نئی حکومت، یو ٹرن، غیر یقینی اور بوکھلاہٹیں

سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو ان کے پیش نظر کئی اہم اہداف ہوتے ہیں، مگر کیا کیا جائے کہ جب کوئی ایسی سیاسی جماعت اقتدار میں آجائے جس کو امید بھی نہ ہو کہ اقتدار کے ہما کو باندھ کر ان کے سر پر بٹھا دیا جائے گا تو پھر حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے قوم کو بھگتنے پڑ رہے ہیں، بحرحال امید کی جاتی ہے کہ حکومت جلد از جلد معاملات سے نمٹنے کے لئے ٹھوس اور مربوط اقدامات کرے گی۔

الیکشن ٢٠١٨ کے بعد کے ملکی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی حالات جس حد تک غیریقینی اور بے ربطگی کا شکار ہے اس سے یقینا ہر ذی شعور پاکستانی عجیب مخمصے کا شکار ہوگیا ہے۔ بلاشبہ ہر آنے والی حکومت اپنے سے پچھلی حکومتوں پر غیر ذمہ داری کا الزام عائد کرتے ہوئے مسائل کا سارا ملبہ پچھلوں پر ڈال دیتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں ہوتا یہ رہا ہے کہ الزامات کی سیاست ایک جانب مگر فوری طور پر بہتری کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں۔ مگر افسوس کہ ٢٠١٨ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت صرف دشنام تراشی پر لگی ہوئی ہے اور جو کام نظر آرہا ہے وہ در در جاکر امداد یعنی بھیک اور خیرات کی حد تک نظر آتا ہے، ملک کے وزیراعظم ایسے ایسے ہوش ربا بیانات دیتے ہیں کہ ان کو سن کر اور ان کی گہرائی میں جاکر دل دہل کر رہ جاتا ہے کہ کیا ایسے حکومتوں کے عروج کا راستہ شروع ہوتا ہے۔ ملک کے وزیراعظم کبھی فرماتے ہیں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور کبھی فرماتے ہیں کہ وہ لیڈر ہی نہیں جو یو ٹرن نہ لے۔ ابھی ان کی حکومت کو چھ ماہ بھی نہیں ہوئے مگر ان کے چوٹی کے لیڈران بھی یا تو نااہل قرار پاگئے ہیں یا ان پر انکوائریاں چل رہی ہیں۔

ملک عجیب دوراہےپر کھڑا ہے خان صاحب وزیر اعظم بننے سے پہلے فرماتے تھے کہ خودکشی کرلوں گا مگر کسی سے قرضہ نہیں لوں گا اور ان کے خیراتی دورے اب تک کا ملکی ریکارڈ بن چکے ہیں۔ کیا دور تھا جب خان صاحب کنٹینر پر چڑھ کر فرماتے تھے کہ جب دیکھو کہ مہنگائی بڑہ رہی ہے تو سمجھ جانا تمہارے حکمران کرپشن کررہے ہیں، اور مہنگائی ان چھ ماہ میں جیسی بڑھ چکی ہے اس پر کیا کہیں، سی این جی ٨٢ سے ١٠٤، گیس کے نرخوں میں کئی فیصد اضافہ ہوچکا ہے، ڈالر ١١٥ سے ١٣٨ کی سطح پر پہنچ چکا ہے، باقی ان چھ ماہ میں ایک منی بجٹ آچکا ہے اور دوسرا منی بجٹ اگلے چند دنوں میں آنے والا ہے۔

بہرحال دل کے داغ اور زخم کریدنے کے ساتھ ساتھ ہم تو امید ہی رکھ سکتے ہیں کہ الفاظ کے قلعے تعمیر کرنے والے اب حکومت میں آکر کچھ تو شعور اور فہم کا مظاہرہ کریں اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے ٹھوس اقدامات پر غور کریں، کیوں کہ یہ بات بھی خان صاحب گزشتہ دنوں کہہ چکے ہیں کہ قرضوں کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔

اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہم سب کو اور نتیجتا ہمارے حکمرانوں کو نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے آمین

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532548 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.