چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی کی تاجر
برداری سے خصوصی ملاقات کی تو اس کے اگلے روز وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے
بھی کراچی چیمبر آف کامرس انڈسٹری میں تاجروں سے مذاکرات میں منی بجٹ کے
حوالے سے گفت و شنید کرتے ہوئے اعلانکیاکہ 23جنوری کو منی بجٹ لایا جارہا
ہے۔ منی بجٹ لانے کی بازگشت گزشتہ مہینے سے آنا شروع ہوگئی تھی ۔ تاجر
برداری اور عوام منی بجٹ کے حوالے سے سخت تشویش اور تحفظات کا اظہار کرتے
رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں ڈالر ، پٹرول، بجلی ،گیس کی
قیمتوں کے ہوش رُبا اضافے کے بعد اب منی بجٹ کا آنا مزید مشکلات میں اضافہ
کرنے کا سبب بنے گا۔وفاقی وزیر خزانہ نے کراچی میں تاجر برداری سے مذاکرات
میں انہیں ایف بی آر و ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے بریف تو کیا ہے ۔ عمومی
طور پر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ اُن سفارشات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا
جوتاجر برداری حکومت کو دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت ایک برس میں تین بجٹ پیش
کرنے والی مملکت بن جائے گی ۔ منی بجٹ میں عوام حکومتی ریلیف کی بہت کم
توقع رکھتے ہیں۔ معاشی ماہرین موجودہ حکومت کے فیصلوں پر سخت تحفظات کا
اظہار کررہے ہیں کہ حکومت کے سخت فیصلوں اور پیدواری لاگت میں بے پناہ
اضافے سمیت گیس و بجلی کی کمی کے مسائل سے پہلے ہی انڈسٹری پریشانی کا شکار
اوراقتصادی پالیسیوں نے سرمایہ دار طبقے کے ساتھ ساتھ غریب و متوسط طبقے کے
مسائل میں اضافہ کیا ہوا ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف کا کراچی میں تاجر برداری سے ملاقات کرنا بڑی اہمیت کا
حامل رہا کیونکہ کراچی کے تاجر ماضی میں بھتہ خوری ، دہشت گردی ، اغوا
برائے تاوان سمیت گھمبیر مسائل کا شکار رہے ہیں اور کراچی کے امن و امان کی
مخدوش صورتحال کے سبب تاجر برادری کا کراچی میں کاروبار کرنا ناممکن ہوگیا
تھا ۔ کراچی اِس وقت خطرناک شہروں میں166ویں نمبر پر ہے جبکہ اُس وقت پہلے
چھٹے پر تھا۔ سیکورٹی فورسز نے عوام کے ساتھ ساتھ تاجروں کا اعتماد بحال
کرنے اور انہیں تحفظ دینے کے لئے عملی طور مثبت اقدامات کئے جس سے تاجر
برداری کا اعتماد بحال ہونے لگا ۔ کئی مواقع پر پولیس ، رینجرز اور فوج کے
اعلیٰ سطحی وفود نے ملاقاتیں کرکے اور انہیں تحفظ دینے کے لئے ہر ممکن کا
تعاون کا یقین دلایا جس کے بعد تاجر برادری کا اعتماد دوبارہ بحال ہوا۔
تاہم امن دشمن عناصر کی جانب سے گزشتہ دنوں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جس
کے بعد ضروری ہوچکا ہے کہ تاجروں کو بحال ہوتے اعتماد کو مزید حوصلہ دیا
جائے۔ کراچی میں سابق گورنر سندھ اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماسے لوٹ
مار اور دھمکی کے واقعات کا مسلسل رونما ہونا تشویش ناک واقعات ہیں۔ گو کہ
دونوں بڑے واقعات میں اسٹریٹ کریمنلز نے لوٹ مار اور دھمکی دینے پر اکتفا
کیا لیکن خدانخواستہ سابق گورنر سندھ محمد زبیراور سابق رکن قومی اسمبلی
سہیل منصور خواجہ کے ساتھ ناخواشگوار واقعہ پیش آجاتا تو اس کے انتہائی مضر
اثرات کراچی سمیت پورے پاکستان پر مرتب ہوسکتے تھے۔اہم سیاسی شخصیات کو اگر
حکومت کی جانب سے مناسب سیکورٹی نہیں ملی تو حکومت کو فوری طور پر ان کی
حفاظت کے لئے مناسب سیکورٹی کا بندوبست کرنا چاہیے۔ گر حکومت کی جانب سے
سیکورٹی کی فراہمی میں رکاؤٹیں درپیش ہیں تو اہم سیاسی شخصیات پرائیوٹ
سیکورٹی حاصل کرکے اپنی نقل و حرکت میں احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں ۔کیونکہ
امن و امان کی صورتحال اتنی بھی آئیڈیل نہیں ہے کہ جرائم پیشہ یا دہشت
گردوں کی ٹارگٹڈ کاروائیاں بالکل ختم ہوگئی ہوں ۔ اہم سیاسی و کاروباری
شخصیات کو سب کام ریاست پر نہیں چھوڑنے چاہیں ۔ ان کی مالی استطاعت بہرحال
عام فرد سے بہت بہتر ہوتی ہے کہ وہ پرائیوٹ اور قابل اعتماد سیکورٹی کے لئے
ذاتی اخراجات صرف کرکے کسی بڑے ناخوشگوار سے خود کو اور اپنے اہل خانہ کو
بچا سکتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی سندھ کی جانب سے کراچی بھر میں خدائی خدمت گار خان
عبدلغفار خان المعروف باچا خان اورخان عبدالولی خان کی یوم پیدائش اوربرسی
کی تقریبات کا 20تا27جنوری کے پروگراموں کا اعلان کیاہے۔ اے این پی کی جانب
سے کراچی میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ایک صحت مندانہ رجحان ہے اور اس بات
کی توقع ہے کہ اے این پی ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرے گی اور اکابرین کے
فلسفہ ’ خدمت میں کوئی اختلاف نہیں ‘ اور عدم تشدد پر عمل پیرا ہوگی ۔ اے
این پی کی ذیلی طلبا تنظیم کی جانب سے مشاعرے اور دیگر ثقافتی پروگرام کا
انعقاد بھی خصوصی روایات کے ساتھ ہوگا ۔ اس ضمن میں اے این پی اور اس کی
ذیلی طلبا تنظیم کو دیگر لسانی اکائیوں کو اپنے ساتھ ملا کر روایتی و
ثقافتی پروگراموں اور اکابرین کے امن و آشتی کے پیغام کو بہتر انداز میں
پھیلانے کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں پر تشدد سیاست کی وجہ سے لسانی
اکائیوں کے درمیان امن ددشمن عناصر نے کافی کدورت پیدا کی ہے ۔ اب جبکہ
سیکورٹی فورسز پاکستان کی معاشی شہ رگ کی رونقیں بحال کرنے میں اہم کردار
ادا کررہی ہے تو کراچی کی سیاست میں مصروف چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں اور
سماجی تنظیموں کو مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔
سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی سالگرہ بھی بڑے جوش و خروش سے ہر برس
منائی جاتی ہے۔ سائیں جی ایم سید کے پیروکاروں کی بڑی تعداد ان کے افکار و
تعلیمات کو پھیلانے کے لئے کراچی سمیت سندھ بھر کے تمام اضلاع میں خصوصی
تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں ۔ جس طرح قوم پرست جماعت اے این پی ، اپنے
اکاربرین کی سالگرہ و برسی کے خصوصی تقاریب کا اہتمام کرتی ہے اسی طرح
سائیں جی ایم سید کی برسی کے انعقاد میں مختلف لسانی اکائیوں کے نمائندے
بڑے باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں اور یہ ہر سال17جنوری کو باقاعدگی کے ساتھ
مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے و شخصیات جی ایم سید کو خراج عقیدت پیش
کرنے کے لئے ایک اجتماعی تقریب میں یکجا ہوتے ہیں ۔ اس سے لسانی اکائیوں
میں بھائی چارے ، امن و محبت کا بڑا مثبت پیغام جاتا ہے ۔ تمام سیاسی ،
مذہبی و سماجی تنظیموں کو بھائی چارے ، امن و امان اور مستحکم پاکستان کے
لئے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی اختلافات ہر سیاسی جماعت میں ہوتے ہیں لیکن اس وقت مملکت کو تمام
سیاسی جماعتوں و لسانی اکائیوں کے درمیان اتفاق و اتحاد ضرورت ہے۔ چیف آف
آرمی اسٹاف کا تاجر برادری سے امن و امان کے حوالے سے کراچی میں تفصیلی
ملاقات و قیام امن کے لئے اقدامات سے آگاہ کرنے کا مقصد واضح ہے کہ کراچی
میں امن رہے گا تو پاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی اور ترقی کی راہ پر چلنے کے
لئے تمام لسانی اکائیوں اور تاجر برادری کو مل جل کر کام کرنا ہوگا ۔ وزیر
خزانہ اس عمر کا منی بجٹ کے حوالے سے کراچی چیمبر کو اعتماد میں لینا بھی
ایک مثبت اقدام ہے ، تاہم ضرورت اس سے بڑھ کر ہے کہ تاجر برادری کے ساتھ
اُن وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے جس کا وعدہ وزیر اعظم دورہ کراچی
کے موقع پر کرچکے تھے۔ تاجر برادری کے اعتماد میں اضافے اور ان کے تحفظات
کو دور کرکے ہی مملکت کو70فیصد سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ریاست کو
معاشی مشکلات سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ کراچی کی تمام لسانی
اکائیوں کو شہر قائد کی تجارتی ، ثقافتی و سماجی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے
لئے سیکورٹی فورسز کا ساتھ دینے کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا اور لسانی
اکائیوں کے درمیان غلط فہمیوں کے ازالے لئے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
|