’جس کا ڈر تھا بے دردی وہی بات ہوگئی‘ ۔ آلوک ورما کے
ریٹائرمنٹ کو صرف ۲۰ دن باقی ہیں اور مودی جی کی متوقع سبکدوشی کو ۱۲۰ دن ،ایسے
میں ایک جانے والے نے دوسرے جانے والے کا تبادلہ کردیا؟ ایسا کیوں ہوا؟؟ اس
سوال کا جواب جاننے کی خاطر دو اور سوالوں پر غور کرنا ہوگا۔ اول تو آلوک
نے بحال ہونے کے بعد کیا کام کیا؟ دوم فیصلے سے قبل چیف جسٹس رنجن گوگوئی
نے خود کو اس سے الگ کرکے اپنی جگہ جسٹس سیکری کو کیوں بھیجا؟ آلوک ورما
کے خاندانی نام میں اگر ’و‘ کی جگہ ’ش‘ ہوتا اور وہ اقتدار سے ٹکرانے کے
اپنے اقدام پر شرمندہ ہوتے ۔ اپنی بحالی کے بعد ایک پھولوں کا گد ستہ لے کر
وزیراعظم کے دفتر میں پہنچ جاتے اور ان کا شکریہ ادا کرکے اپنے پرانے موقف
پر ندامت کا اظہار کرتے ۔ آئندہ افہام و تفہیم کے ساتھ مل جل کر کام کرنے
کا یقین دلاتے تو ان کے ساتھ یہ سلوک ہر گز نہیں ہوتا بلکہ ریٹائرمنٹ کے
بعد بھی کسی ایسے اعزازی عہدے پر فائز کردیا جاتا جہاں زندگی کے باقی ایام
سرکاری سہولیات پر عیش و عشرت کے ساتھ گذر جاتے لیکن یہ صاحب آلوک شرما
نہیں آلوک ورما ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ شیر کی زندگی کا ایک دن گیدڑ کے ۱۰۰
سال سے بہتر ہے۔
آلوک ورما کو بحال کرکے عدالت نے حکومت کی بے ضابطگی پر قدغن لگائی
اورانہیں ہدایت دی کہ وہ کوئی بڑا پالیسی فیصلہ نہ لیں ۔ یہی ہدایت ان کے
پیش رو عبوری سربراہ ناگیشور راو کو بھی دی گئی تھی ۔ راو نے اپنی مدت کار
میں بہت سارے تبادلے کیے۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا اس لیے کہ وہ انتظامی
امور سے متعلق تھے۔ اس میں عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں ہورہی تھی۔
آلوک ورما نے بھی ذمہ داری سنبھالتے ہی ان تمام تبادلوں کو تبدیل کردیا ۔
آلوک ورما کو پتہ تھا کہ عدلیہ ان سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے ایک ہفتہ کی
مہلت دی ہے اور پردھان جی ایسا فیصلے ایک منٹ میں کردیتے ہیں ۔ مہلت عمل
چونکہ بہت کم تھی اس لیے انہوں نے کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا۔ آلوک ورما کے
اقدامات سے ان کے تیور ظاہر ہوگئے ۔ وزیراعظم کے خوف اور بے چینی میں اضافہ
ہوگیا ۔ وہ پہلے ہی دن آر پار کا معاملہ کردینا چاہتے تھے لیکن حزب اختلاف
کے رہنما ملک ارجن کھڑگے نے سی وی سی کی رپورٹ طلب کی اور پڑھنے کے لیےوقت
مانگا۔ اس معقول مطالبہ کو ٹھکرانا مشکل تھا اس لیے کم ازکم یعنی ایک دن کا
وقت دیا گیا ۔
وزیراعظم کےساتھ میٹنگ میں جسٹس گوگوئی ان کے تیور دیکھ چکے تھے ۔ دوسرے دن
اگر کھڑگے اور گوگوئی مل کر ورما کے تبادلے کی مخالفت کرتے تو وزیراعظم کے
لیے انہیں ہٹانا دشوار ہوجاتا ۔ جسٹس گوگوئی اس گناہ بے لذت سے اپنے آپ کو
دور رکھنا چاہتے تھے اس لیے دوسرے دن صبح انہوں نے اپنا دامن بچا کرجسٹس
ارجن کمارسکری کو روانہ کردیا ۔ اس خبر کے آتے ہی ہوشمندوں کو اندازہ
ہوگیا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جارہا ہے۔ دوسرے دنوزیر اعظم کے ساتھ نشست
میں ملک ارجن کھڑگے نے آلوک کمار کا جم کر دفاع کیا۔ ایک ماہر قانون کی
حیثیت سے وزیراعظم کے ہر اعتراض کا جواب دیا ۔ انہوں نے کہا کہ سی وی سی
رپورٹ الزامات کا پلندہ ہے۔ ان میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کے پاس شواہد
نہیں ہیں ۔ اس کمیٹی کی نگرانی کے لیے مقرر کردہ سابق جج اے کے پٹنائک کے
پیش کردہ نکات کو چھپا دیا گیا ہے۔ آلوک ورما کے خلا ف الزامات کی تفتیش
ضرورکی جائے لیکن محض الزامات کی بنیاد ان پر کارروائی نہیں کرنا ناانصافی
ہے۔ ملک ارجن کھڑگے نے تو آلوک کمار کی مدت کار میں ۷۲ دن توسیع کرنے کی
سفارش کردی کیونکہ ان کے غیر قانونی طور محروم کرنے کی تصدیق عدالت عظمیٰ
کے بحالی والے فیصلے میں ہوچکی ہے ۔
مثل مشہور ہے ’بھینس کے آگے بین بجاو بھینس کھڑی پورائے‘۔ کھڑگے کے ساتھ
یہی ہوا ۔ ان کے سارے دلائل سننے کے باوجود پردھان سیوک ٹس سے مس نہیں ہوئے
اس لیے کہ اب یہ ان کے اہاش ر کا مسئلہ تھا۔ حکمراں جمہوری ہو یا ملوکی اس
کی انا کے آگے دستور اور ضابطہ سب دھراکا ا دھرا رہ جاتا ہے۔ سہ رکنی
کمیٹی میں چونکہ وزیراعظم کو جسٹس سیکری کی حمایت حاصل تھی اس لیے شام ہوتے
ہوتے میں آلوک ورما کو آگ بجھانے والے محکمہ میں بھیج دیا گیا۔ مودی جی
نے آلوک ورما کوویسے تو اہم محکمہ میں بھیجا لیکن فرقہ پرستی کی جو آگ
پچھلے پانچ سالوں سے بھڑکائی جارہی ہے اس کو بھلا کوئی ۲۰ دنوں میں کیسے
بجھائے؟ اور پھر وہ آگ کیسے بجھے گی جسے ایک طرف سے بجھایااور دوسری طرف
سے بھڑکایاجائے ؟ اب تو آگ لگانے والوں کو بجھانا ضروری ہوگیا ہے ورنہ
اقتدار کے حصول کی خاطر وہ پورا ملک جلا کر خاک کردیں گے۔
آلوک ورما کو ہٹانے جانے کے بعد وہ لگاتا تیسرے دن سرخیوں میں ہیں ۔ اپنے
تبادلہ کے اگلے دن انہوں نے پہلے تو نئے عہدے کا چارج لینے سے انکار کیا اس
کے بعد ایک بیان جاری کرکے کہا کہ ، نیچرل جسٹس تباہ ہوگیاہے ۔ ان کو چونکہ
ڈائریکٹر عہدے سے ہٹانا تھا اس لیے پوری کارروائی الٹ دی گئی۔ اس کے
بعدخوددار آلوک ورما نے استعفیٰ بھی دے دیا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جس دن
مودی سرکار کی بائیں گال پر یہ طمانچہ پڑا اسی دن دائیں گال پر دہلی ہائی
کورٹ نے دوسرا چانٹا جڑ دیا ۔ دہلی ہائی کورٹ نے مودی کے چہیتے راکیش
استھانہ کے خلاف جانچ جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ استھانہ کے خلاف سابق سی
بی آئی چیف آلوک ورما نے بد عنوانی کے معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کا
حکم دیا تھا۔ عدالت عالیہ نے استھانہ اور ڈی ا یس پی دیویندر کمار کی ایف
آئی آر کو مسترد کرنے کی عرضی کو خارج کر دیانیز سی بی آئی کو حکم دیا کہ
ان دونوں کے خلاف ۱۰ ہفتےکے اندر جانچ پوری کرے ۔ کورٹ نے کہا کہ ایف آئی
آر میں جس طرح کے الزام ہیں اس کی تفتیش ضروری ہے۔ یہ تو ’گئے تھے نماز
بخشوانے روزے گلے پڑے‘ والی بات ہوگئی۔
آلوک ورما نے پہلے تو ان ایماندارفسران کو واپس توبلایا لیاجن کو ہٹایا
گیا تھا اب اگلا اقدام کیا ہوسکتا تھا ؟ قیاس آرائی تو یہی تھی کہ اگر
دوچار دن بھی مزید ملتے تو وہ رافیل پر تفتیش کی ذمہ داری اپنے جیسے کسی
دلیر افسر کے حوالے کر دیتے ۔ آلوک ورما کو ایسا کرنے سے روکنے کے لیے
سرکار اسے پالیسی فیصلہ قرار دیتی اور وہ اس کا شمار انتظامی امور میں کرتے
۔ اس سرکاری رکاوٹ کے خلاف پرشانت بھوشن اور یشونت سنہا جیسے لوگ عدالت میں
پہنچ جاتے ۔ عدالت کا فیصلہ پھر سے آلوک کے حق میں آتا اور اس کا نتیجہ
یہ ہوتا کہ ا انتخاب کی آگ میں تیل پڑجاتا۔ انتخابی افق پر رافیل کے جنگی
جہاز چھا جاتے اور ان جنگی جہازوں کی بمباری سے کمل کے چیتھڑے اڑ جاتے ۔
مودی جی اپنے آخری ایام میں یہ خطرہ کیوں کر مول لے سکتے تھے ؟ اس لیے
انہوں نے متوقع چنگاری بلاتوقف بجھا دیا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے ’پھونکوں
سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘ بلکہ وہی ہوگا کہ کسی شاعر نے کہا ہے ’جتنا
بھی دباو گے اتنا ہی یہ پھیلے گا‘۔ خیر آگ لگانے اور بجھانے والوں کی جنگ
کا بگل بج چکا ہے ان دیکھنا یہ ہے کہ کون کامیاب ہوتا ہے؟ آلوک ورما کے
حوالے سے پردھان سیوک کو یہی کہنا ہے ؎
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے |