دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں پاکستانی باشندوں کو
عزت و احترام حاصل ہے اور پاکستانی وہاں جا کر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر
محسوس کرتے ہیں وہ ملک امریکہ یا یورپ نہیں بلکہ برادر اسلامی ملک ترکی ہے۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان دیرینہ، خوشگوار، لازوال اور گہرے تعلقات ہیں
جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ترکی کے صدر طیب اردوان کو نہ صرف ترکی
بلکہ پاکستان میں بھی انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور
طیب اردوان واحد شخص ہیں جنہیں پاکستان کی پارلیمنٹ سے تین دفعہ خطاب کا
اعزاز حاصل ہے۔ترکی کے صدر طیب اردوان کو یہ عزت ،شہرت اور نیک نامی یونہی
نہیں ملی بلکہ انہوں نے ترکی کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ملک کی
معیشت میں بہتری کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری مذہبی منافرت کو ختم کرنے کے
بعد یہ فضا قائم ہوئی ہے کہ آج ترکی کے عوام طیب اردوان پر اپنی جان قربان
کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ترکوں کے ساتھ گہری ' والہانہ محبت کا اظہار
2005ء کے شدید زلزلہ کے بعد متاثرین کے ساتھ تعاون سے بھی دیکھا جا سکتا
تھا۔ ترک باشندوں نے اپنا سب کچھ زلزلہ متاثرین کے لیے وقف کر دیا تھا۔
انہوں نے خود پاکستان پہنچ کر متاثرین زلزلہ کے زخموں پر مرہم رکھا تھا۔
ترک ڈاکٹروں ، نرسوں اور طبی عملے اور امدادی تنظیموں نے اپنے آرام و سکون
کی پروا کیے بغیر زلزلے سے متاثرہ افراد کی دیکھ بھال اور مدد کی۔ بچوں اور
بچیوں نے ایک ایک پیسہ جمع کرکے پاکستانی بھائیوں کے لیے خطیر رقم جمع کی۔
ان سب باتوں کو متاثرین زلزلہ اور دیگر پاکستانی کیسے فراموش کر سکتے
ہیں؟پاکستان اور ترکی نے دوطرفہ اقتصادی‘ تجارتی اور کاروباری تعلقات کو
مزید مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے خطے میں امن کے لئے کوششیں تیز
کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور ترکی کے صدر رجب طیب
اردوان نے جمعہ کو انقرہ میں ون ٹو ون ملاقات اور وفود کی سطح پر مذاکرات
کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے
کہا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان خصوصی برادرانہ تعلقات ہیں جو مشترکہ
تاریخ و ثقافت پر مبنی ہیں۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان محبت کا رشتہ ہے۔
پاکستان ان تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ
ہم ترکی کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانے کے خواہاں
ہیں۔پاکستان تعمیرات کے شعبے میں ترکی کے تجربہ و مہارت سے استفادہ کرنا
چاہتا ہے۔ ہماری حکومت نے آئندہ پانچ سالوں کے دوران 50 لاکھ مکانات کی
تعمیر کا ایک بڑا منصوبہ تیار کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں اتنا
بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی کے تجربہ سے استفادہ کرنا
چاہتے ہیں جس نے گزشتہ چھ سالوں کے دوران 20 لاکھ مکانات کی تعمیر کا
منصوبہ مکمل کیا ہے۔ پاکستان صحت کے نظام‘ غریب لوگوں کے لئے قانونی مدد
اور تعلیم کے شعبہ میں اصلاحات کے لئے ترکی کے تجربات سے استفادہ کرے
گا۔موجودہ حکومت نے مدینہ کی ریاست کے ماڈل کی طرز پر نئے پاکستان کو ترقی
دینے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان کے مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے
کہا کہ افغانستان کے عوام تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے مسائل کا شکار
ہیں۔اب وقت ہے کہ عالمی برادری جنگ سے تباہ حال اس ملک میں امن لانے میں
مدد کرے۔ پاکستان امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں پہلے ہی مدد
فراہم کر رہا ہے لیکن اس سلسلے میں تمام شراکت داروں اور اس کے ہمسایہ
ممالک کی جانب سے ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ استنبول
میں افغانستان۔پاکستان اور ترکی کے سہ فریقی سربراہی اجلاس کے منتظر
ہیں۔امید ہے کہ اس اجلاس سے امن عمل میں مدد ملے گی۔ عمران خان نے جنوبی
ایشیا میں امن کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کے
ساتھ مذاکرات اور دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے لیکن بھارت نے مذاکرات سے
انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر بنیادی مسئلہ
ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی مقامی تحریک چل رہی ہے جہاں کے عوام
مقبوضہ بھارتی فورسز کے مظالم سے تنگ آچکے ہیں۔ بھارت جتنی زیادہ طاقت
استعمال کرتا ہے وہاں کے عوام میں اتنا ہی اشتعال پایا جاتا ہے لیکن
بدقسمتی سے بھارت کی جانب سے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان استحکام چاہتا ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب پاکستان اور بھارت
مذاکرات شروع کریں اور اپنے اختلافات کو حل کریں۔اس موقع پر ترکی کے صدر
رجب طیب اردوان نے کہا کہ مذاکرات میں دونوں ممالک کی جانب سے دوطرفہ
تعلقات کو مزید بڑھانے پر زور دیا گیا۔ ہمارے وفود کے درمیان بھی مذاکرات
ہوئے جن میں اقتصادی‘ سیاسی اور دہشتگردی سے متعلق امور زیر بحث لائے گئے۔
انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو
دہشتگرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ترک صدر نے وزیراعظم
عمران خان کے دنیائے کرکٹ میں قائدانہ کردار کو سراہا جن کی قیادت میں
پاکستان کو بڑی کامیابیاں ملیں۔ پاکستان اور ترکی کے تعلقات بہت گہرے اور
تاریخی ہیں اور دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے
یقین دہانی کرائی کہ ترکی مستقبل میں بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
پاکستان کے لئے ترکی میں بڑی مضبوط حمایت موجود ہے۔ترک صدر نے پاکستان کی
حکومت اور عوام کی جانب سے خیر سگالی کے جذبے کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تمام جہتوں پر بات کی گئی ہے۔ پاکستان‘
ترکی ہائی کونسل سٹریٹجک پارٹنر شپ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوگا۔ اس بارے
میں دونوں ممالک کے خارجہ امور کے دفاتر کام کریں گے۔ پاکستان ‘ افغانستان
اور ترکی کے سہ فریقی سربراہی اجلاس کے متعلق ترک صدر نے امید ظاہر کی کہ
یہ ترکی میں 31 مارچ کو انتخابات کے بعد ہونے کی توقع ہے۔اس کانفرنس سے ان
ممالک کو درپیش کئی دیگر مسائل حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ رجب طیب اردوان
نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان مستقبل میں بھی تعاون جاری رہے گا۔
ترک صدر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی صنعت میں مشترکہ اقدامات کے
امکانات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے حاصل کئے گئے تربیتی
طیاروں کے ساتھ ساتھ ترکی کی جانب سے میلگم ویسلز کی پاکستان کو فروخت کے
معاملات بھی زیر بحث آئے۔ دونوں ممالک نے تعاون کے مزید امکانات کا بھی
جائزہ لیا۔ وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ تْرک صدر طیب
اردگان جلد وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اس وفد میں پاکستان میں
سرمایہ کاری کے خواہشمند کاروباری افراد بھی شامل ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی
کا کہنا تھا کہ پاکستان ترکی اور افغانستان کے درمیان ٹرائی لیٹرل سمٹ ہوگا،
سہ طرفہ تعلقات سمٹ پر وزیر اعظم نے آمادگی کا اظہار کیا ہے جبکہ افغان صدر
نے بھی اس میں شرکت پر مثبت جواب دیا یے۔ وزیراعظم عمران خان کی ترک صدر
رجب طیب اردگان سے جامع ملاقات ہوئی۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند
شخصیات نے بھی وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں۔پاکستان اور ترکی کے درمیان ہائی
لیول کوآپریٹو کونسل پر پلان مرتب کیا جائے گا اور دونوں ممالک کے وزرائے
خارجہ اعلیٰ سطحی کوآپریٹو کونسل پر منصوبہ بندی کریں گے۔ انہوں نے بتایا
کہ 2019ء کے وسط میں پاک ترک وزرائے خارجہ ملاقات میں حکمت عملی تیار کی
جائے گی۔وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ترکی میں سرمایہ
کاروں سے بھی اچھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ترکی کے سرمایہ کار پاکستان کے 50
لاکھ گھروں کی تعمیر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صحت اور
زراعت کے شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون پر بات چیت ہوئی۔ترکی
دنیائے اسلام کا واحد ملک ہے جس سے ہمارے انتہائی گہرے مراسم گزشتہ 70سال
سے تسلسل کے ساتھ قائم ہیں۔ ترکی اور پاکستان میں باضابطہ دوستی کا معاہدہ
1951ء اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں وجود میں آیا جس کے الفاظ کچھ
یوں تھے: ''ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا گیا
ہے کہ سیاسی ' ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور
تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں
گے۔''اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ترکی کے صدر طیب اردوان نے پاک ترکی
دوستی کو بلندیوں کی انتہا تک پہنچایا ہے اور پاک ترک دوستی کو مثالی بنانے
کے لیے توانائی ، انفراسٹرکچر ، ہاؤسنگ اور زراعت و صنعت کے شعبوں میں
باہمی تعاون پر زور دیتے ہوئے دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کا حجم ایک ارب
ڈالر تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ گو پاکستان اور ترکی مسلم دنیا کے
دو اہم ستون ہیں ، اس کی وجہ دونوں ممالک کی مشترکہ تاریخ اور ثقافت کے
گہرے بندھن اور دونوں ممالک کے درمیان لازوال دوستی اور اقتصادی تعلقات
انتہائی مضبوط ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کو چاہئے کہ مسلم اْمہ کی ای سی او
اور او آئی سی میں مؤثر نمائندگی اور قیادت کرتے ہوئے پوری مسلم اْمہ کے
مسائل کو حل کریں کیونکہ دیگر مسلم ممالک کی نظریں ان دو ممالک پر لگی ہوئی
ہیں۔
|