نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف شروع کیا جانے
والاامریکی جنگ اب تقریباً تمام مسلم ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے چکا ہے۔
نائن الیون کے افسوس ناک واقعے پر تمام دنیا کے ممالک خاص کر مسلم ممالک نے
غم اور افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ سب ممالک نے دہشت گردی کے اس واقعے کو
امریکا اور دنیا کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا تھا لیکن اس کے باوجود
امریکا نے پہلے افغانستان پر حملہ کیا اس کے بعد عراق پر حملہ آور ہوا جس
میں اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی جانوں کا
نذارانہ پیش کر چکے ہیں ۔ اس طرح پاکستان میں دہشت گردی شروع ہوئی ، ساتھ
ساتھ میں شام ، مصر ،لبنان ،یمن لیبیا، ترکی ،ایران ،سعودی عرب سمیت دوسرے
اسلامی اور مغربی ممالک کے ساتھ یورپ میں بھی دہشت گردی کے حملے اور واقعات
پیش آئیں۔ان واقعات میں زیادہ تر بے گناہ لوگ ٹارگٹ ہوئے ۔
اﷲ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے اپنی تیسری کتا ب ’’ مسلم ممالک میں د ہشت
گردی ‘‘ مکمل ہوچکی ہے جو عنقریب نیٹ پر اپ لوڈ کردوں گا۔ اس کتاب میں کوشش
کی گئی ہے کہ دہشت گردی کے نام پر شروع کیا جانے والا جنگ میں اب تک کہا ں
کہاں بم دھماکے ، خودکش حملے یا خانہ جنگی شروع ہوئی جو آج تک کسی نہ کسی
صورت میں جاری ہے ۔ یہ بھی حقیقت اپنی جگہ موجودہے کہ ایک طرف دہشت گردی کے
نام پر امریکا نے مسلم ممالک میں حالات کو خراب کیا تو دوسری جانب مسلم
ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں شدت پسندوں کو سپورٹ کرنے یا ان ممالک میں
براہ راست حصہ لینے کا کریڈٹ بھی امریکا کے سر پر ہیں۔
اب یہ حقیقت بھی زبان زدعام ہے کہ دہشت گردی کے نام پر شروع کیا جانے والا
جنگ حقیقت میں امریکا نے تیل اور دولت حاصل کرنے کیلئے شروع کیا تھا ۔ عراق
میں تیل پر قبضہ کیا گیا جبکہ دوسرے ممالک میں اسلحہ وبارود کی سپلائی شروع
ہوئی جس کا ثبوت یہ ہے کہ ماضی کے برعکس آج دنیا میں زیادہ اسلحے کا
کاروبار ہوتا ہے ۔ سالانہ اربوں ڈالر اسلحے کی خرید وفروخت ہوتی ہے۔ زیادہ
تر ممالک اسرائیل اور امریکا سے میزائل اور اسلحہ خریدتے ہیں دوسری طرف
ہیروئن جو طالبان دور میں انہوں نے ختم کی تھی ۔آج امریکا اور ان کے دوست
ممالک میں یہ ایک بڑا پیسوں والا کا روبار بن چکا ہے جس کے بدولت سمکلنگ
عروج پر ہے اور اس کاروبار سے اربوں روپے بنائیں جاتے ہیں۔
اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ مسلم ممالک میں ہونے والے دہشت گردی اور اس
میں اب تک کے تباہی وبربادی اپنے قارئین کے سامنے رکھ سکوں اور ان کو معلوم
ہوجائے کہ اب تک کس کس ملک میں کتنی انسانوں اور خاص کر مسلمانوں نے شہادت
حاصل کی ہے اور کتنے لوگ عمربھر کے لئے اپاہیج بن گئے ہیں۔ اس کتاب میں یہ
بھی کوشش کی کئی ہے کہ حالات کے تناطر کے مطابق لکھا جائے اور واقعات سے
متعلق معلومات شیئر کی جائے ۔ یہ ہماری بدقسمی ہے کہ دہشت گردی کے نام پر
شروع ہونے والا جنگ یا لڑائی زیادہ تر اسلامی ممالک میں لڑی گئی ہے اور
ٹارگٹ بھی یہ ممالک ہی رہے ہیں لیکن ان ممالک یعنی اسلامی ممالک کے حکمران
صرف اپنی حکومتیں کرتے رہے ہیں۔ اس تباہی وبربادی کو روکنے کیلئے کوئی
منصوبہ بندی یا لحہ عمل سامنے نہیں آیا کہ جس سے تباہی وبربادی کا یہ جنگ
روک جائے اور اس میں انسانی خون کا مزید بہنا بند ہوجائے بلکہ حقیقت تو یہ
بھی ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک کے سربراہانوں کی وجہ سے وہاں حالات خراب
ہوئے اور بعد ازاں ملک میں خانہ جنگی شروع ہوئی ۔
اس کتاب میں یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ حالات کا درست تجز یہ کیا جائے اور
حقیقت عوام کے سامنے بلا خوف وخطرے اور بغیر کسی مذہبی سوچ اور تفریق کے
حقائق بیان کی جائے ،خاص کر پاکستان اور افغانستان میں جوگیم شروع ہے جس کے
پیچھے امریکا ، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ اپنی جگہ لیکن ہمارے حکمرانوں
کی غلطیاں بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ بھارت نے بہت کوشش اور پلاننگ کی کہ
پاکستان میں حالات کو خراب کیا جائے اور دنیا کے سامنے پاکستان کو دہشت گرد
ملک کے طور پر پیش کیا جائے جس میں کچھ حد تک بھارت کو کامیابی بھی ملی
لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے دنیا پر بھارت کی شدت پسندی عیاں نہیں
کی لیکن سکیورٹی فورسزنے ان کی پلاننگ اور دہشت گردوں کو شکست دی ۔ اس طرح
دیکھا جائے تو کشمیر میں آج بھی جدوجہد آزادی کی جنگ عروج پر ہیں ۔ آزادی
کے لئے کشمیر ی اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر رہے ہیں لیکن بھارت کا ظلم
وجبر روکنے والا نہیں لیکن اس کے باوجود بھارت کی دہشت گردی دنیا کو نظر
نہیں آرہی ہے ۔ حقیقت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر ہی وہ
بنیادی وجہ ہے جس کو اگر حل کیا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر
ہوسکتے ہیں۔
اس طرح دیکھا جائے تو عراق میں جو گیم امریکا نے کھیلی وہ حقیقت اب پوری
دنیا پر واضح ہوچکی ہے لیکن اس حقیقت کے بعد بھی امریکی افواج عراق میں
موجود ہے اور وہا ں کنڑول سنبھال ہوا ہے۔دوسری طرف دیکھا جائے تو امریکا
اور اس کے اتحادیوں کی سرد جنگ روس کے ساتھ جاری ہے لیکن یہ جنگ مسلم ممالک
میں لڑی جاری ہے ۔ اس جنگ نے شام کو قبرستان میں تبدیل کردیا ہے لاکھوں
شامیوں کو مار دیا گیا ہے لیکن امریکا اور روس ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی
دھمکی شام کی سرزمین پر دے رہے ہیں یعنی تباہی صرف اور صرف شام کے مسلمانوں
کی ہوگی ۔ حملہ روس اور اس کے ہمنواؤں کی جانب سے ہو یا امریکہ،اسرائیل اور
اس کے اتحادی برطانیہ اور فرانس بم برسائیں تباہی وبربادی شامی عوام کے
مقدر میں لکھی ہے لیکن ان سب کے باوجود او آئی سی سمیت اقوام متحدہ خاموش
تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے ۔
دہشت گردی کو روکنے اور اس کو ختم کرنے کے حوالے سے اب تک کی تمام اقدامات
برائے نام ہوئی ہے بلکہ حالات ووقعات بتا رہے ہیں کہ یہ جنگ اب بھی روکنے
والا نہیں بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگا لیکن بدقسمتی سے مسلم ممالک کے عوام
کی یہ ہے کہ ان کو حقیقی معنوں میں کوئی رہنما نہیں ملا جو ان کی آواز دنیا
تک پہنچائیں اور دنیائے عالم اس نام نہاد جنگ جو اسلحے اور بارود کے خریدو
فروخت کیلئے شروع کی گئی اب اس کا اختتام ہوجائے۔ ستم ظریفی یا مسلمانوں کی
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ چاروں طرف زیادہ تر مسلمان ہی ٹارگٹ اور نشانہ بن رہے
ہیں۔ مسلمان نوجوانوں میں یورپی اور امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے
جو مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں رہنے والے عوام کے لئے بھی
اچھا پیغام نہیں، جو آگ آج مسلم دنیا میں لگائی گئی ہے اس آگ سے دوسرے
ممالک بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔
ہم سب کو دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے اپنی اپنی بساط کے مطابق جد وجہد
کرنی چاہیے اور جنگ کے خلاف اور امن کے لئے کوشش کرنی چاہیے تاکہ دنیا ئے
عالم اور خاص کرمسلم ممالک میں جو آگ لگی ہے اس کو بجھایا جاسکیں۔اس کتاب
میں کوشش کی گئی ہے کہ موجودہ مسلم ممالک میں پیش آنے والے دہشت گردی کے
واقعات کے حوالے سے تاریخ کو قلم بند کی جائے اور نئی نسل اور خاص کر تاریخ
کے طلباعلموں کو حقیقت سے روشناس کرایا جائے۔
یہ اقتبا س میں نے اپنے کتاب مسلم ممالک میں دہشت گردی ، کیلئے حرف آغاز
کیلئے لکھا تھاجو آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں ۔ آج اٹھارہ سال افغانستان میں
کھر بوں روپے خرچ کرکے امریکا طالبان کی شرائط ماننے کیلئے بے تاب ہے کہ
کسی طرح افغانستان سے نکلنے کاراستہ مل جائے۔ میں نے پانچ سال پہلے اپنی
کتاب ، کیا پاکستان ٹوٹ جائے گا؟ گریٹ گیم کے پس پردہ حقائق ‘‘ میں لکھا
تھا کہ آج نہیں تو کل امر یکا کو افغانستان میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا
پڑے گا اور آخری میں جیت طالبان کی ہو گی جو صرف اﷲ تعالیٰ کی راضاکیلئے
جنگ نہیں جہاد کررہے ہیں جبکہ جتنا امریکا افغانستان میں قیام کریں گا اتنا
ہی تباہی وبر بادی امریکہ کی قسمت میں آئیں گی اور یہ جنگ امر یکا کا زوال
کا سبب بننے گا ۔ ان حقائق کا اظہار آج امریکی صدر خود کررہے ہیں۔ |