پچھلے کئی دنوں سے پی ٹی آئی نے اپنی توپوں کا رخ آصف علی
زرداری کی جانب موڑ ا ہوا ہے ۔پہلے تو امریکہ میں ا یک ایسی پراپرٹی کی
بنیاد پر جسے آصف علی زرداری نے اپنے اثا ثوں میں ظاہر نہیں کیا تھا انھیں
نااہل ثابت کرنے کیلئے الیکشن کمیشن میں ایک ریفرنس دائر کردیا ۔ کچھ دن تو
الیکٹرانک میڈیا نئی پراپرٹی کی دریا فت پر بغلیں بجا تا رہا جبکہ پی ٹی
آئی کی خوشی ساتویں آسمان کو چھو رہی تھی۔آصف علی زرداری یہ سارا منظر دیکھ
کر دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہوں گے کہ انھوں نے اپنے مخالفین کو کس طرح
بیوقوف بنا رکھاہے ۔پہلی دفعہ سردار لطیف کھوسہ نے اس راز سے پردہ اٹھا یا
کہ میڈیا اور پی ٹی آئی سابق صدر آصف علی زرداری کی کردار کشی کی مہم چلا
رہے ہیں کیونکہ جس پراپرٹی کو بنیاد بنا کر پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اس کا
آصف علی زرداری سے کوئی واسطہ نہیں ۔۱۱ جنوری میں الیکشن کمیشن میں دائر
ریفرنس کی پہلی شنوائی تھی لیکن پی ٹی آئی نے ریفرنس واپس لے کر اپنی شکست
تسلیم کر لی کیونکہ اسے علم ہو چکا تھا کہ وہ آصف علی زرداری کی سیاسی
مہارت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے ۔ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ
یہ بغیر تحقیق کے مخالفین پر چڑھ دوڑتی ہے اور پھر کچھ دنوں کے بعد یو ٹرن
لے کر اپنی سمت تبدیل کر لیتی ہے ۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیرمینی کا
معاملہ ہو یا پھر سندھ حکومت کی تبدیلی کا معاملہ ہو اسے دونوں جگہ ہزیمت
کا سامنا کرنا پڑا۔سندھ اور وفاق جس طرح ایک دوسرے کے مدِ مقابل ڈٹے ہوئے
ہیں سب کے سامنے ہے ۔جعلی اکاؤنٹس کا سارا نزلہ آصف علی زرداری ،مراد علی
شاہ،فریال تالپور اور اومنی گروپ پر گراکر سندھ حکومت کی بساط لپیٹ دینے کی
کوشش کی گئی لیکن منہ کی کھانی پڑی ۔ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں ۱۷۲
افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی جسے سپریم کورٹ نے در خورِ
اعتنا نہ سمجھا بلکہ الٹا ایف آئی اے کی سرزنش کی کہ اس نے اپنی حدود سے
تجاوز کیا ہے۔چیف جسٹس نے بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کے نام ای سی
ایل سے نکا لنے کا حکم جاری کیا جس پر پی ٹی آئی نے من و عن عمل کرنے سے
انکار کر دیا ۔اہلِ قانون اسے توہینِ عدالت سے موسوم کرتے ہیں جبکہ پی ٹی
آئی اسے تحریری حکم نامہ کی عدم موجودگی کا نام دے کر گلو خلاصی کروانا
چاہتی ہے۔حالانکہ جس وقت چیف جسٹس نے حکم نامہ جاری کیا تھا پی ٹی آئی کی
قیادت اور اٹارنی جنرل عدالت میں موجود تھے لہذا اس میں کسی بھی قسم کی
کوئی پچیدگی نہیں تھی لیکن جب نیت صاف نہ ہو توپچیدگی پیدا کر لی جاتی ہے ۔زلفی
بخاری کے معاملہ میں تو راتوں رات ان کا نام ای سی ایل سے نکلوا لیا گیا
تھا لیکن یہاں واضح احکامات کے باوجود لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے جو
بدنیتی کوظاہر کر رہا ہے ۔معاملہ اگر چہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے لیکن پی ٹی
آئی کوعدالتی حکم پر عمل در آمد کرنا پڑیگا کیونکہ عدالتی احکامات سے چشم
پوشی کے معنی یہ ہیں کہ ریاست اپنا وجود کھو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی ساری جدو
جہد قانون و انصاف کے قیام اور شفافیت کو یقینی بنانے کے عزم کی آئینہ دار
ہے لیکن یہ کیسی انصاف پروری ہے کہ جب فیصلہ کی زد اپنی ذات پر پڑتی ہو تو
اس سے صرفِ نظر کر لو۔بلاول بھٹو کے خلاف سارے الزامات اس وقت کے ہیں جب وہ
نابالغ تھے لہذا ان پر لگنے والے سارے الزامات کے جواب ان لوگوں کو دینا
ہوں گے جو ان کے کفیل تھے۔وہ ساری عمر تو یو اے ای میں مقیم رہے اور پھر
تعلیم کے سلسلے میں انگلینڈ روانہ ہو گئے۔۲۰۱۸ کے الیکشن کی خاطر وہ پا
کستان تشریف لائے جبکہ اس وقت ان کے مخالفین کی حکومت تھی ،یا نگران بر سرِ
اقتدار تھے ۔ان کی ذات کے حوالے سے چیف جسٹس کے یہ ریمارکس کہ بلاول معصوم
ہے اور اپنی شہید ماں کے مشن کی خاطر شب و روز جدو جہد کر رہا ہے پاکستانی
عوام کے دل کی آوازہیں ۔چیف جسٹس کے ریمار کس نے پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا
نکال دی ہے لیکن کھسیانی بلی کھمبا نوچے والے محاورے کے مصداق وہ اب بھی
اپنی ضد پر قائم ہے جس سے اسے بالآخر دست بردار ہونا پڑے گا ۔چیف جسٹس کے
ریمارکس پی پی پی کیلئے نئی زندگی کے مترادف ہیں ۔بلاول بھٹو زرداری پی پی
پی کی روح ہیں اور آنے والے انتخابات میں انھیں اپنے جوہر دکھانے ہیں۔وہ
مستقبل کی امید ہیں۔وہ عوام کی آرزوؤں کی علامت ہیں ۔لوگ بھٹو خاندان کی
لازوال قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان سے بے پناہ محبت کرتے
ہیں۔ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو میری معروضات کی گہرائی کی سمجھ نہ آسکے
لیکن وہ لوگ جو سیاست کے نشیب و فراز کو دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں وہ میری
بات کی گہرائی اور ما ہیت کو بخوبی جانتے ہیں۔،۔
سندھ میں گورنرراج کے نفاذ سے شروع ہونے والی بھڑکیں اسمبلی میں عددی برتری
کے خوش کن دعووں تک پہنچ گئیں تو پی پی پی کو بھی اپنی آواز اونچی کرنی پڑی
اور اسے بتانا پڑا کہ سندھ حکومت کسی کی بیساکھیوں کے سہارے نہیں بلکہ پی
پی پی کی اپنی عددی اکثریت پر قائم ہے لہذا جو کوئی غیر آئینی طریقے سے اسے
ہٹانے کی کوشش کریگا اس کی بھر پور مزاحمت کی جائیگی ۔وفاقی حکومت تو چوں
چوں کا مربہ ہے جس میں ایم کیو ایم ،مسلم لیگ (ق) عوامی مسلم لیگ، بلوچستان
عوامی پارٹی، مینگل گروپ اور کئی آزاد اراکین کی عددی قوت عمران خان کی
وزارتِ عظمی کی کلید ہے۔ایک اینٹ بھی اپنی جگہ سے ہٹ گئی تو عمران خان کے
وزیرِ اعظم رہنے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے لہذا انھیں ہوش کے ناخن لینے
چائیں ۔اپو زیشن فی الحال وفاق میں تبدیلی کی کسی بھی مہم جوئی کی جانب
توجہ نہیں دے رہی کیونکہ وہ جمہوری نظام کو پھلتے پھولنے دینا چاہتی ہے حا
لانکہ وفاق میں آٹھ اراکین کی برتری کو ختم کرنا پاکستان میں کبھی بھی غیر
معمولی معرکہ نہیں رہا ۔ جعلی اکاؤنٹس کی آڑ میں منتخب حکومت پر شب خون
انتہائی غیر جمہوری سوچ ہے جس کی مزاحمت کی جانی چائیے۔چیف منسٹر اگر کرپٹ
ہو تو اس کی جگہ اسی جماعت کے دوسرے ممبر کو حکومت سازی کی دعوت دینی چائیے
جیسی یوسف رضا گیلانی کی ناہلی اور میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے وقت
ہوا تھا۔پی ٹی آئی انتہائی جلدی میں ہے اور بھو ل رہی ہے کہ یہ ۱۹۹۰ نہیں
بلکہ ۲۰۱۹ ہے جس میں اٹھا رویں ترمیم نے سارا سیاسی منظر نامہ بدل کر رکھ
دیا ہے۔۱۹۹۰ میں صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کی اشیر واد سے جام صادق علی
نے پی پی پی پر ظلم وجبر،اغوا اور دباؤ سے اس کی اکثریت کو اقلیت میں بدل
کر اپنی حکومت قائم کر لی تھی لیکن اس وقت اٹھویں ترمیم کے تحت فلور کراسنگ
پر کوئی پابندی نہیں تھی جبکہ اب کوئی ممبر اپنی لیڈر شپ کی مرضی کے خلاف
بیان بھی نہیں دے سکتا۔بلوچستان میں چند ماہ قبل جو کھیل کھیلا گیا تھا اس
میں پوری مسلم لیگ (ن) نے ہی بغاوت کر دی تھی لیکن کیا پی پی پی سندھ میں
کسی ایسی بغاوت کا امکان ہے؟ وفاراری تبدیل کرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔لیکن
پی ٹی آئی نے سندھ کو فتح کرنے کی ٹھان رکھی ہے یہ جانتے بوجھتے کہ اس کا
واسطہ جیالوں کے ساتھ ہے جو جبر و کراہ کے سامنے کھڑا ہونا فخرو شان تصور
کرتے ہیں۔خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔انسان جاگتے اور سوتے میں
خواب دیکھتا رہتا ہے لیکن خوابوں کے ٹوٹنے سے تکلیف بہت ہو تی ہے۔پی پی پی
وفاقِ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے کی سب سے بڑی جماعت ہے لہذا اسے ہارس
ٹریڈنگ اور فارورڈ بلاک جیسی دھمکیوں سے مرعوب نہیں کیا جا سکتا۔وہ جماعت
جو جنرل ضیا الحق کی آمریت کے سامنے کوہِ گراں بن کر اپنا لوہا منوا چکی ہو
اسے چھوٹی موٹی دھمکیاں اس پھل جھڑ ی کی مانند کھائی دیتی ہیں جو مختصر وقت
کے بعد خود بخود بجھ جاتی ہے۔ سندھ حکومت کی تبدیلی بھی ایک ایسی ہی پھل
جھڑی ہے جو اب بجھ چکی ہے۔،۔ |