کراچی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب نظر، اب عالم بے بسی
میں ہے..
رہبران ملت جب اندھیروں میں گم اور شہریوں کے سوداگر بن جائیں تو اقوام
اپنے حاکم تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ شہر کراچی کے ساتھ
بھی ہے جہاں نہ وفاق کا سکہ چلتا ہے، نہ سندھ حکومت کے گیت، نہ میئر کے پاس
اختیارات ہیں اور نہ عوام کے پاس کوئی راستہ، گزشتہ 11 برس سے سندھ پر برسر
اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی بدامنی، تجاوزات اور بھتہ خوری سے
نجات تو نہ دلائی البتہ کے- الیکٹرک، واٹر بورڈ ، کے ایم سی جیسے ایسے
اداروں سے نوازا جنھوں نے شہر قائد کا نقشہ ہی تبدیل کردیا۔
گزشتہ نام نہاد انتخابات میں پی ٹی آئی جس طرح جیتی وہ ایک الگ بحث ہے مگر
کچرے کے ڈھیروں پر عوامی نمائندوں کی پریس کانفرنسز ، گٹر پر ڈھکن لگانے
والے فکس اٹ کے بانی عالمگیر خان وزرات ملنے کے بعد منظر عام سے غائب
ہوگئے۔پی ٹی آئی نے کراچی سے ایم کیو ایم کے 35 سال دور کو ختم کیا تو امید
کی کرن بیدار ہوئی مگرپھر حکومتی سرپرستی جس طرح تجاوزات کے نام پر تاجروں
کو بے روزگار کیا جاہا ہے ماضی میں اس کی نوید نہیں ملتی ،تجاوزات کے خلاف
آپریشن کا آغاز صدر کی ایمپریس مارکیٹ سے شروع کیاگیا اور پھر دائرہ کار
وسیع ہوتا گیا چیف جسٹس کے احکامات کی آر میں مئیر کراچی نے اگلے ہی روز
تاجر برادری کو کسی قسم کا ٹائم فریم دیئے بغیر ان دکانوں کو مسمار کردیا
گیا جبکہ تجاوزات کے نام پراٹھائے جانے والے ٹھیلے اور ان دکانوں کے سامان
کو کے ایم سی نے اپنی حراست میں لے لیا اور پھر اہلیان کراچی نے دیکھا جس
طرح بھتہ کے عوض تاجروں کو انکا سامان لوٹایا گیا۔تجاوزات کے نام پر آپریشن
میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں مزدور بے روزگار ہوگئے جبکہ سیکڑوں خاندان
فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔
وفاق ،سندھ حکومت اور مئیرکراچی اس طرف تو متحد ہیں اور آپریشن کو زور و
شور سے جاری رکھنیکا عزم کرتے ہیں تو دوسری جانب ان کیارکان تاجر برادری کو
دھوکے میں رکھ کر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں،تاجر برادری کی جانب سے
مسلسل سے سوال اٹھایا جارہا ہے کہ " جب شہر میں کوڑا کرکٹ اٹھنے اور پانی
کی فراہمی کی بات کی جاتی ہے تو مئیر اختیارات نہ ہونے کا رونہ ہوتے ہیں
جبکہ یہی مئیر چند گھنٹوں کے عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے ایمپریس
مارکیٹ ،صدر ،طارق روڈ اور دیگر مراکز پر ہیوی مشینری کیسیلے کر پہنچ جاتے
ہیں" ؟تاجر یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہیں کہ 60 سال سے جس زمین کے وہ کرائے
دار ہیں اس پر سے ان کو بغیر نوٹس بیدخل کرنا یا کوئی متبادل جگہ نہ فراہم
کرنا حکومتی سرپرستی بغیر نہ ممکن ہے، مئیر کراچی وسیم اختر تجاوزات کے
آپریشن کے دوران یہ الزام بھی عائد کے چکے ہیں کہ صدر میں آپریشن کے دوران
انہوں منشیات فروشوں اور اسلحہ کے خریداروں کو بیدخل کیا ہے جس پر تاجر
برادری کی جانب سے احتجاج کے ساتھ ساتھ ایک ارب کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔
صدر، ایمپریس مارکیٹ اور اولڈ سٹی ایریا میں 7 ہزار سے زائد دکانیں مسمار
کروا کے صرف ساڑھے تین ہزار ان دکانداروں کو متبادل جگہ دینے کا وعدہ کیا
ہے، جو کے ایم سی کو کرایہ ادا کرتے تھے،متبادل جگہ کے حصول کیلئے وہ لوگ
بھی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، جن کا متاثرہ تاجروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
متاثرہ تاجروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میئر کراچی اور کے ایم سی عملے کے
خلاف کارروائی کرے، جنہوں نے بلدیہ کو کرایہ ادا کرنے والے تاجروں کی
دکانیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ تاجروں کے بقول ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کے ایم
سی والوں کو بھتہ نہیں دیتے تھے۔ اب بھتہ دینے والے ٹھیلے اور پتھارے والوں
سے دگنی وصولی کرکے انہیں سڑکوں کے کنارے اور فٹ پاتھوں پر کاروبار کرنے کی
اجازت دیدی گئی ہے، جس سے دوبارہ ٹریفک جام ہونے لگا ہے۔تاجروں نے چیف جسٹس
پاکستان سے اپیل کی ہے کہ تجاوزات کے نام پر کے ایم سی کی پیدا گیری مہم
بند کرائی جائے، ورنہ ہزاروں تاجر سڑکوں پر آجائیں گے۔ کے ایم سی نے
تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز ایمپریس مارکیٹ سے کیا تھا۔ اس دوران
مارکیٹ کی قدیم عمارت سے متصل دکانوں کا صفایا کیا گیا اور صدر سے ٹھیلے
پتھارے ہٹا دیئے گئے۔ سڑکیں کھلنے اور فٹ پاتھوں پر کاروباری سرگرمیاں ختم
ہونے سے ٹریفک کی روانی بہتر ہوگئی تھی، جس پر شہریوں نے بھی سکھ کا سانس
لیا تھا۔ لیکن کے ایم سی کے عملے اور پولیس نے دوبارہ تجاوزات قائم کرانی
شروع کردی ہیں۔ ایمپریس مارکیٹ کے اندر عارضی دکانیں بنالی گئی ہیں اور بعض
دکانیں جو گرائی نہیں گئی تھیں، وہ دوبارہ کھول لی گئی ہیں۔
تجاوزات کے نام پر آپریشن پرمئیر کراچی اور سپریم کورٹ سے سوال یہ ہے کہ
کیا ادارے،سندھ حکومت اور وفاق بھتہ خوروں کی سرپرست ہیں یا معاملات کچھ
اور ہیں؟
|