بسنتی ذہنیت والے حکمران اور دعائے قنوت (قسط اول)

آج کل کے نئے پاکستان کے نئے حکمران عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے ریاستِ مدینہ کا نیا تصور پیش کرنے کی آڑ میں نت نئے گل کھلا رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟ جلد پتہ چل جائے گا!!

کفر کے ہاتھوں پچھلے ۵۰ سالوں میں ۸۵لاکھ سے زا ئد مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ عالم کفر کے منہ کو مسلمانوں کا خون لگ چکا ہے ۔ وہ صرف مسلمان آبادیوں اور ممالک کا رخ کرتا ہے ۔کروز میزا ئیل ، ڈیزی کٹر، جدید ٹینک، توپیں، ہیلی کاپٹر، جیٹ طیارے، ڈرون اورتباہی کے دوسرے سامان صرف مسلمان آبادیوں کو ہی خاکستر کرنے میں مصروف ہیں ۔ بوسنیا میں اجتماعی قبریں ہوں یا دشت لیلی ٰکے میدانوں میں دم گھٹ بند کنٹینروں کے ذریعہ قیدیوں کو لیجانا ہو ، ابو غریب جیل کی آہنی سلاخیں ہوں یا گوانتانامابے میں محصورین کے لوہے کے پنجرے ، صابرہ شتیلہ کیمپوں میں خون کی ندیاں بہیں یا فلوجہ میں ایک رات کی بمباری سے تیس ہزار سے زا ئد مسلمان شہید ہو جائیں ، پاکستان کی شہ رگ کشمیر جنت نظیر لہو رنگ ہو یا چیچنیا کی مسلم آباد ی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوشش ، انڈونیشیا کے وجود کو کاٹ کر نئے عیسائی ملک ایسٹ تیمور کا معرض وجود میں آنا ہویا اسلامی سوڈان و لیبیا جیسے ممالک کے وجود کو اپنی مرضی سے کاٹ کر نئے ممالک کو دنیا کے نقشے پر لانا ہو یا افغانستان ، عراق ، شام ،صومالیہ، لیبیا پر عالم کفر کی متحدہ یلغار ہو ۔ عافیہ صدیقی کی ۸۵ سال کی سزا ہو یا روہینگیا مسلمانوں کا قتل عام اور ملک بدری ہو۔
ان سب کاروائیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں کے علاوہ پیدا ہونے والے انتہائی گھمبیر قسم کے سیاسی،معاشرتی، معاشی اور دیگر لا ینحل مسائل صرف مسلمانوں کا مقدر ہیں۔ اموات ہوں تو صرف مسلمانوں کی، عورتیں بیوہ ہوں تو صرف مسلمانوں کی، بچے یتیم ہوں تو صرف ہمارے، ادویات کی قلت کا شکار ہوں تو صرف مسلمان، گھر جلیں اور کھیتیاں برباد ہوں تو ہم مسلمانوں کی، معیشت کے سامان لوٹے جائیں تو صرف ملت اسلامیہ کے ۔ پابندیاں لگیں تو صرف مسلمان ممالک پر۔ وجود کو کاٹا جائے تو صرف مسلمان کا، حکومتوں کو گرایا جائے تو صرف مسلمان ممالک میں۔اور پھر بھی دہشت گر د ٹھہرا ئے جائیں توبے چارے مسلمان! واہ رے مسلم کش عالمی اتحاد!

مسلمان حکومتیں اور عوام ڈربے میں بند مرغیوں کی طرح ذبح ہونے کے لیے اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔اسلامی ممالک کی عوام اور حکومتوں نے خوف، بے حمیتی، بے حسی اور خود غرضی کی ساری حدوں کو پھلانگ لیاہے ۔ ہے نا بے بسی کی انتہا!
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

ایسے میں چند غیرت مند اہل ایمان وسائل کی انتہائی قلت کے باوجود کفر کے ہاتھ سے خونی خنجرچھیننے کی کوشش میں ہیں تاکہ مسلمانوں پر طاری خوف و ڈر ، بے بسی، بے حسی اور خود غرضی والی کیفیت ختم ہو، مسلمانوں کی جھکی ہوئی گردنیں اوپر اٹھ سکیں۔ مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی رک جائے۔ عالم اسلام کے خلاف نیو ورلڈ آرڈر ناکام ہو جائے -

ذرا سوچئے! ان حا لات میں بسنت، جشن بہاراں ، ویلنٹائن ڈے ، میراتھن ریس اور اسی طرح کی مختلف خرافات وغیرہ پر ہونے والے اخراجات کا اصل مصرف کیا ہونا چاہیے اور پھر مندرجہ ذیل حدیث کو بھی یاد رکھیں:

(من تشبہ بقوم فھو منھم.)) (الحدیث)
‘‘جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی پس وہ ان میں سے ہے۔’’

کس طرح کند ہو ا تیر ا نشترِ تحقیق
ہوتے کیوں نہیں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک

بسنت ، معانی اور تاریخ

آئیے تھوڑی دیر کے لئے بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ اور مختلف مصنفین کی کتب کے اوراق پلٹ کر دیکھیں ۔ ابو ریحان البیرونی کی ’کتاب الہند‘ (صفحہ 238)، کنہیا لال کی تصنیف ’تاریخ لاہور‘ ( صفحات 210-211 ( ، ڈاکٹر گوکل چند نارنگ کی کتاب ’ ٹرانسفرمیشن آف سکھ ازم‘ مولوی سید احمد دہلوی کی لغت ’ فرہنگ آصفیہ ‘ (صفحہ 394)، سکھ مورخ بخشیش سنگھ نجار کی کتاب Punjab under the Later Mughals 1707-1759 (صفحہ 279)، ڈاکٹر انجم رحما نی کی تصنیف ’پنجاب تمدنی اور معاشرتی جائزہ‘ (صفحات458, 426)، نذ یر احمد چوہدری کی کتاب ’ بسنت لاہور کا ثقافتی تہوار ‘ (صفحہ 16) ، مولانا احمد حسن کی تصنیف ’بسنت کیا ہے ‘ اور دیگر کتب کے مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ:
بسنت نام ہے ہندی سال کی چھ رُتوں میں سے پہلی رُت کا جو چیت سے بیساکھ تک رہتی ہے۔

بسنت ( سنسکرت میں وسنت) نام ہے سرسوں کے کھلے ہوئے زرد زرد پھولوں کا ۔

بسنت نام ہے اس میلہ کا جو ہند و اپنے دیوی دیوتاؤں کے استھانوں پر سرسوں کے پھول چڑھا کر مناتے ہیں ۔ بسنت نام ہے اس موسم کا جس میں نغمات جوش افزاء اور تعشق انگیز جذبات ابھرتے ہیں۔ بسنت نام ہے استوائے ربیع (ماگھ) میں اس دن کا جب (ہندو) عید کرتے، برہمنوں کو کھلاتے اور دیوتاؤں کی نذر چڑھاتے۔

اہلِ ہند (ہندو) قدیم زمانے سے موسم بہار کے آنے کی خوشی میں بسنت کو مبارک اور اچھا سمجھ کر نیک شگون کے واسطے ماہ ماگھ کی پانچویں تاریخ (بسنت پنجمی) اپنے اپنے دیوی دیوتاؤں او ر اوتاروں کے استھانوں پر ان کو رجھانے کے لئے زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہو کر سرسوں کے پھولوں کے گڑوے بنا بنا کر خوشی سے گاتے بجاتے لئے چلے جاتے۔ بنگالہ میں اس دن سرسوتی دیوی کی پوجا کی جاتی۔ کہیں کہیں کامدیو اور اس کی بی بی رتی کی پوجا کی جاتی، بعض جگہوں پر وشنو بھگوان کو پوجا جاتا۔ دہلی میں بسنت پنجمی کے دن کالی دیوی اور کالکا جی کے مندر پر عقیدت مندوں کی بہت بھیڑ ہوتی۔ بسنت پنجمی کا تہوار پنجاب، گجرات، یوپی اور راجپوتانہ میں بھی منایا جاتا۔

مغلیہ سلطنت کے کچھ بادشاہ اور ان کے گورنر ہندوؤں کے مذہبی تہواروں سے متاثر ہو کر اور ہندو رعایا کو خوش کرنے اور مذہبی رواداری کی رو میں بہہ کر بسنت کے میلے کو بڑے جشن کی صورت میں مناتے تھے۔ بسنتی لباس زیبِ تن کیے جاتے تھے۔ موسیقی اور رقص و سرور کی محفلیں سجتی تھیں۔ مستورات اور خدامِ محل، امراء اور انکی مستورات کیسری رنگ کے لباس پہنتیں۔ جوں جوں مغلیہ سلطنت زوال کی طرف بڑھنے لگی اس میلے اور جشن کو اتنے ہی زیادہ شوق سے منایا جانے لگا۔ بلکہ بعض شہزادوں اور امراء نے اس جشن مین پتنگ بازی کا عنصر بھی شامل کر دیا اور وہ پتنگ بازی کرتے وقت پتنگ کے ساتھ سونے کے چھلے باندھ دیتے۔ اس طرح پتنگ لوٹنے والوں کی مالی مدد کے علاوہ عوام میں پتنگ بازی کا رجحان بڑھنے کے ساتھ ساتھ پتنگ باز کی شہرت اور نیک نامی میں بھی اضافہ ہوتا۔

پنجاب میں بسنت
کھول کر آنکھیں میرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دورکی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

لاہور اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں بسنت اور پتنگ کی ابتداء اور ترویج کے بارے حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سیالکوٹ کے ایک کھتری باکھ مل کے اکلوتے بیٹے حقیقت رائے نے نبیe اور حضرت فاطمتہ الزہراr کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اس جرم پر اسے گرفتار کرکے عدالتی کاروائی کے لئے لاہور بھیجا گیاجہاں اسے مو ت کا حکم سنایا گیا۔ اس واقعہ سے ساری غیر مسلم آبادی کو سخت دھچکا لگا۔ کچھ ہندو آفیسر پنجاب کے گورنر زکریا خان کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کو معاف کر دیا جائے لیکن غیوراور راسخ العقیدہ مسلمان گورنر نے اس کی سزا پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا۔

اتفاق سے بسنت پنجمی یعنی ماگھ کی پانچویں تاریخ ۱۷۴۷ء کو مجرم کو کوڑے مارے گئے اور پھر اس کی گردن اڑا دی گئی۔چونکہ حقیقت رائے کی شادی ایک سکھ لڑکی سے ہوئی تھی اس لئے اس کی موت پر ساری غیر مسلم آبادی نوحہ کناں رہی۔خالصہ کمیونٹی نے آخر کار حقیقت رائے کی موت کاانتقام مسلمانوں سے یوں لیاکہ تھوڑے ہی عرصے میں ان تمام مسلمانوں کو جو اس واقعہ سے متعلق تھے نہایت بیدردی سے قتل کر دیا۔

کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) لاہور میں واقع حقیقت رائے کی یادگا ر ’ باوے دی مڑھی ‘کے نام سے مشہور ہے۔ ہندوؤں نے حقیقت رائے کو ’ بابا ‘ کا مرتبہ دے رکھا ہے، گویا کہ گستاخِ رسول ان کے نزدیک ایک مقدس ’بابا‘ ہے۔ ہندوؤں کے نزدیک حقیقت رائے نے ہندو دھرم اور اوتاروں کے لئے قربانی دی تھی اس لئے انہوں نے گستاخِ رسول کی یاد منانے کے لئے رنگ بکھیرا اور پتنگ بازی کی اور اس کا نام ’بسنت ‘ رکھا۔ اس کی سمادھی پختہ کرکے اس کے اوپر ایک مکان بنایا گیا۔بعد میں سمادھی کے نزدیک ایک مندر بھی تعمیر کیا گیا۔ ہندو اس سمادھی اور مندر کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ہر سال اس کی برسی کے موقعہ پر ہندو مرد شوخ زرد رنگ کی پگڑیاں اور عورتیں زرد رنگ کی ساڑھیاں پہن کر سمادھی پر حاضری دیتیں اور منتیں مانتی تھیں۔ رفتہ رفتہ اس برسی نے ایک میلے کی شکل اختیار کر لی اور ہندو اس’ بسنت میلے ‘ کو زور و شور سے منانے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سادہ لوح مسلمان بھی سمادھی پر لگنے والے اس بسنت میلے میں شامل ہونے لگے۔ (جاری ہے)
 

Sarwar
About the Author: Sarwar Read More Articles by Sarwar: 66 Articles with 63565 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.