اسلامی تعلیمات، روایات، تمدن، تہذیب، کلچر اور اُصول و
معارف کا کوئی گوشہ حکمت سے خالی نہیں- ہر پہلو دل پذیر ہے اور اس میں اثر
آفرینی کا جہان مستور ہے- یہی سبب ہے کہ بجھی طبیعتیں، مُرجھائے دل تعلیماتِ
اسلام کے کسی ایک پہلو کی روح سے آشنائی پاتے ہیں تو پھر دامنِ اسلام میں
ہی سکون پاتے ہیں-
ہمہ گیر اثرات:
کچھ مدت قبل ایک انگریزی کتاب پڑھی، جس کا اُردو ترجمہ رضا اسلامک اکیڈمی
بریلی شریف نے "میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟" کے عنوان سے شائع کیا- جس کا
مواد نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون(سابق پروفیسر کیمبرج یونیورسٹی) کے قبولِ
اسلام سے متعلق مشاہدات و اثرات پر مشتمل ہے- موصوف نے اپنے قبولِ اسلام کے
اسباب میں سے ایک سبب یہ بیان کیا کہ (مفہوم): اسلامی مراکز میں مسلمانوں
کا باہم جمع ہو کر اکٹھے کھانا مجھے اچھا لگا جب کہ عیسائیوں کے یہاں باہم
جملہ طبقوں کو کھلانا معیوب ہے، طبقاتی و نسلی امتیاز ہے- ان کے یہاں درجہ
بندی ہے- (موصوف نے مسلمانوں کے اکٹھے کھانے کا فلسفہ نیاز غوث اعظم میں
باہمی رواداری کے تناظر میں دیکھا)
مساوات کا پیغام:
ہم بعض صالح کام کی حکمت پر غور نہیں کرتے- جب کہ ہر نافع پہلو میں حکمت و
فلسفہ کا جہان آباد ہے- جس سے ایک طرف اسلام کا حسن نکھر کر دل و جاں کو
مسرت افزا فضا سے آشنا کرتا ہے تو دوسری طرف نظر انداز انسانی قدروں کو
حیاتِ تازہ بخشتا ہے-
غوث اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان سے منسوب ایک اہم عمل کھانا کھلانا ہے- بعض
اہلِ نظر نے رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کی نسبت سے
مسلمانوں کو کھانا کھلانا ذکر کیا ہے؛ کہ غوث اعظم ١٢ ویں شب یا ١١ تاریخ
کو کھانا کھلا کر لوگوں کو خوش کرتے اور آمد سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کی یاد مناتے- مسلمانانِ عالم میں یہ عمل اتنا مقبول ہوا کہ صدیاں گزر
گئیں؛ بعد از وصالِ غوث اعظم سے اب تک کھانا کھلانے کا مبارک عمل برابر
رائج ہے- اس میں مساواتِ مسلمین کا پہلو بہت افادیت کا حامل ہے- بنا تفریق
مراتب ہر امیر، غریب، چھوٹا بڑا ایک صف میں بٹھایا جاتا ہے- ساتھ کھاتے ہیں-
یوں نفرتوں کی فضا چھٹتی ہے اور محبتوں کی بادِ بہاری مشامِ جاں کو معطر
کرتی ہے:
انھیں کی بو مایہ سمن ہے، انھیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں، انھیں کی رنگت گلاب میں ہے
(اعلیٰ حضرت)
رواداری کا فروغ:
ہم نے شعور سنبھالا؛ جب سے ہی یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ماہِ ربیع الآخر کی
آمد ہوتی ہے؛ کھانا کھلانے کی روایت تازہ ہو جاتی ہے، نیازوں کا دور چلتا
ہے، غریبوں کو بھی بُلایا جاتا ہے، امیروں کو بھی، کہیں بچوں اور طلبہ علومِ
دینیہ کو خصوصی طور پر یاد کیا جاتا ہے، اور یہ عمل زیادہ ستائش کا مستحق
ہے- نیازوں میں یہ مشاہدہ بھی لائق تقلید ہے کہ اس میں بھید بھاؤ کی منافرت
دور ہوتی ہے، فراموش طبقے یاد رکھے جاتے ہیں- شفقت کے معاملات پروان چڑھتے
ہیں- جس کی اس زمانے میں زیادہ ضرورت ہے-
چند گزارشات:
ایسے وقت میں جب کہ رشتوں کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے، نفرتوں کی آلودگی
بڑھ رہی ہے، نیازِ غوث اعظم کے توسط سے دلوں کی کدورت ختم کی جا سکتی ہے،
معاشرتی تفریق کو دور کر کے قرب بڑھایا جا سکتا ہے- ہم نے مالیگاؤں میں
سیکڑوں نیازوں کے اہتمام دیکھے، یہ حال کا مشاہدہ ہے، اس میں مزید افادے
حاصل کیے جا سکتے ہیں، جس پر چند معروضات حیطہ تحریر میں لائے جاتے ہیں:
١- نیازوں کے ساتھ ہی ابتدا میں علمائے کرام کے ذریعے شریعت پر استقامت،
نمازوں کی پابندی، حقوق و وراثت کی شرعی تقسیم کا پیغام دیا جائے- اور
کھانے کے سُنّت طریقے سکھائے جائیں-
٢- ناموسِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں قادیانیوں، یہودیوں اور
عیسائیوں نیز باطل تحریکوں کی طرف سے گستاخی عام سی بات ہو گئی ہے؛ علمائے
کرام کے ذریعے یا لٹریچر کی تقسیم سے اس فتنے کی تردید و بیخ کنی کی جائے،
اس ضمن میں ہم خود رہنمائی یا لٹریچر کی فراہمی میں معاونت کریں گے-
٣- غوث اعظم کی دینی خدمات، اصلاحی مشن، تعلیمات پر مشتمل کتاب کے لیے بھی
نیاز کا ایک مالی حصہ متعین کریں اس ضمن میں نوری مشن مالیگاؤں کی طرف سے
رہنمائی کی جائے گی-
٤- نیازوں میں ایسا بھی کیا جائے کہ صرف غریبوں، مسکینوں، بیواؤں، یتیموں
کو مدعو کیا جائے، اچھے اچھے کھانے کھلائے جائیں- عمدہ نشستوں پر مکمل عزت
و احترام سے بٹھایا جائے، انھیں ایسی پذیرائی دی جائے کہ آنکھیں خوشی کے
موتیوں سے لبریز ہو جائیں-
٥- نیازوں کی کبھی شکلیں تبدیل کی جائیں؛ جیسے آمد رسول صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم پر نوری مشن راشن کٹ سے غریبوں کی مدد کرتی ہے؛ تو راشن کٹ بنا
کر مستحقین کو فیض یاب کیا جائے؛ اناج تقسیم کیا جائے-کبھی تعلیمی کٹ سے
طلبہ کو فیض یاب کیا جائے؛ کبھی مدارس اسلامیہ کے طلبہ میں تحائف کی نیاز
پیش کر کے نیاز مندی کا رجحان عام کیا جائے-
بہر کیف! زمانی حالات کے پیش نظر دائرہ شرع میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی فوز
و فلاح کے کئی کام ماہِ ربیع الآخر کے مبارک عمل "نیاز" کے تناظر میں انجام
دیے جا سکتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ بامقصد طریقوں سے غوث اعظم و دیگرِ صالحین
سے عقیدت کے رشتوں کو مستحکم کریں اور مغربی تہذیب کے مقابل اسلامی روایات
کو پروان چڑھائیں:
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
*** |