سورۃ البقرہ کے شروع میں اﷲ تعالی فرماتا ہے ’’اس کتاب
میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں ‘‘اسی طرح رب کائنات کاقرآن مجید فرقان
حمید کی سورۃ العصرآیت نمبر دومیں فرمان مبارک ہے ’’ بے شک انسان گھاٹے میں
ہے ‘‘انسان ساری زندگی اس گمان میں اپنے شب و روز کرتا ہے کہ وہ دوسروں
کیلئے بہت اہم ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ ہمارے ہونے یا نہ
ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، آپ چار دن منظر سے غائب ہو کر دیکھیں
لوگ آپ کا نام تک بھول جائیں گے،یہا ں تک کہ مر جانے سے بھی کسی کی زندگی
پر کوئی فرق نہیں آئے گا یہی لوگ ریسٹ ان پیس اور فیلنگ سیڈ یا برون کا
سٹیٹس دے کر اپنی اپنی زندگی کی رعنائیوں میں گم ہو جائیں گے کیونکہ انسان
دنیا کی رنگینیوں کا دلداد ہ ہے اور یہی رنگینیاں انہیں پسیتوں میں لانے کا
باعث بھی ہیں لیکن حضرت انسان نے بھول کا روزہ رکھا ہوا ہے یہ روزہ کب کھلے
گا نہیں معلوم ،یہ دنیا کا رنگین سپنایہ روزہ کھلنے ہی نہیں دیتا ۔ یہ بھی
عجیب اتفاق ہے ماہ رمضان کے گنتی کے تیس روزے ہوتے ہیں اور مسلمانوں پہ فرض
بھی ہیں لیکن ان روزوں کی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے ہم وہ روزے جو ہم
پہ فرض ہیں نہیں رکھتے،یہا ں لوگ کئی قسم کے وعدے کرتے ہیں اور اپنا مطلب
نکال کر وعدے بھول جا تے ہیں ، قرا ٓن مجید کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر
15میں اﷲ رب العزت فرماتے ہیں ’’اﷲ سے عہد کرنے کی باز پرس ہوگی ‘‘یہ بھی
حقیقت ہے کہ آپ کسی سے کوئی وعدہ کر کے اپنے وعدے سے مکر جاتے ہیں وعدہ
نہیں نبھاتے تو آپ کا شمار منکروں میں ہوتا۔ وعدے کے متعلق حضور نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جو وعدہ وفا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے
‘‘کتنا واضح اور شفاف بتا دیا گیا ہے کہ وعدہ کی کتنی اہمیت ہے اور وعدہ
خلافی کے نتیجہ میں ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ ہم
میں سے نہیں ہے ‘‘ارے نادان دنیا والوں ۔۔ ذرا غور کرو اگر ہم وعدہ وفا
نہیں کرتے تو پھر اس پیاری ہستی سے تعلق قائم رکھنے سے بھی قاصر ہیں پھر
غور کیجئے ’’وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘ اﷲ اﷲ ۔۔۔ ’’وہ ہم میں سے نہیں ہے
‘‘کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کی محمد سے وفا تونے توہم تیرے ہیں
یہ جہان چیز کیا یہ لوح و قلم تیرے ہیں
ہمارے پیار محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ پاک کے پیارے محبوب سے جہل منکرلوگ
وعدہ کرتے تھے کہ آپ فلاں کام کر کے دیکھائے تو ہم آپ پر پھر یقین کریں گے
اور دین اسلام پر ایمان لائے گے جب ان کا کہا کام ہو جاتا تھا تو اپنے وعدے
سے مکر جاتے تھے اور آج بھی جو اپنے وعدے سے مکر جاتے ہیں ان کا شمار آخرت
میں منکروں میں ہی ہو گا یہ وہ تلخ خقیقت ہے جسے ہم جانتے بوجھتے نظر انداز
کرتے ہیں۔آؤ لوگوں ابھی بھی وقت ہے اﷲ پاک کے حضور توبہ کا دروازہ کھولا ہے
توبہ کر لواور اپنی زندگی کو اﷲ پاک کے راستے میں وقف کیجئے کیونکہ اسلام
کے اصول سنہری اور لازوال ہیں جب تک ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں کو اپنا
نصب العین نہیں بناتے تب تک ہم دین کے ہیں نہ دنیا ہے اور آخرت جو ایک اٹل
حقیقت ہے وہاں بھی ہمارا ٹھکانہ جہنم کے سوا کیا ہو سکتا ہے رب کائنات سورۃ
النصر کی آیت نمبر تین میں فرماتے ہیں ’’اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح
کیجئے اور اس سے معافی مانگئے بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے‘‘یعنی
اپنے خالق کی حمد بیان کریں اس سے معافی کی درخواست کریں کیونکہ رب کائنات
توبہ قبول کرنے والا ہے اﷲ پاک کیلئے خود کو جہالت سے نکال کر حق اور سچ کی
طرف لوٹ آیئے یہ دنیا ایک رنگین سپنا ہے جو بہت جلد ٹوٹ جائے گا اس میں خود
کو تباہ نہ کیجئے ،سورۃ لقمان میں اﷲ تعالی فرماتے ہیں ’’پھر دنیا کی زندگی
تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے ‘‘ آیت نمبر 33،سبحان اﷲ ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ
دنیا کی جو عارضی زندگی ہے یہ ہمیں دھوکے میں ڈال سکتی ہے اس دھوکے سے بچنے
کا یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم صراط مستقیم پہ چلیں یہاں اپنی جھو ٹی شان و
شوکت کیلئے کتنے کتنے جھوٹ بولے جاتے ہیں، کیاکیا بیس بنائے جاتے ہیں ۔کئی
تنظیمیں بنی ہیں جن کو چلانے والوں کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم غریبوں کیلئے یہ
سب کر رہیں ہیں مگر غریبوں کے حصے چوتھائی بھی نہیں آتا بس سب اپنے پیٹ بھر
رہے ہیں اور غریبوں کا مال کھا کر آخرت میں ذلت و رسوائی کا سامان بنا رہے
ہیں خدا کیلئے دنیا کے فریب اور جھوٹ سیجان چھڑائیں اورآخرت کا سوچیں کچھ
وقت اﷲ پاک کی عبادت کیلئے نکالیں اسی میں دنیا اور آخرت کا سامان چھپا ہوا
ہے۔۔۔۔۔۔۔ |