تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی حسب توقع رہی ہے۔کچھ
ناسمجھ کسی بڑی تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے تھے وجہ وہ لمبی چوڑی تقریریں
تھی جو پی ٹی آئی کی قیادت میلوں ٹھیلوں میں کرتی رہی۔کہا جاتارہا کہ مسائل
کچھ نہیں ہے بس بے ایمان اورکرپٹ قیادت کے سبب حالات نہیں بدل پارہے۔ہمیں
موقع دیا گیا تو یوں کردیں گے توں کردیں گے وغیرہ وغیرہ۔یہاں تک کہہ دیا
گیا کہ پہلے سو دنوں میں ہی کم ازم کم آدھے مسائل حل کرڈالیں گے۔جو لوگ
حالات کا بغور مشاہدہ کرنے والے تھے انہیں بڑ ی امیدیں نہیں تھیں الٹا ڈر
تھا کہ اناڑی کا کھیلنا کھیل کا ستیا ناس والی بات نہ ہوجائے اب جبکہ پانچ
ماہ ہونے کو ہیں کھیل کا ستنا ناس ہونے کا احساس بڑھ رہا ہے۔پانچ ماہ بعد
بھی طوطو ں کی وہیں ٹیں ٹیں ہے۔وہیں کہانیاں اوروہیں زبانی جمع خرچ۔اب بھی
زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جارہاہے۔پچھلے سب چور تھے،اب ایماندارقیادت
آگئی ہے۔اب یہ ہوجائے گا۔اب وہ ہوجائے گاوغیرہ وغیرہ۔پچھلے دنوں سندھ میں
تبدیلی کی کوشش ناکام ہوئی تھی۔اب نیا ہلا بولے جانے کا اشارہ ملا
ہے۔وزیراطلاعات فواد چوہدری اور وزیراعظم عمران خاں کے دورہ سندھ کی خبریں
آئی ہیں۔ان خبروں پر تجزیے بڑے خوفناک ہیں۔کہا جارہا ہے کہ اس بار سندھ
حکومت بچتی نظر نہیں آتی۔باور کروایا جارہا ہے کہ اس دفعہ مرکزی حکومت کی
تیاریاں نسبتاً زیادہ اچھی ہیں۔سندھ والے بھی خاموش نہیں،وزیر اعلی سندھ
سید مراد علی شاہ نے بھی اعلان کردیا ہے کہ کوئی فساد پھیلانے سندھ آیا تو
آہنی ہاتھوں سے نبٹیں گے۔
محض دوسروں کو کرپٹ کرپٹ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی۔تحریک انصاف ایک ہی
راگ آلاپ کر اپنا وزن کم کررہی ہے۔ان سے پہلے بھی کرپٹ کرپٹ کہنے کا حربہ
نہیں کامیاب ہوپایا اب بھی کچھ نہ ملے گا۔سب سے اہم مثال سابق صدر غلام
اسحاق خاں کی ہے۔انہوں نے کرپشن کے الزاما ت پر ایک بار محترمہ بے نظیر
بھٹو کی اسمبلی توڑی ایک بار نوازشریف کو بددیانت کہہ کر گھر بھیجا۔غلام
اسحاق کی طرف سے جو چارج شیٹ برطرف حکومتوں پر لگائی گئی وہ بڑی سنگین
تھی۔لب لبا ب یہ کہ حکومت ملک اور سسٹم کے لیے سکیورٹی رسک تھی اگر اسے
برطرف نہ کیا جاتاتوجانے کیا ہوسکتاتھا۔تب بھی دونوں بڑی جماعتوں کی قیاد ت
پر سنگین الزامات لگائے گئے مگر ان الزامات کا نتیجہ کچھ نہ نکلا ۔صدر صاحب
اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کی حد تک تو کامیاب رہے مگر اپنے الزامات کو
ثابت کرنے اور قوم کو ہمنوا بنانے میں کامیاب نہ مل پائی۔قوم نے پہلے سے
بھی زیادہ اعتماد بخشا اور دونوں لیڈران کے خلاف پراپیگنڈا مسترد کردیا۔بے
نظیر اور نوازشر یف اس کے بعد بھی عوام کے مقبول ترین لیڈران رہے۔ایک برائی
مٹانے کے لیے کسی دوسری برائی کا سہارا لینے کا صدر غلام اسحاق خاں کا
طریقہ بڑا غیر مؤثر رہا۔کرپش برائی سہی مگر اس کی بنیادپر پوری کی پوری
حکومت ڈسمس کردینا کبھی بھی درست نہیں سمجھا جاسکتا۔جمہوری حکومتوں کو
نااہلی اور کرپشن کی بنیاد پر گھر بھیجاجاتا رہاہے ۔ا ب بھی دونوں بڑی
جماعتیں نشانے پر ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کرپٹ لوگوں کو راستے سے ہٹا کر
زیادہ کرپٹ لوگوں کو آگے لگانے کے طریقہ کار میں کامیابی ممکن ہوسکتی
ہے۔بظاہر یہ استدلال بے وزن لگتاہے۔
تحریک انصاف کرپشن کرپشن کی رٹ لگا کرسندھ میں تبدیلی اقتدار کی کوشش کررہی
ہے۔یہ کوشش اسے نقصان پہنچاسکتی ہے۔اول تو یہاں عددی ترتیب سراسر پی پی کے
حق میں ہے۔اس میں بڑی تبدیلی آنا محال ہے۔جانے تحریک انصا ف کی قیادت کس
بنیاد پر آپے سے باہر ہورہی ہے۔فرض کیا کسی حیلے سے پی پی کے کچھ اراکین
سندھ اسمبلی توڑ بھی لیے جاتے ہیں حکومت کسی طرح بنا بھی لی جاتی ہے تو یہ
چلے گی کیسے؟پی پی کے پاس معقول تعداد میں اراکین موجودہیں۔پھر ایم کیو ایم
کے موجودہ سارے دھڑے تحریک انصاف سے مطمئن نہیں۔نہ متحدہ حقیقی والے خوش
ہیں۔نہ متحدہ پاکستان والے نہ پاک سر زمین والے۔سندھ حکومت کو چلانا تحریک
انصا ف کے لیے آسان نہ ہوگا۔پھر پی پی کے پاس ایک پلیٹ فارم پنجاب اسمبلی
بھی ہے جہاں عددی ترتیب بڑی عجب ہے۔یہاں تحریک انصاف کی حکومت کمزور
بنیادوں پر کھڑی ہے۔اگر الیکشن کے فوراً بعد پی پی قیادت مسلم لیگ (ن) کے
ساتھ مخلص ہوتی تو پنجاب میں تحریک انصاف کبھی حکومت نہ بناپاتی۔جتنی تگ
ودو جہانگیر ترین اورعلیم خاں نے پنجاب حکومت بنوانے میں کی زرداری صاحب اس
کا عشر عشیر بھی کر دیتے تو یہاں پی پی اور مسلم لیگ (ن)کی اتحادی حکومت
ہوتی۔تب پی پی قیادت خدمت گاروں کی صف میں نام لکھوانے کے چکر میں تھے۔بھول
رہی تھی کہ ایک وقت میں خدمت گار محدود تعداد میں ہی ہوتے ہیں او ر یہ کوٹہ
پورا ہوچکا۔پی پی کو کوٹہ پورا ہونے کا احساس دیر سے ہواتاہم اب بھی اگر پی
پی صدق دل سے جان مارے تو پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کو لال جھنڈی
دکھائی جاسکتی ہے۔تحریک انصاف کی سندھ میں مہم جوئی غیر دانشمندانہ حکمت
عملی ہے۔اس کی بجائے وہ اپنی پرفارمنس پر توجہ دیتی تو شاید کچھ کمال
ہوجاتا۔پانچ مہینے ہونے کو ہیں مگر اب تک کوئی نیا پن دکھائی نہیں دیا۔سب
کچھ ویسا ہی ہے جیسا شروع سے ہورہا ہے۔وہی مسائل وہی جھمیلے اور ان مسائل
کو حل کرنے کے وہی بھونڈے طریقے۔اگر قرضے لے کر اور ٹیکس لگاکرہی کام چلانا
ہے تو ایسا آپ سے پہلے والے بخوبی کررہے تھے۔آپ اپنی تین صوبوں اور مرکز
میں ملنے والی حکومتوں پر توجہ کیوں نہیں دیتے۔آپ کرپشن کے الزامات پر سندھ
حکومت تو تبدیل کرلیں گے۔مگر سند ھ میں تبدیلی نہیں لاپائیں گے۔کرپشن کی
بنیاد پر سسٹم کو تہس نہیس کردینے کا استدلال آج بھی بڑا وزن سمجھا جائے
گا۔ |