وہ بے چارہ غریب تھا۔عمرساٹھ سال کے قریب تھی۔ٹوٹاپھوٹااس
کاکرائے کاگھرتھا۔کھانے والوں کی تعدادآٹھ تھی اورکمانے والاوہ ایک۔وہ
خودبھی مریض تھااورگھرمیں بھی تین کومرض لاحق تھا۔وہ روزانہ شالیمارچوک میں
امرودوں کی ریڑھی لگاتا۔کبھی شام کے کھانے کے پیسے ہوجاتے توکبھی فاقے کرنے
پڑتے۔آج بھی وہ گاہکوں کا انتظار کر رہا تھا مگر گاہکوں سے پہلے تبدیلی
آنکلی۔امرودسڑک کنارے بکھرگئے۔بکھرتے امروددیکھ کراس کی سانسیں بھی
بکھرگئیں۔تبدیلی ایسی آئی کہ پہلے امرودسڑک پرگرے ، پھرباپ
اورپھرساراگھرانہ سڑک پرآگیا۔تبدیلی کی آندھی نے سب کچھ خس وخاشاک کی طرح
اُڑاڈالا۔تبدیلی نے حسرتوں ، امیدوں ، آہوں اوربدعاؤں کوٹرک میں لوڈ
کیااورپھراگلے شکارپرنکل گئی۔غیب سے صدابلندہوئی روک سکوتوروک لو……!
|