔" اس
مشاہدے کے حق میں ثبوت کے طور پر حسینہ واجد کے حلقۂ انتخاب میں ظاہر ہونے
والے اعدادو شمار کافی ہیں ۔ حسینہ کو ۲ لاکھ ۳۰ ہزار ووٹ ملے جبکہ بی این
پی کو ۱۲۳ ، اسلامی آندولن کو ۷۱ اور دیگر کو ۱۴ ووٹ ملے۔ ایسی کامیابی کا
خواب تو بنگلا دیش کے بانی اورشیخ حسینہ کےباپ شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی
نہیں دیکھا ہوگا۔
قوم پرستی کے نام پر شیخ حسینہ واجد نے جب جماعت اسلامی بنگلا دیش کے
رہنماوں کو آزمائش میں مبتلا کرنا شروع کیا تو ہندوستان کے اشتراکیوں اور
فسطائیوں دونوں کی بانچھیں کھل گئیں۔ شیخ حسینہ کے مظالم کو غیر معمولی
حمایت حاصل ہوئی۔ وہ یکے بعد دیگرے بے قصور لوگوں کو تختۂ دار پر پہنچاتی
جاتیں اور ہندوستان کے ملحد اور ہندو احیاء پرست بغلیں بجاتے یہاں تک کہ
کلدیپ نیر جیسے مسلم نواز صحافی تک نے حسینہ واجد کے مظالم کو حق بجانب
ٹھہرانے میں پس و پیش نہیں کیا لیکن اب جبکہ حسینہ نے بنگلا دیش میں
جمہوریت کو پھانسی سے لٹکا کر اس کی لاش کو جھولتا چھوڑ دیا ہے تو یہ سارے
لوگ خاموش ہیں۔ حسینہ واجد کے بجائے اگر کوئی سیاستداں اسلام کے نام پر یہی
حرکت کرتا تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلام کے خلاف طوفان کھڑا کردیا جاتا
لیکن حسینہ کی اسلام دشمنی نے اس کی ساری دھاندلی کو خوشنما بنادیا ۔
بنگلادیش میں سارے مظالم کے باوجود آج بھی جماعت اسلامی موجود ہے ۔ اس کے
کام اپنی فطری رفتار سے بڑھ رہا ہے لیکن جمہوریت کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔
بدترین آمریت کو مبارکباد دینے والے جمہوریت نوازوں کی حالت زار پر سلمان
احمد کا یہ شعر صادق آتا ہے لیکن کوئی اس کا اعتراف نہیں کرتا ؎
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے ، جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
مشرقی پاکستان کے لوگوں کو یہ سمجھایا گیا کہ ان پر مغربی پاکستان کے لوگ
حکومت کررہے ہیں ۔ وہاں جمہوریت نہیں فوجی آمریت ہے ۔ بنگلادیش بن گیا مگر
وہاں بھی پہلے ضیاء الرحمٰن نے اور پھر جنرل ارشاد نے فوجی اور پھر جمہوری
آمریت قائم کردی لیکن اس وقت بھی حزب اختلاف کے لیے اپنی آواز کو بلند
کرنے کا کچھ نہ کچھ موقع تھا ۔ اب کی بار عوامی لیگ کی آمریت نے قوم پرستی
کے نام پر اپنے خلاف اٹھنے والی ساری آوازوں کو کچل دیا۔ اس طرح بنگلا دیش
کے لوگ پاکستانیوں کے بجائے خود اپنے ہم وطنوں کے غلام ہوگئے۔غلامی اپنوں
کی ہو یا بیگانوں غلامی ہوتی ہے اور اس سےاللہ کی حاکمیت کے بغیر نجات ممکن
نہیں ہے۔ بنگلادیش کے اندر جمہوریت قائم کرنے والی اندرا گاندھی نے خوداپنے
ملک میں عارضی طور پر جمہوریت کا گلاگھونٹ کر ایمرجنسی نافذ کردی لیکن جلد
ہی اس خوش فہمی کا شکار ہوگئیں کہ ان کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ
ہوگیاہے۔ غیر جانبدار انتخابات نے اندراجی کی غلط فہمی دور کردی اور پہلی
بار کانگریس پارٹی اقتدار سے محروم ہوگئی۔
شیخ حسینہ نے اندراجی سے سبق سیکھ کر غیر جانبدارانہ انتخابات کا خطرہ مول
لینا مناسب نہیں سمجھا اور اس کا دروازہ بند کردیا ۔ مودی جی نے ملک میں
غیر اعلان شدہ ایمرجنسی نافذ کررکھی ۔ انہیں بھی خوف ہے کہ انتخابات میں ان
کا وہی حشر ہوگا جو اندراجی کا ہوا تھا اس لیے سوچ رہے ہیں کس طرح حسینہ کے
نقشِ قدم پر چل کر حزب اختلاف کو کچلا جائے ؟ نریندرمودی کی دقت یہ ہے کہ
وہ قوم پرستی کواقلیت کے خلاف استعمال کررہے ہیں جبکہ شیخ حسینہ نے اسے
اکثریت کے خلاف استعمال کیا ہے۔ بنگلادیش کے اندر شیخ مجیب الرحمٰن کے بعد
ان کی بیٹی تیسری بار وزیر اعظم کا حلف لیں گی اور اپنے فرزند ارجمند سجیب
واجد یا اپنی نورِ نظر صائمہ واجد کو اقتدار سونپ کر رخصت ہوجائیں گی ۔ اس
کے باوجود بغض معاویہ میں گاندھی پریوار کی مخالفت کرنے والا سنگھ پریوار
ان کو مبارکباد کا پیغام روانہ کرتا رہے گا۔
اذان تنازعہ کے بعد ایک پروگرام میں سونو نگم سے پوچھا گیا کہ ’’آج کل
ریمیکس کیوں بن رہے ہیں؟ ‘‘ تو اس نے اچانک پاکستان کا راگ چھیڑتے ہوئے کہا
کہ’’ کبھی،کبھی لگتا ہے کہ اگر ہم پاکستان سے ہوتے تو اچھا ہوتا کیونکہ تب
ہمیں ہندستان میں کام مل رہا ہوتا۔ اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ سنگرس کو
میوزک کمپنیوں کو اپنے شوز کیلئے پیسے دینے پڑتے ہیں ‘‘۔ مودی یگ میں جبکہ
پاکستان کا نام لال جھنڈی بنا ہوا ہے اس متنازع بیان پربھی جب ہنگامہ نہیں
ہوا تو سونو نگم نے سوچا ہوگا کہ کاش وہ مسلمان ہوتا تو عامر خان یا
نصیرالدین شاہ کی طرح اس کے خلاف بھی سارا ملک کھڑا ہوگیا ہوتااور اسے شیخ
حسینہ کی مانند شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیتا۔ بنگلادیشی انتخاب کے بعد یہی
حالت ہندوستانی سیاستدانوں کی ہے۔ مودی جی سوچ رہے ہیں کاش وہ بنگلا دیش
میں ہوتے اور تیسری نہ سہی دوسری ہی بار کسی طرح کامیابی درج کرالیتے ۔
ممتا سوچ رہی ہیں کاش مغربی بنگال بھی بنگلادیش میں شامل ہوگیا تھا اور وہ
بھی حسینہ سمیت سارے حزب اختلاف کو قدموں تلے روندکرکے یکے بعد دیگرے
انتخابی کا میابی درج کراتیں لیکن بقول احمد فراز؎
اب دل کی تمنا ہے تو اے کاش یہی ہو
آنسو کی جگہ آنکھ سے حسرت نکل آئے |