وقت کی رفتار اپنی ہی انداز میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے
رہتی ہے۔ یہ ہم انسان ہیں جو اپنی ذات کو معمولات زندگی میں اِتنا گُم کر
دیتے ہیں کہ زندگی میں سکون کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ محبتیں راستے میں گری پڑی
نہیں ہوتیں محبتیں بانٹنے سے ہی مل پاتی ہیں۔ موجودہ دور میں انسان خود کو
اِس نہج پہ لے آیا ہے کہ وہ خود کو محبت و خلوص اور وفا کا حقدار سمجھتا ہے
لیکن دوسروں میں یہ سب کچھ تقسیم کرنے کاظرف اُس میں نہیں ہوتا۔ اِسی وجہ
سے کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور قحط الرجال کا دور ہے۔ جفا ء کرنے والوں کی
لمبی قطار ہے اور وفاء شعار ناپید ہیں۔ بے مروتی، مادیت پرستی کا سب سے
زیادہ رونا وہ روتے ہیں جو خود کسی سے سیدھے مُنہ بات کرنا بھی پسند نہیں
کرتے۔
حالیہ دور میں وطن پرستی کا جذبہ مفقود دیکھائی دیتا ہے۔ حلال روزی کمانے
والے کی طرف بے چارگی سے دیکھا جاتا ہے۔ شرافت اور دیانت کے پیکر کو کسی
اور سیارے کی مخلوق گردانا جاتا ہے۔ کسی کے حق کو غصب کیا جانا ایسا ہے
جیسا کہ اپنا حق لیا گیا ہے۔ جب ہم نفرتیں بوئیں گے تو نفرتیں پنپ کر ہی دم
لیں گئیں۔ ٹی وی چینلز کی بھرمار، سوشل میڈیا ،یو ٹیوب، ویب سائیٹس سبھی تو
اطلاعات رسانی کا کام کر رہے ہیں ۔ لیکن امن ، محبت، وفاء خلوص، دیانت
شرافت بسترِ مرگ پڑے ہوئے ہیں اور انکی نبض تقریباً تقریباً ڈوب چُکی ہے۔
فلاحی ریاست بنائے جانے کا خواب حضرت اقبالؒ نے دیکھا اور بابائے قوم محمد
علی جناح ؒ نے عملی طور پر اِس کا قیام سچا کر دیکھایا۔ پاکستانی ٹی وی
چینلز میں سب کچھ دیکھا یا جاتا ہے۔ اخلاقی طور پر کیا مناس ب ہے اور کیا
نہیں اِس کا ذمہ بھی ٹی وی چینلز نے خود لے لیا ہے۔ ویا معاشرئے کی تربیت
کی ذمہ داری کو بوجھ اینکرپرسنز کے کندھوں ہر ہے۔ بیس کروڑ آبادی کے ملک
میں صرف اوریا مقبول جان ہی پیمرا کی آنکھوں میں کیوں کھٹکتا ہے۔
جناب اوریا مقبول جان کا قصور اُنہی کی زبان سنیے" سال نو کی خوش بختی اور
خوش نصیبی ہے کہ 2019ء کا آغاز میرے ٹیلی ویژن پروگرام ’’حرف راز‘‘ پر
پابندی سے ہوا۔ ایک آگ جو مدت سے سلگ رہی تھی شعلہ بن کر بھڑک اٹھی۔ یہ
چنگاری گزشتہ ڈیڑھ سال سے سلگ رہی تھی۔ عین اس دن سے جب سات ستمبر 2017ء کو
میں نے پاکستان کی دوسری آئینی ترمیم والے دن‘ اس ترمیم کی یاد میں پروگرام
کیا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی بنیاد‘ رنگ‘ نسل‘ زبان اور علاقے
پر نہیں‘ مذہب یعنی اسلام پر رکھی گئی ہے۔ جس طرح ہر ملک اپنی وجہ تخلیق کے
بارے میں بہت محتاط ہوتا ہے اور اس کی جامع تعریف اپنے آئین میں درج کرتا
ہے ویسے ہی چونکہ پاکستان کی وجہ تخلیق اسلام اور مسلمان تھی۔ اس لئے ان
دونوں کی ایک جامع تعریف بہت ضروری تھی۔ ریاستیں اپنے علاقوں کی تعریف کرتے
ہوئے ایک ایک انچ کی پیمائش اور حد بندی کرتی ہیں‘ نسل کی بنیاد پر قائم
ریاستیں تحقیقات کے دفتر کے دفتر لکھ ڈالتی ہیں کہ جرمن نسل کون سی ہے اور
آئرش کس طرح کے ہوتے ہیں۔ کوریا اور چین والے بظاہر ناک نقشے اور رنگ روپ
میں ایک جیسے ہیں لیکن نسل کے اعتبار سے دونوں واضح تفریق کرتے ہیں اور اس
پر باقاعدہ اصرار کرتے ہیں۔ وجہ صرف ایک ہے کہ ان تمام ملکوں میں آاد اقوام
رنگ‘ نسل اور زبان کی وجہ سے اپنی شناخت رکھتی ہیں۔ ایک جیسی صورت اور نسل
کیوں نہ ہو مگر جاپانی‘چینی‘ویت نامی‘ فلپائنی اور کوریائی منقسم ہیں اور
اپنی اپنی زبان کی اصلیت‘ خاصیت اور شفافیت کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہی حال یورپ
میں ہالینڈ‘ بلجیم‘ جرمن‘ فرانس اور دیگر ممالک میں ایک جیسے دکھنے والے
اور ایک کا کیشئن نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی فرانسیسی اور جرمن زبان
کے قواعد و ضوابط اور اصول ایسے مرتب کرتے ہیں کہ دونوں نسلیں اورقومیں
مختلف دکھائی دیں۔ اسی لئے پاکستان کے آئین کے لئے یہ ضروری تھا کہ اسلام
اور مسلمان کی تعریف کر دی جائے۔ اس تعریف کا عمل یوں تو قرار داد مقاصد سے
شروع ہو گیا تھا‘ لیکن پھر پاکستان کی دستوری اور سیاسی تاریخ کی مسلسل
ناہمواری نے اسے تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔1973ء کے آئین کے آغاز میں بھی
یہ سقم باقی تھا جسے سات ستمبر 1974ء کو مکمل کر دیا گیا اور دوسری ترمیم
کے ذریعے اسلام اور مسلمان کی جامع تعریف کرتے ہوئے قادیانیوں کو دائرہ
اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ اس لئے یہ دن پاکستان تاریخ کے اہم ترین
دنوں میں سے ایک ہے‘ کیونکہ اس دن وجہ تخلیق پاکستان یعنی اسلام اور مسلمان
کی حدود و قیود کا آئینی طور پر تعین ہوا تھا۔ لیکن بدقسمتی کا عالم یہ رہا
کہ 1974ء سے لے کر 2017ء تک 43سال تک نہ یہ دن سرکاری سطح پر منایا گیا اور
نہ ہی اسے میڈیا پر کوئی اہمیت دی گئی۔ کبھی کبھار کوئی اخبار اپنی ذاتی
خواہش اور عقیدت میں اس پر اکا دکا مضمون شائع کر دیتا ہے۔ علماء کرام میں
سے بھی چند افراد جلسے اور تقریبات منعقد کراتے اور سال بھر خاموش بیٹھ
جاتے۔ ضیاء الحق کے دور تک کسی نہ کسی طور پر اس معاملے پر گفتگو ہوتی رہتی
اور اس آئینی ترمیم کی وجہ سے ایک طرح کے سیکولر لوگ اور سیدالانبیاء ؐکی
حرمت کے جانثار دوسری طرح کے لوگ بھی اس معاملے پر زبان نہیں کھولتے تھے۔
نہ ہی مملکت خداداد پاکستان میں کوئی قادیانی یہ جرا ء ت کرتا تھا کہ آئینی
ترمیم کے بعد زبان کھولے کہ جدید دور میں آئین کی خلاف ورزی تو بغاوت کے
برابر ہے۔ پرویز مشرف نے جس طرح سیکولرازم‘ لبرل ازم اور الحادکا ماحول اس
ملک کو تحفے میں دیا۔ وہیں قادیانیوں کو انسانی حقوق کے نام پر آئین
پاکستان کے خلاف بولنے کا راستہ بھی دیا۔ تمام این جی اوز‘ سول سوسائٹی‘
مغربی گماشتے اور سیکولر لبرل طاقتیں قادیانیوں کو 1974ء سے پہلے والی
پوزیشن میں لانے کے لئے سرگرم عمل ہو گئیں۔ آپ اس دور کی انسانی حقوق‘مذہبی
آزادی اور اقلیتی حقوق کی رپورٹس اٹھا کر دیکھ لیں‘ آپ کو قادیانی دنیا بھر
میں فلسطینیوں اور کشمیریوں سے بھی زیادہ مظلوم دکھائی دیں گے۔ تمام مغربی
ممالک اور ان کے پروردہ سول سوسائٹی کے ارکان اس عرصہ میں بوسنیا‘ عراق‘
افغانستان‘ شام‘ کشمیر اور فلسطین پر خاموش رہنے کے ساتھ ساتھ‘ بغض اسلام
میں قادیانیوں کی دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کو ایک بہت بڑے انسانی مسئلے
کے طور پر پیش کرتے تھے‘ حالانکہ جرمن اور انگلینڈ کی عدالتیں اب یہ فیصلے
دے چکی ہیں کہ قادیانیوں نے ایک بہت بڑے انسانی سمگلنگ کے گروہ کا روپ دھار
لیا ہے۔ یہ اگر پاکستان کے آئین کے مطابق زندگی گزاریں تو ان پر وہاں کوئی
پابندی نہیں‘ لیکن یہ تو آئین سے بغاوت کر کے یہاں پناہ تلاش کرتے ہیں اور
ہر قادیانی یہاں بہتر معاشی مستقبل کے لئے آتا ہے۔ ایسے میں اکا دکا آوازیں
پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں بھی نظر آنا شروع ہو گئیں‘ جن میں
قادیانیوں کو دنیا کا مظلوم ترین طبقہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔پاکستان میں
فروغ پانے والی سیکولر ایجوکیشن نے اس موقف کو سکولوں اور کالجوں میں بزور
پہنچایا اور ایک ایسی نسل تیار کر دی گئی جو پاکستان کی ریاست اور آئین کو
ظالم سمجھتی تھی۔ یہ تھا وہ عالم جب پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلوں پر
قادیانیوں کے خلاف بولنا تقریباً تقریباً دہشت گردی کے حق میں بولنے کے
مترادف ہو چکا تھا۔اس صورت حال میں تقریباً چالیس سال کی مسلسل خاموشی کے
بعد جب میں نے سات ستمبر 2017ء کو دوسری آئینی ترمیم پر ایک پروگرام کیا تو
ایوانوں میں پہلی چنگاری سلگی۔ یہ پہلا نوٹس تھا‘ جس کی تعمیل میں لاہور کے
پیمرا کے دفتر میں حاضری دی تو لاہور ہائی کورٹ کے کئی سو وکلاء میرے وہاں
پہنچنے سے پہلے ہی موجود تھے۔ اس پیشی کا عالم بھی عجیب تھا۔ مجھے فرقہ
واریت پھیلانے کے جرم میں بلایا گیا تھا اور تمام وکلاء یہ سوال کر رہے تھے
کہ کیا آئینی ترمیم کی یاد مناناجرم ہے۔ اسی پیشی پر نوٹس تو واپس لے لیا
گیا لیکن اس واپسی کی چنگاریاں کُوبہ کُو پھیلنے لگیں۔ حسین حقانی کی بیوی
فرح ناز اصفہانی نے امریکہ میں میرے خلاف مہم شروع کی۔ ربوہ ٹائمز سے لے کر
تمام قادیانی میڈیا نے سیکولر میڈیا سے مل کر سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر
میرا نام ناقابل نفرت بنایا۔ یوں جب میں تیس مارچ کو نیو یارک میں یوم
پاکستان کی تقریب میں جا رہا تھا تو مجھے طیارے سے اتار دیا گیا۔ گزشتہ
دنوں ناروے میں سیدنا علی ہجویریؒ کانفرنس میں جا رہا تھا تو ناروے کے
سیکولر لبرل اور قادیانی متحد ہو گئے اور اس کانفرنس کا اجازت نامہ منسوخ
کر دیا گیا۔ یہ تھی وہ چنگاری جو سلگ رہی تھی۔ مجھے اپنا جرم معلوم ہے اور
فریق ثانی کو بھی خوب علم ہے کہ میرا اصل جرم کیا ہے۔ ہم دونوں نے جلد اس
دنیا سے اس جہان رخصت ہو جانا ہے جہاں میرا ایمان ہے کہ میرا جرم اور میری
سیاہی اﷲ کے فضل و کرم اور سیدالانبیاءؐ کی شفاعت کے صدقے میرے گناہوں کو
ڈھانپ لے گی‘میری کمزوریوں کو چھپا لے گی اور میرے جیسے بے مایہ کم علم‘ کم
مرتبہ شخص کی نجات کا ذریعے بنے گی۔ سال نو کا یہ جرم مجھے پیارا ہے‘ بہت
ہی پیارا۔ اس سال کے پہلے مجرم ’’حرف راز‘‘ کو اس جرم پر فخر ہے۔"
جناب اوریا مقبول جان کا جرم سب کے سامنے ہے۔ اِس کالم میں جن وکلاء کا ذکر
ہے اُن میں یہ ناچیز بھی شامل تھا۔ لیکن افسوس ہے پیمرا پر۔ حکومت پر۔ آئین
پاکستان سے غداری کرنے والے لبرل فاشسٹوں کے سر پر ہاتھ رکھا گیا ہے اور
اقبالؒ کے شاہین، نبی پاکﷺ کے عاشق کے پروگرام پر پابندی لگا دی ہے۔
|