افغانستان میں الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق 20اکتوبر
کوہونے والے پارلیمانی انتخابات کا اعلان نومبر2018ء کے پہلے ہفتے میں
ہوناضروری تھا لیکن دوماہ ہونے کوہیں ،ابھی تک نتائج سامنے نہیں آسکے
اورالیکشن کمیشن بائیومیٹرک انتخابات منعقدکرانے کے باوجودنتائج کااعلان
کرنے میں ناکام رہا ہے جس کے بعدافغانستان کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج
کامتنازعہ ہونا یقینی امرہے اوراس یقینی امرکی وجہ سے افغانستان میں نہ صرف
امیدواروں میں مایوسی پھیل گئی ہے بلکہ ان انتخابات کی افادیت بھی ختم
ہورہی ہے اور ان انتخابات کی افادیت ختم ہونے سے افغان پارلیمان کی وقعت
بھی ختم ہو جائے گی۔یہ بات زدعام ہے کہ افغان صدراوربعض قوتیں اپنے من
پسندنتائج حاصل کرنے کیلئے مسلسل انتخابی نتائج میں تاخیر کررہے ہیں
اورافغان الیکشن کمیشن میں اپنی مرضی کے ،منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے
نتائج کوتبدیل کررہے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ افغان الیکشن کمیشن مسلسل انتخابات
میں تاخیرکی وجہ بن رہاہے۔
ایک طرف پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے اعلان میں تاخیرکی جارہی ہے
تودوسری جانب انتخابات کے حوالے سے نمائندوں کی شکاایات میں بھی اضافہ
ہورہاہے۔دوسری طرف صدارتی انتخابات کااعلان کرکے پارلیمانی انتخابات میں
ہونے والی مبینہ بے ضابطگیوں سے عوام کی توجہ ہٹائی جارہی ہے۔افغان الیکشن
کمیشن نے گزشتہ پیرکواعلان کیاتھاکہ آئندہ ہفتے سے بارہ دن تک بیس اپریل
کوہونے والے صدارتی انتخابات میں رجسٹریشن کاعمل شروع کیاجائے
گااوررجسٹریشن کے عمل کے ایک ماہ تک اس پراعتراضات اورضابطہ اخلاق طے
کیاجائے گااوراس کے دوماہ تک امیدواروں کوانتخابی مہم چلانے کی اجازت دی
جائے گی ۔افغان صدارتی انتخابات کے اعلان سے قبل پارلیمانی انتخابات کے
نتائج کااعلان ضروری تھاتاہم افغان صدر اور ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ کے مابین
اختلافات کی وجہ سے مسلسل تاخیرہورہی ہے کیونکہ اشرگ غنی اورڈاکٹرعبداللہ
عبداللہ اپنے اپنے لوگوں کوجتوانے اورنتائج اپنے حق میں تبدیل کرنے کیلئے
پس پردہ کوششیں کررہے ہیں ۔اس حوالے سے افغان کمیشن کے ایک رکن عبدالقیوم
صافی نے بتایاکہ تاخیراس لئے ہورہی ہے کہ امیدواروں کی جانب سے بہت زیادہ
اعتراضات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔بائیومیڑک سسٹم سے انتخابات ہوئے ہیں
اوربعض امیدوارخاص طورپرسابق جنگجوبائیومیٹرک بائیو میٹرک کے علاوہ بوگس
ڈالے گئے ووٹوں کوبھی شامل کراناچاہتے ہیں جس پر الیکشن کمیشن
اورامیدرواروں کے درمیان تنازعہ ہے اورہم بوگس ووٹوں کاشامل نہیں کرسکتے،
اس لئے بعض جگہوں پرنتائج کے اعلان سے امن وامان کا مسئلہ بھی پیداہوسکتاہے
۔
انہوں نے مثال دی کہ ایک طرف جنرل دوستم کابیٹاباتودوستم بائیومیٹرک سسٹم
کے ذریعے جیت گیاتواس کے دوسرے حلقے سے دوستم کے انتہائی شدیدترین مخالف
احمدشجی کابیٹاجیت گیاہے اورانہوں نے دوستم کے انتہائی قریبی دست راست
کوشکست دی ہے چونکہ اس علاقے میں دوستم کے مسلح افرادکاقبضہ ہے اس لئے
نتیجے کے اعلان سے مسلح تصادم کاخدشہ پیداہوگیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ پہلے
احمدشجی کے خاندان کویہاں منتقل کرنا پڑے گااورپھرآخرمیں اس نتیجے کااعلان
کرناپڑے گا۔شمالی اتحادکے جنگوؤں کی اکثریت ہارگئی ہے جبکہ کچھ نئے چہرے
سامنے آئے ہیں جوعام لوگ ہیں اورانہیں جنگجوتسلیم نہیں کریں گے۔دوسری جانب
سیاستدان مایوس ہورہے ہیں کہ افغانستان میں باوجودسخت محنت اورکوشش کے
پارلیمانی نظام ناکام ہورہا ہے جس کی وجہ سے طالبان کی حمائت میں اضافہ
اورمؤقف میں سختی پیداہورہی ہے۔افغان ملت کے نورالحق احدی جوافغانستان کے
سابق صدر حامدکرزئی کے وزیرخزانہ بھی تھے ،کا کہناہے کہ افغانستان کوجمہوری
سسٹم ناکام ہوگیاہے ،جب دوماہ تک انتخابات کے نتائج تک نہیں دے سکے ہیں
توان ہرشکوک وشبہات کی بناء پر تنازعات بڑھ گئے ہیں گویایہ نظام مکمل
طورپرناکام ہوگیاہے ۔
بھارت،پاکستان ،امریکا،انڈونیشیااوربرازیل جیسے بڑے ممالک جہاں کروڑوں
ووٹرزاپناحق رائے دہی استعمال کرتے ہیں ،وہاں 24 گھنٹوں میں نتائج سامنے
آجاتے ہیں لیکن افغانستان میں تقریباً 60 لاکھ افرادنے ووٹ دیاہے
اوردومہینے بعدبھی اس کے نتائج سامنے نہیں آسکے جبکہ اس بارتوبائیومیٹرک
سسٹم سے ووٹنگ ہوئی ہے ۔اگراسی طرح سے جمہوری یاپارلیمانی نظام چلاناہے
توپھرافغانستان میں ویسے بھی صدارتی نظام ہے اور یہاں پرترکی کے متناسب
نمائندگی کے نظام کورائج کیاجائے تاکہ جوپارٹی ووٹ لے اسی تناسب سے اسے
سیٹیں الاٹ کی جائیں ،اس سے افغانستان میں استحکام آئے گا۔ایک طرف اختیارات
کامرکزصدارتی نظام کوبنایاگیاہے جبکہ دوسری جانب پارلیمانی انتخابات کے
نتائج میں مسلسل تاخیرسے لوگون میںسخت مایوسی بڑھ رہی ہے۔
حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارنے گزشتہ روزکابل میں ایک پریس
کانفرنس کے دوران میڈیاکے نمائندوں کے سوالات کے جوابات میں کہاکہ مسلسل
تاخیرسے پارلیمانی نظام کی نہ صرف وقعت ختم ہوجائے گی بلکہ اس سے افغانستان
مزیدانتشارکاشکارہوجائے گا۔انہوں نے متنبہ کیاکہ اگرنتائج میں گڑبڑکی گئی
توپورے ملک میں احتجاج کانہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔اس وقت
افغانستان میں امن کی شدید ضرورت ہے لہنداسیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ
پارلیمانی انتخابات کے شفاف نتائج کااعلان کر دیا جائے ۔نتائج تبدیل کرنے
کی صورت میں پورے ملک میں احتجاج کاعمل افغانستان کوعدم استحکام سے
دوچارکردے گابلکہ صدارتی انتخابات کے انعقادمیں بھی مشکلات کاسامناہوگا۔اس
لئے بہترہے کہ افغان الیکشن کمیشن آگ سے کھیلنے کی بجائے فوری
طورپرامیدواروں کے جائزمطالبات تسلیم کرتے ہوئے ان کی شکایات کورفع کرکے شک
وشبہ سے بالاتر نتائج کااعلان کرے کیونکہ ابھی پارلیمانی انتخابات کے نتائج
کااعلان بھی نہیں ہوااورصدارتی انتخابات کے انعقادکیلئے رجسٹریشن شروع کی
جارہی ہے جس سے پارلیمانی امیدواروں میں غم وغصہ پیداہوناایک قدرتی
امرہوگاجس کافائدہ یقیناوہ بیرونی طاقتیں اٹھائیں گے جواپناتسلط افغانستان
میں مزیدبڑھاناچاہتے ہیں اورایسے حالات سے طالبان کی حمائت میں پہلے سے
زیادہ اضافہ ہو جائے گاجبکہ طالبان پہلے ہی ساٹھ فیصدسے زائدعلاقوں میں
اپنی حمائت کی وجہ سے لوگوں میں مقبولیت اختیارکرچکے ہیں۔ طالبان پارلیمانی
نظام اورجمہوریت کے نظام کوپہلے سے ہی نامنظور اورمسترد کر چکے ہیں جس کے
متبادل میں وہ اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں مکمل قرآنی نظام کے تحت عوام کے
مسائل کا فوری اور دیرپا حل مہیاکرکے لوگوں میں ہردلعزیز ہیں اورطالبان
کوفغان قابض قوتوں کے خلاف عسکری فتوحات کیلئے افرادی قوت میں میسرہوجاتی
ہے۔اگر افغانستان میں جاری یہ سلسلہ اورچندمہینے انتخابی نتائج کااعلان
کرنے میں ناکام رہاتویقینا آئندہ آنے والے دنوں میں طالبان مذاکرات کی
میزپربھی واضح برتری کی پوزیشن میں اپنی من مرضی کی شرائط کے ساتھ موجودہ
جارح قوتوں کوشکست فاش دیکریہ ثابت کردیں گے کہ افغان بہادرقوم نے دنیاکی
دو سپرقوتوں کانہ صرف عبرتنا ک حشرکرنے میں کامیاب رہی بلکہ تاریخ میں ان
دونوں قوتوں کے غرور،تکبراورگھمنڈکے قبرستان کوبھی محفوظ کردیاتاکہ آئندہ
نسلیں اس سے عبرت حاصل کریں۔
دیکھیں مجھے جودیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنوجوگوش نصیحت نیوش ہے
|