خبردار: پاکستان کا موازنہ مصر اور تیونس سے نہ کیا جائے٬ وزیر اعظم گیلانی

وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان کا موازنہ مصر اور تیونس سے نہ کیا جائے کیونکہ یہاں ادارے کام کررہے ہیں ، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا ہے وغیر ہ وغیر ہ۔ ویسے ہم صحافیوں کو بھی بال کی کھال اُتارنے کی عادت ہو تی ہے ، ظاہر ہے ہمیں تنخواہ ہی اسی چیز کی ملتی ہے کہ کچھ نہ کچھ ادارے کو لکھ کر دیتے رہیں وہ ان مضامین کو چھاپ کر نہ صرف اپنا وجود قائم رکھ سکے بلکہ ماتحت ہزاروں ملازمین کی روزی روٹی بھی چلتی رہے ۔ اپنی روزی روٹی بحال رکھنے کیلئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک ایسے ملک کو تیونس اور مصر سے ملانے جارہے ہیں جہاں راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے ، ہفتوں مہینوں بعد ہی کہیں سے کسی کی جیب کٹنے یا موبائل فون چھینے کی خبر سنائی دیتی ہے ۔اور اگر بالفرض کسی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آبھی جائے تو حکومتی کارندے دوڑتے ہوئے اُن کی چوکھٹ پر پہنچ کر نہ صرف اُس کے نقصان کی تلافی کر تے ہیں بلکہ اُس سے معذرت بھی کی جاتی ہے کہ ہم آپ کے مال کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے ۔

اچھا ہوا وزیر اعظم صاحب نے قوم کو حقائق سے آگاہ کر دیا ورنہ لوگوں کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اُن کے دور اقتدار میں کس طرح دودھ کی ندیاں بہہ رہی ہیں ، عوام کو چاہئے کہ وہ ان صحافیوں کی باتوں پر کان نہ دھریں بلکہ اصل حقائق جاننے کی کوشش کریں ۔حقیقت یہ ہے کہ عوام کو آج مصر ، تیونس ، الجزائر اور دیگر ممالک میں جس عوامی غیض وغضب کی جھلک نظر آرہی ہے وہ کوئی اچانک سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے پوری ایک اندوہناک تاریخ پوشیدہ ہے ، زیادہ دور نہ جائیں ابھی حال ہی کی بات ہے کہ ان ممالک کے بڑے کاروباری شہروں میں آئے روز دہشت گرد ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اُتار کر دندناتے ہوئے اگلے ہدف کی تلاش میں نکل پڑتے ، حکومتی سطح پر ایک دوسرے پر زبردست بلیم گیم شروع ہوتی اور رات ہو تے ہی جب لواحقین اپنے پیاروں کو قبروں میں اُتار چکتے تو یہ حکومتی نمائندے تمام دکھ درد تکلیفیں بھلا کر ایک ہی میز پرا کھٹے ہو کر پرتکلف عشائیے تناول فرماتے نظر آتے اور اگر بالفرض شدید دباﺅ میں آکر حکومت کو کچھ کرنا بھی پڑ جائے تو اُس کا ہدف بھی ٹارگٹ کلرز نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں جنہیں دو سال تک ڈبل سواری پر پابندی کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے ۔ بم دھماکے ، مہنگائی ، بے روزگاری ، لوڈ شیڈنگ، لوٹ مار ، اغواء برائے تاوان ،ٹارگٹ کلنگ اور اس طرح کی درجنوں اقسام کا دور دورا تھا جس کے باعث یہاں کے عوام شدید بے چینی کا شکار تھے ، اور اسی آس پر زندگی بسر کر رہے تھے کہ جلد حکمرانوں کا دور پورا ہو اور ہماری ان سے جان چھوٹے ۔

ان ملکوں میں عوامی غم و غصے کی دوسری وجہ طویل عرصے سے قائم موروثی بادشاہت بھی ہے ،مثلا ً یہاں جب کوئی لیڈر مرتا تو وہ اقتدار اپنی بیوی کو دیتا ، بیوی اپنی بیٹی کو ، بیٹی اپنے شوہر کو اور شوہر پھر اپنے بیٹے کے نام کر دیا کر تا، اگر آپ خوش قسمتی سے کسی لیڈر کی اولاد ہیں تو پھر آپ کو کسی تعلیمی قابلیت کی کوئی ضرورت ہے نہ ہی آپ کا لائق ہونا شرط، بس اقتدار کے مزے لوٹئے اور حکومتی خرچے پر نہ صرف خود دنیا بھر کی سیر کیجئے بلکہ اپنے ساتھ دس بارہ درجن خوشامدیوں کا ٹولہ بھی ساتھ رکھیئے ۔ آپ کے شاہانہ خرچوں کے باعث اگر بجٹ میں کمی آنے لگے تو عوام پر نت نئے قسم کے ٹیکس لگا دیجئے ، عوام کو قائل کرنے کیلئے یہ خوشامدی آپ کے کام آئیں گے ، اور اگر بالفرض عوام کا غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ہو تو اپنے پاس ایک دکھ بھری تقریر لکھ رکھیئے تاکہ وقت آنے پر آپ عوام کو بتا سکیں کہ آپ نے اس مقام تک پہنچنے کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں ۔ ان ملکوں میں غریب کیلئے علیحدہ قانون امیر کیلئے علیحدہ قانون تھا، غریب چوری کرے تو اُس کیلئے چھترول ، امیر قرضوں کے نام پر بینکوں سے اربوں روپے لوٹ لے اُسے آئینی استثناء حاصل ۔ ان ممالک میں عوام کی تقدیر کے فیصلے واشنگٹن میں ہوا کرتے اور اکثر اوقات امپورٹڈ سربراہان عوام پر مسلط کئے جاتے۔

اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے ایسے ممالک سے پاکستان کو ملانا کس قدر نا انصافی ہے ، ہمارے ہاں آزاد و خودمختار میڈیا ہے جو دن رات امن وامان ، پیار ومحبت اور حکمرانوں کی ایمانداری کی خبریں دیتا نہیں تھکتا ، عدلیہ اس قدر آزاد کے ایک ہی کال میں وفاقی وزراء سے لے کر صدر اور وزیراعظم کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کر دے ۔ یہاں کی پولیس اس قدر ایکٹو ہیں کہ مجرم کو کسی شخص کی جان ، مال کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوتی ، تعلیم اس قدر عام کہ شاید ہی کوئی ان پڑھ نظر آجائے اور صحت کی تو کیا کہنے ، بھلا ہمارے ملک میں کیونکر انقلاب آنے لگا ،ابھی کچھ ہی عرصہ قبل ہم نے ایک آمر سے نجات حاصل کی ہے ، اُس ایک شخص نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا ،مہنگائی، بے روزگاری ، بدامنی اس قدر عروج پر تھی کہ لوگ خودکشیوں اور بچے فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آئے روز امریکی ڈرون طیارے ہمارے ملک میں گھس کر معصوم لوگوں کو بموں سے نشانہ بناتے۔ ان حالات سے تنگ آکر عوام نے اُس سے جان چھڑا ئی اور ہمیں منتخب کیا ۔ ہم نے آتے ہی ایک متفقہ قرار دا د منظور کر کے ڈرون حملے ہمیشہ کیلئے ختم کر دیئے ۔ آج تین سال بعد ہم نے ملک سے مہنگائی ،بے روزگاری اور بدامنی، لوڈ شیڈنگ کو اس طرح جڑ سے اُکھاڑ پھینکا ہے کہ پورے ملک میں آپ بے روزگار ڈھونڈتے پھریں کوئی نظر نہیں آئے گا۔ اس لئے آپ مطمئن ہوں یا نہیں ہمیں بالکل اطمنان ہے کہ ہم اپنی مدت پوری کریں گے اور اس طرح کے انقلابات کا ہمیں کوئی ڈر نہیں۔
Zubair Niazi
About the Author: Zubair Niazi Read More Articles by Zubair Niazi: 41 Articles with 45136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.