پاکستان میں پانی کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید ہوتا
جا رہاہے،جس کی کئی وجوہات میں سے ایک ڈیمز کا نہ بننابھی ہے۔ ماہرین کے
مطابق اگر پاکستان نے پانی سے متعلق کوئی جامع پالیسی ترتیب نہ دی اور
بحران شدت پکڑتا گیا تو پاکستان 2025ء تک خشک سالی کا شکار ہو جائے گا، جس
سے زراعت بھی متاثر ہوگی اور گھریلو استعمال کے لیے بھی پانی نایاب ہو جائے
گا۔
پانی اﷲ رب العزت کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ یہ انسان کی بنیادی ضروریات میں
سے ایک اہم ضرورت بھی ہے۔ اس کے بغیر زندگی ناممکن ہے۔ اگر انسانی تاریخ کو
دیکھا جائے تو کرہ ارض پر جہاں پانی میسر ہوتا ہے، آبادی بھی وہیں موجود
ہوتی ہے۔ پانی کے بغیر شہر اور آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ جس
کی تازہ مثال جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کی ہے، جہاں پانی دن با دن
نایاب ہوتا جا رہا ہے اور فراہمی کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ ماہرین کی
پیش گوئی کے مطابق یہ ترقی یافتہ شہر آئندہ چند برسوں میں صفحہ ہستی سے مٹ
جائے گا۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ جس کی معیشت کا انحصارصنعت کے ساتھ ساتھ زراعت
پربھی ہے۔ معیشتپہلے ہی مسائل سے دوچار ہے ۔ اور اگر زراعت کے لییپانی میسر
نہیں ہوگا تواس کے براہ راست اثرات معیشت پر ہونگے۔ اس سنگین صورتحال سے
نمٹنے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ڈیمز کی تعمیر کے لیے احسن
قدم اٹھایا گیا ہے۔ ڈیمز کی تعمیر کے لیے رقوم اکٹھی کرنے کے لیے بینک
اکاؤنٹ کا اجرا کیا گیا ہے۔ جس میں پاکستان کے شہریوں سے ان ڈیموں کی تعمیر
کے لیے فنڈ جمع کروانے کی اپیل کی گئی ہے۔ اس میں اب تک پاکستانیوں کی طرف
سے اربوں روپے تک جمع کروائے جا چکے ہیں تاکہ مستقبل قریب میں پانی کے
ممکنہ بڑے بحران سے بچا جا سکے ۔
مگر یہاں ایک سوال ہے کہ کیا ڈیموں کی تعمیر کے بعد ہمارا پانی کا مسئلہ
ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔۔۔؟
اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس سے متعلق کچھ بنیادی چیزوں پر غور
کرنا ہو گا۔ پاکستان کو پانچ بڑے دریا سیراب کرتے ہیں۔ جن میں راوی، چناب،
ستلج، جہلم اور سندھ شامل ہیں۔ مگر ان میں سے بیشتر دریا ؤں کا آغازچائنہ
کے علاقے تبت سے ہوتا ہے۔ پھر یہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے راستے سے
پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ اب اگر بھارت چاہیے تو ان دریاؤں کا پانی روک
لے، تو پھر ڈیموں میں پانی کہاں سے آئے گا۔۔۔؟
بھارت نے پاکستان بننے کے بعد یکم اپریل 1948ء کو فیروزپور و دیگر ہیڈز
(Heads) کے ذریعے پاکستانی پنجاب کا نہری پانی بند کر دیا۔ مگر بعد ازاں
ایک معاہدے کی رو سے اس شرط پر کھول دیا گیا کہ پاکستان کو مطلوبہ پانی کی
طے شدہ سالانہ رقم بھارت کو ادا کرنا ہو گی۔ مگر اس کے باوجود پاکستان اور
ہندوستان کے درمیان پانی کا مسئلہ ایک معمہ بنا رہا۔ جو بعد ازاں پاکستان
کی عالمی عدالت انصاف جانے کی دھمکی پر بھارت مذاکرات کرنے پر رضامند ہو
گیا۔
1960ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ایک
تاریخی معاہدہ ’’سندھ طاس معاہدہ،Indus Water Treaty‘‘ کے نام سے طے پایا،
جس میں عالمی بینک نے ضامن کا کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کی رو سے تین مشرقی
دریا ستلج، بیاس( جس کا ایک حصہ بھارتی پنجاب کے علاقے ’ہریکے‘ کے مقام پر
ستلج میں شامل ہو جاتا ہے) اور راوی بھارت کو دے دیئے گئے جبکہ تین مغربی
دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔
معاہدے کی رو سے بھارت مغربی دریاؤں پر بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے
ہائیڈروپاور پروجیکٹس لگا سکتا ہے۔ مگر ان دریاؤں کے بہاؤ کا قدرتی رخ نہیں
موڑ سکتا۔ مگر بد قسمتی سے بھارت کی طرف سے ہٹ دھری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ا
س معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ دریائے چناب اور جہلم پر بیسیو ں نہیں،
بلکہ سینکڑوں ہائیڈروپاور پروجیکٹس کے بہانے پانی کا رخ تبدیل کیا جا رہا
ہے اس طرح بھارت پاکستان کا حق غضب کئے بیٹھا ہے۔ مغربی دریا خشک ہو کر
حکومت اور عوام کو منہ چڑا رہے ہیں، جو کہ پاکستان میں پانی کے بحران کی
ایک بنیادی اور سب سے اہم وجہ ہے۔ بھارت اب تک کشمیر میں بیسیوں
ہائیڈروپاور پروجیکٹس کو مکمل کر چکا ہے ۔جس سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا
کی جا رہی ہے اور پانیوں کا رخ تبدیل کر کے اپنے صحراؤں اور بنجر زمینوں
کوسر سبزو شاداب بنا کر ہریالی اگا رہا ہے۔ جبکہ کچھ ابھی تکمیل کے مراحل
میں ہیں اورکچھ پروجیکٹس ابتدائی مرحلے میں ہیں۔
ڈیم بنانے سے پاکستان کی پانی جمع کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، مگر ان
میں پانی بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر سے بھارت کی مرضی سے آئے گا۔اب یہ
حکومت پاکستان پر منحصر ہے کہ بھارت سے اپنا یہ حق کیسے لے سکتی ہے۔ ایک
طرف تو بھارت شملہ معاہدے کو بنیاد بنا کر باہمی مسائل بشمول کشمیر کو بات
چیت کے ذریعے حل کرنے کی بات کرتا ہے۔ مگر دوسری طرف بھارت خود ہی کشمیر،
سندھ طاس معاہدے سمیت دیگر مسائل پر بات چیت کرنے سے فراری ہے اور جنوبی
ایشیا کے اس خطہ کے امن کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔
تقسیم ہندوستان کے وقت حکومت برطانیہ نے دانستہ طور پر’’ ہندو بنیا‘‘ کی
ملی بھگت کے ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں کو بھارت میں شامل کیا۔ فیروزپور کو
بھارت کا حصہ بنا کر ہیڈز کا کنڑول بھارت کو دیا۔ جس کا نتیجہ یکم ایپریل
1948ء کو پاکستان کو نہری پانی کی بندش کی صورت میں ملا۔ جبکہ بھارت کو
کشمیر سے منسلک کرنے کے لیے گرداسپور کو بھی اس کا حصہ بنا دیا گیا۔ جس پر
اکتوبر 1948 میں بھارت نے اپنی فوجیں اتار کر ناجائز قبضہ کر لیا۔ حالانکہ
گرداسپور کسی بھی لحاظ سے بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا تھا۔ کیونکہ یہ مکمل
مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور اس کوباؤنڈری کمیشن نے پہلے پاکستان میں ہی شامل
کیا تھا۔
قائداعظم محمد علی جناحa نے کہا تھا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔‘‘ آج
ہمیں اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جانا چاہئے، کیونکہ ہمارے دریا کشمیر ہی سے
ہو کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جس پر بھارت قابض ہے اور پاکستان کے پانی
کو روک رکھا ہے۔ پانی زندگی ہے اور یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ بھی
ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بھی ہمیں کشمیر کی اہمیت کو سمجھنا ہو
گا۔اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ہمارے پانیوں کا مسئلہ بھی جوں کا توں
رہے گا۔
لہٰذاحکومت پاکستان کو کشمیر کا مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔
کیونکہ یہ پاکستان کی بقاء کا مسئلہ بھی ہے اور تکمیل پاکستا ن کا بھی۔۔!
|