نظام احتساب اعتماد کھو رہا ہے

جانے ایک ہی بات کو کبھی درست اور کبھی غلط کیوں سمجھا جارہاہے۔جب اپوزیشن کہتی تھی کہ نیب شرفا کی پگڑی اچھال رہا ہے تب اسے مجرموں کی طرف سے شور مچانا کہا جاتاتھا۔اب یہی بات ملک کے چیف جسٹس بھی کہہ رہے ہیں۔خود حکومت میں بیٹھے لوگ بھی نیب کے طریقہ کار پر سوال اٹھا رہے ہیں تو اس با ت کو معقولیت مل رہی ہے۔عجب تضاد ہے۔ماننا پڑے گا کہ کہ یا تو نیب غلط ہے یا غلط نہیں ہے۔اگر غلط ہے تو پھر اپوزیشن کا کہنا بھی درست ماننا پڑے گا۔اگر اپوزیشن کو سچی نہیں سمجھا جاتاتو پھر چیف جسٹس اور حکومت کے ان لوگوں کو جو نیب کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں انہیں بھی سچا تصور نہیں کیا جاسکتا۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں نیب سے سخت شاکی ہیں۔پہلے پی پی ایک عرصے سے اپنے خلاف انتقامی کاروائیاں کیے جانے کا شور مچا رہی تھی۔کہاجارہا تھا کہ سندھ سے امتیاز ی سلوک کیا جارہاہے۔سندھی قیادت کو انتقا م کا نشانہ بنایا جارہاہے۔تب پی پی کھلے عام تب کے وزیرداخلہ چوہدری نثار کے خلاف آئے بیان بازی کیا کرتی تھی۔کچھ عرصہ پی پی کی طرف سے واویلا بند ہوگیا یہ وہ وقت تھا جب دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے شکوے شکایتیں شروع ہوگئیں۔پی پی کی طر ف سے خاموشی اختیا رکرلینا اشارہ تھا کہ اس کے زخموں پر مرہم رکھاجاچکا۔اب نمک پاشی کے لیے دوسری جماعت کا انتخاب ہوچکا۔پانامہ لیکس آنے کے بعد سے مسلم لیگ (ن) مسلسل اپنے ساتھ جانبدرانہ سلوک کیے جانے کا ذکر کررہی ہے۔بھلے ہی حکومت اس جماعت کی تھی مگر جس طرح وقت کے وزیراعظم کے خلاف میڈیا میں باریاں لگا کر منفی پراپیگنڈا کروایا گیااس سے اس با ت کا اندازہ لگایا جاسکتاتھاکہ اصل حکومت مسلم لیگ (ن) کے پاس نہیں کسی اور کے پاس ہے۔

سابق وزیراعظم کو جب نااہل قرار دے کر وزارت عظمی سے نکلوادیا گیا تو ان کی جانب سے مجھے کیوں نکالا کی ایک نان سٹاپ گردان شروع ہوگئی۔

یہ درست ہے کہ مجھے کیوں نکالا کا جملہ ایک مذاق بن گیا۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کو مذاق سمجھنے والے شاید انتی عقل کے مالک ہی نہ تھے کہ اس کی حقیقت کا ادراک کرسکیں۔جو صاحب شعور تھے انہیں میاں صاحب کی بات ایک گولی کی طرح لگی۔ایک عظیم احساس بے بسی سے دوچار ہوتے صاحب شعور جان گئے کہ وہ نام نہاد آزادی میں کسی غلامی کے شکار ہیں۔ مذاق اڑانے والے احمق اس بیان کی حقیقت بھلا کیا جانیں۔ مسلم لیگ (ن) کا انتقامی رویے کے خلاف واویلہ بڑھتا چلا گیا ۔جس طرح کی ساراٹبر چور ہے کہ ڈھنڈورہ پیٹا گیا اس سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ اس ٹبر نے کچھ لوگوں کی نیند اس ٹبر نے حرام کررکھی ہے۔اس ٹبرکی اب خیر نہیں ۔اس طرح کے مخصوص احتساب کے خلا ف ابھی مسلم لیگ (ن) کا احتجاج ابھی تھم نہ پایا تھاکہ ایک بار پھر پی پی نے آواز بلند کرلی۔پہلے سندھ کی صوبائی حکومت کی طرف سے دبے دبے بیان دلوائے۔ سندھ کی محرومیوں اور اس کی قیادت اور دھرتی سے زیادتیاں ہونے کا ذکر کروایا گیا۔جب بات نہیں بنی تو جناب زرداری خود میدان میں آگئے۔سندھ میں تین بڑے جلسوں میں انہوں نے تحریک انصاف کے پیچھے چھپنے والوں کی دل کھول کر سنائیں۔جلسوں میں ہوئے گلے شکووں کا لب لباب اسی احتساب کا غلط تھا۔دونوں بڑی جماعتوں کے بعد اب سپریم کورٹ کو نیب کے طریقہ کار پر اعتراض ہونامعاملے کی سنجیدگی کی طرف اشارہ ہے۔

مسلم لیگ (ن) کو نظام عدل پر اس سے بھی بڑھ کر تحفظات ہیں۔اس کی قیادت کے بیانات سے لگتاہے جیسے یہ نظام کسی گریٹ گیم کا حصہ ہو۔جو لیگی قیادت کو دیوار سے لگانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔سازشیوں نے پہلے سیاسی کٹھ پتلیوں سے کام نکالنا چاہا۔یہ کٹھ پتلیاں تماشہ کر کرکے ہلکا ن ہوگئیں کام نہ بن پایا۔پھر مذہبی چولا پہناکر کچھ دنیا داروں کے ذریعے مطلب پانے کا راستہ اپنایا گیا۔وہ بھی بے اثر گیا۔لیگی قیاد ت کے بقول اب عدالتوں میں بیٹھے کچھ لوگوں سے یہ کام نکلویا جارہاہے۔ نیب کے کردار پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔اپوزیشن تنقید کررہی ہے۔چیف جسٹس برہم ہیں۔حکومت کے کچھ لوگ احتساب کے عمل پر سوال اٹھا رہے ہیں۔کچھ تو گڑبڑ ہے۔اتنے سارے لوگ بلاوجہ تو عدم اطمینا ن کا اظہار نہیں کرہے۔نیب اس وقت بلاشبہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنا ہواہے۔چئیرمین بجائے کسی مناسب ترتیب سے کسی شیڈیول سے کم کروانے کے بڑی بے ترتیبی میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں۔ان کا طریقہ کار آسان لفظوں میں ہیجان خیزی کے سو اکچھ نہیں وہ نیب کو کسی نتیجہ خیز احتساب کا ادارہ بنانے کی بجائے عارضی مہم جوئی کا ذریعہ بنارہے ہیں۔ہر دوسرے تیسرے دن کسی بڑی کھوج کا بتایا جارہاہے۔کسی بڑے غبن کی بات کی جارہی ہے۔کسی عظیم قومی ڈکیتی کی اطلاع مل رہی ہے۔چئیرمین نیب ہردوسرے دن قوم کو تجسس میں مبتلا کرنے کا کامیاب مظاہرہ کررہے ہیں مگر کیا وہ اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے میں کامیاب ہورہے ہیں جو انہیں چئیرمین نیب کا عہدہ دے کر سونپی گئی۔اس میں وہ ناکام نظر آتے ہیں۔ان کا اصل کام تو معاملات کو حتمی انجام تک پہنچانا ہے۔نیب کی لسٹ میں شامل ہونے والے کیسز کی تعداد ان کسیز کی تعداد سے دس گنازیادہ ہے جووہ نبٹانے میں کامیاب ہوا۔بہتر ہوگا کہ مقدمات کی نئی بھرتیاں روک کر پہلے سے موجود مقدمات کو انجام تک پہنچایا جائے۔

AMJAD SIDDIQUE
About the Author: AMJAD SIDDIQUE Read More Articles by AMJAD SIDDIQUE: 222 Articles with 123332 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.