لاہور کے مصروف ترین علاقے مزنگ
میں تین معصوم پاکستانی دن دھاڑے قتل کر دئیے گئے۔ پاکستانیوں کا خون اتنا
ارزاں ہے کہ اسے پچھلے دو عشروں سے کبھی ایک بہانے اور کبھی دوسرے بہانے
پاکستان کے طول و عرض میں بہایا جا رہا ہے۔اخباری نقطہ نظر سے تو یہ خبر ہی
نہیں بنتی۔ یہ تو روز کا معمول ہے۔ خون خاک نشیناں ہے اس کا مقدر ہی رزق
خاک ہونا ہے۔ خبر یہ یوں بنی ہے کہ اس بار آقا خود خنجر بکف میدان میں اتر
آئے ہیں۔ جن کی مہربانی سے ہم پہلے برفانی ریچھ کے پنجوں میں آئے تھے اور
جنکی طرفداری کرتے کرتے ہم نے اپنے ملک کو اسلحہ خانہ اور بارود کا ڈھیر
بنا ڈالا تھا اور جنکی عنایات کی بنا پہ ہمارا بچے گلی کوچوں میں آج بھی
ہیروئین اور دوسرے نشے کرتے نظر آتے ہیں۔ جن کے مجبور کرنے پہ ہم نے
افغانستان میں لگی آگ میں اپنا سر جھونک دیا اور جو آگ اب ہمارا تن من دھن
سب جلائے دے رہی ہے۔ جن کی نوازشات کی بنیاد پہ بلوچستان بارود کے ڈھیر پہ
ہے۔ وہ آقا جو ہمارے ازلی دشمن کو متواتر ہمارے خلاف شہہ دے رہا ہے۔ وہی
آقا ہمارے ملک کو توڑنے کے منصوبوں کو تاخیر کا شکار ہوتے دیکھ کر اب خود
ہی منصہ شہود پہ تشریف لے آئے ہیں۔
آخر ایسا ہوا کیوں؟ہم تو عام لوگ ہیں لیکن وہ خاص لوگ جو اس مجبور مقہور
اور مظلوم ملک کے لوگوں کے ٹیکسوں سے بھتہ وصولتے ہیں وہ کہاں سو رہے تھے۔
کیا ریمنڈ ڈیوس آسمان سے ٹپکا ہے یا زمین سے اچانک اگ آیا ہے۔ اگر وہ
مسلمان بن کے ملک کے مختلف علاقوں میں مدرسوں میں گھوم رہا تھا تو اس وزارت
داخلہ اور اس سے ملتی جلتی ایجنسیوں کے لوگ محو خرام تھے جن کی پیشہ ورانہ
مہارت کے چرچے پوری دنیا میں ہیں۔ جن کے کمال کا لوہا ایک دنیا مانتی ہے۔
کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ان کی یہ پیشہ ورانہ مہارت صرف آقاؤں کے لئے ہی خاص
ہے۔ اپنے ملک کا انہیں کوئی احساس نہیں۔ آخر یہ درندے کیسے اس ملک میں
دندناتے پھرتے ہیں۔ آخر ہمیں ان کی خبر کیوں نہیں ملتی۔اگر یہ لوگ اپنا کام
کر رہے ہیں اگر انہیں خبر ہے کہ کون کیا کر رہا ہے تو پھر یہ ان ذمہ داروں
کو عوام کے سامنے کیوں نہیں لاتے جو ان خون آشام بھیڑیوں کو کھل کھیلنے کا
موقع دیتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اب اس ملک کے لوگ مایوسی کی
آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ چند ہی ادارے ایسے باقی رہ گئے ہیں جن پہ
پاکستان کے عوام کو اعتبار ہے اگر خدا نخواستہ ان سے بھی اعتبار اٹھ گیا تو
پھر شاید ہاتھ ملنے کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
ذرا سوچیے اور یاد کیجیئے کچھ ماہ پہلے ایک ایسے امریکی جس کے آباؤ اجداد
کا تعلق پاکستان سے تھا نے ٹائم سکوائر پر ایک شرلی چھوڑنے کی کوشش میں کچھ
تصویریں کھنچوائیں تھیں۔امریکہ نے نہ صرف اس کو سزا بھی دے لی تھی بلکہ اس
واقعے کی بنا پہ پاکستان کو کتنی تڑیاں لگائیں تھیں۔ کیا کیا طعنے نہ
پاکستان کو دئیے گئے تھے۔ اس واقعے پہ نہ صرف پاکستان بلکہ مذہب اسلام کے
لتے لئے گئے تھے۔ اسلام کو دہشت کا مذہب قرار دیا گیا تھا۔آج کیوں نہیں کہا
جاتا کہ ایک عیسائی نے دو معصوم جانوں کو اپنی بربریت کی بھینٹ چڑھا کے
دہشت گرد ہونے کا ثبوت دیا ہے۔اب ہر لمحہ دہشت گردی کی تکرار کرنے والے
امریکی اور ان کے پاکستانی لبرل فاشسٹ کاسیہ لیسوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا
ہے۔اب وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ بھی دہشت گردی ہے۔ یہ بھی ظلم ہے۔ اب
انہیں عیسائیت کو دہشت کا مذہب قرار دینے میں موت کیوں پڑتی ہے۔ جی ہاں یہ
صحیح ہے کہ ایک شخص کے کسی بھی فعل کے لئے کوئی مذہب یا معاشرہ ذمہ دار
نہیں ہوتا تو یہ رعایت جناب عالی مسلمانوں اور اسلام کے لئے کیوں نہیں۔ اس
لئے کہ
جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ریمنڈ ہماری حکومتوں کے گلے کی چھچھوندر بن گیا ہے۔ اسے نہ اگلے بن رہا ہے
نہ نگلے۔ وفاقی حکومت اسے پنجاب کے گلے کا ڈھول بنانا چاہ رہی ہے اور پنجاب
کی حکومت اسے عدلیہ کے گلے ڈال کے اپنی جان چھڑانا چاہ رہی ہے۔ امریکہ کو
ہم خواہ مخواہ ایک ارنا بیل سمجھتے ہیں جسے اس مقدمے کی صورت میں لال کپڑا
دکھا کے عدلیہ کے اوپر چڑھانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ یہ
بلا اس کے سر سے ٹلے اور کسی اور کا گھر دیکھے۔ اقوام متحدہ میں ایک
پاکستانی مندوب اور باقاعدہ تسلیم شدہ سفارتکار( ویسے ہم بھی کیا قسمت لے
کے آئے ہیں کہ اس قماش کے لوگ ہمارے سفارتکار ہیں) منیر اکرم کو باقاعدہ
تڑیاں لگانے والا امریکہ اب ریمنڈ ڈیوس جیسے غنڈے کے لئے نہ صرف سفارت
استثناء مانگ رہا ہے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ تڑیاں بھی لگا رہا ہے۔ اب اس
کے پاکستانی پٹھو بھی آئے روز ٹی وی پہ آکے جنیوا کنونشن کے حوالے دے رہے
ہیں۔ کوئی ان ملعونوں سے یہ پوچھنے کی جسارت آخر کیوں نہیں کرتا کہ ہمارے
سفارتکار کیا جنیوا کنونشن کے تحت نہیں آتے۔ کیا پاکستان میں طالبان کا
باقاعدہ سفیر ملا ضعیف اس لئے گوانتا نامو بے نہیں بھگت آیا کہ وہ واقعی
ایک کمزور اور ضعیف امہ کا فرد تھا اور اس کی تعیناتی کا ملک بھی ایک کاسہ
لیس اور کمزور ملک تھا۔
آج ہی کی خبر ہے کہ مزنگ میں مرنے والے فہیم کی اہلیہ نے صرف اس لئے خود
کشی کر لی ہے کہ اسے اپنی اس چاپلوس اور کاسہ لیس حکومت سے کسی انصاف کی
امید نہ تھی۔ اس لئے وہ انصاف کا مطالبہ کرنے اللہ پاک کی عدالت میں پیش ہو
گئی ہے۔اسے ہماری غیرتوں پہ بھی کوئی ایسا مان نہ تھا کہ اس کے سترہ کروڑ
ویر اس کے سہاگ کا بدلہ بھلے نہ لے سکیں اسے انصاف ضرور دلوا دیں گے۔ مرنے
والوں کے لواحقین بھی خودکشیوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ حالات سے یہی لگتا ہے
کہ انہیں بھی اپنا مقدمہ اللہ ہی کی عدالت میں لے جانا پڑے گا کہ یہاں
خسروں کے اس دیس میں تو کسی انصاف کی توقع ہی نہیں۔ یاد رکھئیے یہ امتحان
ہے ہماری غیرت حمیت اور جذبہ حب الوطنی کا۔کیا ذوالفقار ر علی بھٹو کا
داماد ہمارا ساتھ دے گا ۔کیا ذولفقار علی بھٹو کے انداز میں نعرے لگانے
والا شہباز شریف ہمارا ترجمان بنے گا۔ کیا چیف جسٹس افتخار چوہدری ہمارا
افتخار اور قرض جو ہم نے اپنی جانیں دے کے ان پہ چڑھایا تھا واپس کر سکیں
گے۔ آخر میں کیا ہم جنرل کیانی اور ان کے رفقاء سے یہ امید باندھ لیں کہ وہ
قوم کو انصاف دلوا سکیں گے۔ کیا میں اپنی قوم سے یہ توقع رکھوں کہ یہ
امریکی غنڈہ ان کے ہاتھ سے بچ کے نہیں جائے گا۔ |