ندیم نے ملک پاکستان کے مشہور شہر لاہور میں مڈل کلاس
کرسچن گھرانے میں آنکھ کھو لی ندیم نے بڑی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور
ایک سیمی گورنمنٹ ادارے (خود مختار ادارہ )میں ملازمت اختیار کرلی ندیم کو
بچپن ہی سے انگلینڈ دیکھنے کی خواہش تھی اور یہ خواہش وقت کے ساتھ ساتھ
جنون کی حد تک بڑھ گئی مگر حالات کو ممدنظر رکھتے ہوئے اس نے کبھی ویزے کے
لیے اپلائی نہیں کیا پھر خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ ندیم کی شادی ایک ا یسی
لڑکی سے ہوگئی جس کا بھائی اور بہن انگلینڈ کے شہری تھے اورکئی دہائیوں سے
انگلینڈ میں مقیم تھے وقت گزرتا گیا ندیم کو خدا نے دو خوبصورت بچوں سے بھی
نواز دیا سب کچھ ٹھیک چل رہا تھامگر ندیم کو اس کی خواہش ہمیشہ بے چین اور
اداس کردیتی تھی پھر ندیم نے ایک دن اپنی بیوی سے خواہش کا اظہار کیاجس پر
اس کی بیوی نے کہا کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں میں رات کو بھائی جان کو
فون کرکے کہتی ہوں کہ آپ کو سپانسر کرے۔ وزٹ ویزے کے لیے ندیم دل ہی دل میں
انتہائی خوش ہورہاتھا کہ مدتوں سے جو دل میں خواہش تھی اس کو پورا ہونے
کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھ گیاہے ندیم نے اپنی بیگم سے کہا کہ جب آپ سپانسر
مانگوا ہی رہی ہو تو اپنے اور بچوں کے لیے بھی مانگواؤں ساری فیملی مل کر
سیر کرکے آتے ہیں مسز ندیم نے رات کو بھائی جان سے کہا کہ آپ میرے اور میری
فیملی کے لیے سپانسر بھیجے ہم انگلینڈ سیر کرنے کے لیے آنا چاہتے ہیں جس پر
بھائی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے چند دنوں کے بعد ہی سپانسر بھیج دیا ادھر
ندیم نے اپنااور فیملی کے پاسپورٹ اور باقی فارمیلٹز پوری کرلی اور انگلینڈ
کے وزٹ ویزے کے لیے اپلائی کردیا ندیم اور اس کی فیملی بے حد خوش تھے کہ وہ
جلد انگلینڈ کی سیر کریں گے ندیم اور ساری فیملی دن رات دعائیں کرتے کہ
خدایا ہمیں ویزہ مل جائے لیکن خداوند کریم کو کچھ اور ہی منظور تھاکہ کوئی
دو ہفتوں کے بعد ندیم کو انگلینڈ ایمبسی سے کال آئی کہ اپنے پاسپورٹ وصول
کر لیں ندیم خوشی خوشی ایمبسی گیا پاسپورٹ وصول کیے اور کھولنے سے پہلے دل
میں دعا کی کہ اے خدایا ویزہ لگا ہو ندیم نے جلدی جلدی لفافے کو اوپن کیا
اور پاسپورٹ کو چیک کیا لیکن ویزہ کسی بھی پاسپورٹ پر نہیں لگا تھا ندیم
ایک پل میں ٹوٹ گیا بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے کیونکہ ندیم بہت پُر
امید تھا کہ اس کو فیملی سمیت ویزہ مل جا ئے گاندیم بجھے دل کے ساتھ گھر
آیا تودیکھا بیگم اور بچے بہت پُر جوش تھے بار بار اصرار کر رہے تھے کہ
ہمیں ویزہ دیکھاؤں جب ندیم نے ساری حقیقت بیان کی تو ان کی ساری خوشی جاتی
رہی بیگم نے پوچھا کہ ویزے کے حصول سے انکار کیوں ہوا ہے تو ندیم نے بتایا
کہ انگلینڈ ایمبسی والوں نے کہا ہے کہ آپ ساری فیملی کے ساتھ آرہے ہو اس
لیے آپ واپس اپنے وطن نہیں جاؤ گئے حالانکہ بھائی نے سپانسرمیں واضح بیان
کیا تھا کہ یہ فیملی انگلینڈ سے اپنا وزٹ مکمل کرکے اپنے وطن واپس جائے گی
بھائی سے شام کو بات ہوئی انہوں نے دلاسا دیا کہ آپ فکرمت کرو چھ ماہ کے
بعد دوبارہ سپانسر بھیج دوں گا دوسری جانب ندیم ایک بار پھراپنی کوششوں میں
لگ گیا اور انگلیوں پر دن گنتا رہا اور پھر وہ دن بھی آگیا جب چھ ماہ مکمل
ہو گئے اور اس بار ندیم نے اکیلے اپنے لیے ہی سپانسر مانگوایا اور اپلائی
کردیا کوئی دوہفتے کے گزرنے کے بعد بھی وہی نتیجہ نکلا جو ندیم کو پہلی بار
موصول ہوا تھا ندیم کی کوئی دعا رنگ نہ لائی اور سب سے ذیادہ حیرت کی بات
یہ تھی کہ اس بار انگلینڈ ایمبسی نے ویزے سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ آپ
اکیلے جا رہے ہیں آپ واپس نہیں آو گئے حالانکہ اس بار ندیم نے عدالتی حلف
نامہ بھی جمع کروایا تھا اور دوسری طرف انگلینڈ میں بھی بھائی نے عدالتی
حلف نامہ جمع کروایا تھا کہ ندیم ہر صورت اپنا وزٹ مکمل کر کے جائے گا ندیم
اس بار بُری طرح ٹوٹ گیا تھا ندیم جب بھی اپنے کسی دوست احباب کو سارا
احوال بیا ن کرتا ہے تو وہ حیران ہوکہ پوچھتے ہیں کہ انگلینڈ تو ایک کرسچن
ملک ہے اور وہ کرسچن کو فورا ویزہ فراہم کرتاہے جس پر ندیم ایک آہ بھرتا ہے
اور کہتا ہے کہ یہ بات صرف کہنے اور سننے کی حد تک ہے اس میں کوئی صداقت
نہیں ہے اور ویسے بھی اب ندیم کی انگلینڈ دیکھنے کی خواہش منوں مٹی تلے دفن
ہوگئی ہے مگربقول ندیم کے ان دو واقعات نے میرے اند ر پاکستان کے لئے عشق
میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے اور اب میں ذیادہ خوش ہو کہ اس لیے کہ میں فخر
سے کہہ سکتا ہوں کہ میرا ملک کسی انگلینڈ سے کم نہیں ہے کیونکہ میں ویزہ نہ
ملنے کی صورت میں نے پاکستان کے مختلف مقامات اور وادیوں کی سیرکی ہے جہاں
پہنج کردلی سکون میسر آتا ہے اور دل ہی دل میں اپنی حماقت پر ہنستا ہوں کہ
جتنا پیسہ ،وقت اور ذلت انگلینڈ کے لیے اٹھائی کاش اپنے پاکستان کی جنت
نظیر وادیوں کی پہلے سیر کرلیتایہاں میری چند ایک گزارشات حکومت پاکستان سے
ہیں اوروہ کچھ اس طر ح سے ہیں دنیا بھر میں سیروسیاحت ایک معاشی انڈسٹری بن
چکی ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بہت سے ممالک کا انحصار
سیروسیاحت پر اور ان ممالک کی سالانہ آمدنی کئی ہزار ملین،بلین ڈالرز ہیں
اور ایسے ممالک سیاحوں کے لیے سہولیات کو بہتراور آسان کر رہے ہیں اس لیے
ضروری ہے کہ پاکستا ن انگلینڈ سمیت تما م ممالک کے سفارت خانوں کو محبت
،امن ،دوستی اور برابری کا پیغام دے دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ممالک سے
تجارتی و سیاحتی تعلقات میں اضافہ کی دعوت دے و یزے کے حصول کے لیے نرم
پالیسیاں اپنائی جائیں عوام کو سفارت خانوں تک مکمل رسائی فراہم کی جائے
ویزے کے حصول کی انکاری پر اپیل کے ذریعے اعتراضات دور کرنے کا حق دیا جائے
سفیروں(سفارتکاروں) کو عوام کے ساتھ باعزت رویہ اختیار کرنے احکامات کیے
جائے تاکہ ان کے مسائل کو فوری حل کریں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان دنیا بھرکے
ممالک کو واضح کردے کہ جب کوئی پاکستانی متعلقہ ملک کی ویزہ پالیسی کی تمام
طرح Requirmentsکو پورا کر دے تو اس کو لازمی طور پر ویزہ فراہم کرے یاپھر
متعلقہ ملک یہ کہہ دے کہ ہم آپ کو ویزہ نہیں دے سکتے چاہے آپ نے ہمیں تمام
طرح کاغذی کاروائی مکمل کر کے بھی دی ہے اس پر پاکستا ن متعلقہ ملک کے سفیر
کو طلب کر کے وارننگ جاری کرے اگر کسی ملک کو یہ ڈر ہے کہ کو ئی غیر ملکی
ان کے ملک میں پناہ نہ لے تو اس کے لیے اس کو چاہیے کہ وہ متعلقہ شخص سے
ملک کے اندر داخل ہوتے وقت پولیس اسٹیشن میں تمام طرح کے کوائف درج کروائے
اور کسی قسم کی پناہ نہ لینے کا حلف لے ویسے ماضی میں پاکستان کے اندر
ریمنڈڈیوس جیسے لوگ بغیر ویزے کے بھی داخل ہوئے اور ملک میں سرعام بدمعاشی
بھی کرتے رہے ہیں وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے
اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ کی عزت وقار کو بڑھائیں گے سو اب
وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے اس بیان کی پاسداری کریں واگرنہ ندیم جیسے لوگ اپنے
ارمان کو دل کے قبرستان میں دفن کر کے رخصت ہو جائیں گے اور میری ندیم جیسے
لو گوں سے التماس ہے کہ ملک پاکستان کی سیر کریں اور اپنے ملک کی معیشت کو
بہتر کرنے میں اپناکردار ادا کریں کیونکہ پاکستان جیسے خوبصورت ملک میں
چاروں موسم ہیں اور قدرتی خزانوں سے مالامال ہے پاکستان دنیا میں ایک معجزے
سے کم نہیں اور حکومت سے بھی گزارش ہے کہ وہ سیاحتی سہولیات میں اضافہ کریں
ان میں بہتر ی لائیں۔پاکستان زندہ باد۔ |