لاہور کے قرطبہ چوک میں امریکی
دہشت گرد کی دہشت گردی کوئی پہلا واقعہ تو نہیں ہے جس پر قوم اور میڈیا
سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی بار ہا امریکی دہشت گردوں نے
پاکستانی قوانین اور عوام کو روند ا ہے مگر کیا کیجئے کہ ہماری یادداشت ہی
کمزور ہے۔ پاکستانی عوام کی یادداشت تو اب ضرب المثل بن چکی ہے۔ جس کا
ناجائز فائدہ ہمارے سیاستدان اور حکمران اٹھاتے رہتے ہیں۔
لاہور کے حالیہ افسوس ناک واقعہ سے قبل اس قسم کے کئی واقعات ہو چکے ہیں
مثلاً کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے سیکٹر ایف تھری میں چار امریکی افغان
باشندوں کے روپ میں جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں اہم سرکاری عمارتوں کی
تصویریں بناتے ہوئے پکڑے گئے اور گرفتاری کے وقت انکے پاس آٹو میٹک رائفلیں
اور دستی بم برآمد ہونے کے باوجود ان کو باعزت رہا کر دیا گیا اور اسی
دوران اسلام آباد کے ایک ناکے پر جب ایک کالے شیشوں والی گاڑی کو روکا گیا
تو پتا چلا کہ اس میں چار امریکی ہیں جو کہ جدید اسلحہ سے لیس ہیں انہوں نے
موقع پر پولیس افسروں سے صاف کہا کہ انکا تعلق بلیک واٹر سے ہے اور وہ خفیہ
مشین پر ہیں ایسے واقعات ایک دو نہیں ہیں جن کا حوالہ دیا جائے ایسے بیسیوں
واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اور ہر واقعہ میں ملوث امریکی یا غیر ملکی کو
سفارت کار ظاہر کر کے قانونی عملداری سے مستثنیٰ کر دیا جاتا ہے۔ دنیا کے
ہر ملک میں دوسرے ملک کے چند سفارت کار ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ عجیب
دستور دیکھا ہے کہ یہاں پر آنے والا ہر غیر ملکی سفارت کار کا درجہ رکھتا
ہے۔ اور خصوصاً امریکہ نے افغان جنگ کی آڑ میں پرویز نہ مشرف کے دور میں ہی
ہزاروں تربیت یافتہ امریکی جاسوسوں کو ”خصوصی دروازوں“ کے ذریعے بغیر ویزا
اور انٹری کے پاکستان میں داخل کیا گیا۔
2009ء میں جب امریکیوں کی ماورائے قانون بدمعاشیاں بڑھنے لگیں اور میڈیا
اور عوام کے دباﺅ پر ارباب اختیار کو پرویز مشرف کی اس غلامانہ پالیسی کو
قانون کے دائرہ میں لانا پڑا تو اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں پیش پیش
ہمارے اپنے ہی امریکہ میں متعین سفیر حسین حقانی تھے۔ اور پھر ان امریکیوں
کے لئے دبئی کے پاکستانی قونصل خانے سے ویزے حاصل کئے گئے۔ اور پھر فروری
2010ء میں چیف جسٹس صاحب نے اس پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے پابندی عائد کر دی
تو ایک ” اعلیٰ شخصیت“ کے حکم پر پابندی کے باوجود 500 امریکیوں کے لئے
متحدہ عرب امارات سے ویزے جاری کر دیئے گئے۔ اور نومبر 2010ء میں سیلاب آیا
تو ایوان صدر کے حکم پر 24 گھنٹے کے اندر اندر ایک سال کے لئے1000 امریکی
میرینز کو بغیر انکوائری کے ویزے جاری کئے گئے اور ایک ہزار میرینز کو
امریکی سفارت خانے کے تحفظ کے نام پر پاکستان لایا گیا۔
اس پس منظر میں مزنگ چونگی ( لاہور) جیسے واقعہ کا رونما ہونا کوئی اچھنبے
کی بات نہیں۔ اور اسی پس منظر سے بعض اخبارات کی اس خبر کو تقویت ملتی ہے
کہ ریمنڈ ڈیوس ایک خصوصی ٹارگٹ لے کر آیا تھا لیکن غلط فہمی سے کسی اور کو
نشانہ کر بیٹھا۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ریمنڈ نے فائرنگ کر کے
بطور ثبوت تصاویر بھی لیں۔ اور ملزم کے پاس وائرلیس کی موجودگی اور کچھ ہی
فاصلے پر اس کی مدد کے لئے دوسرے امریکیوں کی موجودگی بھی بہت سارے سوالوں
کا جواب ہے۔ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں واضح کیا تھا کہ امریکی اپنی ہاری
ہوئی جنگ کو پاکستان منتقل کر کے اپنی سبکی دور کرنا چاہتا ہے اور لاہور کے
حالیہ واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکا نے انٹیلی جنس کمانڈ افغانستان
سے پاکستان منتقل کردیا ہے جو افغانستان، سینٹرل ایشیا، جنوبی ایشیا، مشرق
وسطی سے متعلق خفیہ معلومات جمع کرنے پر مامور ہے۔ اس خفیہ نیٹ ورک کے ساتھ
9000 سے زائد افراد منسلک ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد مقامی لوگوں کی ہے۔
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ جو کسی بھی ملک میں امریکا کا سب سے بڑا
سفارتخانہ ہے انٹیلی جنس کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر بھی اس سفارتخانے میں موجود
ہے۔ اس انٹیلی جنس نیٹ ورک میں نہ صرف امریکی سرکاری خفیہ ایجنسیوں سی آئی
اے، ایف بی آئی اور دیگر سرکاری خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار سینکڑوں کی تعداد
میں منسلک ہیں بلکہ سی آئی اے کیلئے کام کرنے والی ایجنسیوں ذی(Xe )، بلیک
واٹر کو بھی اس کمانڈ کے تابع منظم کیا جاتا ہے۔ امریکہ نے حکومت کی رضا
مندی سے پاکستان میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کو توسیع دی ہے اور وزارت داخلہ نے
براہ راست امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کو ویزے جاری کئے ہیں تاکہ امریکی
خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں القاعدہ کے نیٹ ورک کو تلاش کر کے ختم کر سکے
القاعدہ کی تلاش کی آڑ میں سی آئی اے، ایف بی آئی کے علاوہ بلیک واٹر کے
ہزاروں افراد خفیہ ناموں کے ساتھ پاکستان پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے نہ صرف
کوئٹہ اور پشاور میں اپنے بیس قائم کئے ہیں بلکہ کراچی، لاہور، اسلام آباد
کے علاوہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور بلیک
واٹر کے اہلکار بڑی تعداد میں پھیلائے گئے ہیں ان خفیہ ایجنسیوں کی مدد
کیلئے ہزاروں کی تعداد میں مقامی افراد بھی بھرتی کئے گئے ہیں جنہیں یو ایس
ایڈ سے تنخواہیں دی جاتی ہیں۔
مقامی اور غیر ملکی این جی اوز اس ضمن میں افرادی قوت فراہم کررہی ہیں۔
پاکستان میں قائم چند سفارتخانوں اور مشن کے اہلکار بھی امریکہ کیلئے
جاسوسی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ پاکستان میں امریکہ کیلئے جاسوسی کرنے والے
سفارتکاروں میں ایک کثیر تعداد مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی
ہے۔
پاکستان میں بلیک واٹر کی نشاندہی سب سے پہلے پشاور میں ہوئی تھی جب
یونیورسٹی ٹاﺅن پشاور روڈ پر بڑی تعداد میں غیر ملکی قیام پذیر پائے گئے
تھے۔ یہ لوگ ایک این جی او سی آے آئی (International Creative Association
) سے منسلک تھے جو ایک غیر ملکی این جی او تھی اور خیبرپختونخوا میں
ترقیاتی پراجیکٹ شروع کرنے کیلئے آئی تھی بعد میں تحقیقات سے ثابت ہوا کہ
یہ واشنگٹن ڈی سی کی ایک نجی فرم ہے اور اس سے منسلک افراد امریکہ کیلئے
خفیہ معلومات اکٹھا کرتے ہیں ان تمام افراد کا تعلق بلیک واٹر سے تھا۔ جن
کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا تھا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور بم
دھماکوں کے واقعات میں ان لوگوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے تاہم نامعلوم وجوہ کی
بنیاد پر مزید تفتیش روک دی گئی تھی۔ اس سے قبل غزہ، انگولا، سری لنکا اور
عراق میں بلیک واٹر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھی اور پاکستان میں
بھی انہوں نے بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا تھا۔
یہ سب کچھ ہمارے ارباب بست و کشاد کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے
اور اب مزید کسی اور بڑے سانحہ کا انتظار کیلئے بغیر خود کو اس نام نہاد
امریکی جنگ سے الگ کر لیا جائے۔ ورنہ بصورت دیگر اس قسم کے سانحات کے لئے
خود کو تیار کر لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں غیرت مند اور خود مختار حکمران عطاء
فرمائیں۔ آمین۔ |