ہم لوگوں کی عادت سی ہو گئی ہے کہ اپنے مخالف کے اچھے برے
کام کو انا کے لفافے میں بند کردیتے ہیں،یہ بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ
اس کام سے عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے اور کس حد تک اس سے خوش ہے یا
ناراض۔
جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے مخالفین کی نظر عمران خان پر ہے،بارات میں
آئی خواتین کی طرح طعنے دے رہے ہیں،دلہا بیٹھتا کیسے ہے؟شیروانی ایسی نہیں
ایسی ہونی چاہئے تھی،یہ بولنے میں غلطی کیوں کرتا ہے؟اس نے تو کہا تھا
گھوڑی پر آؤں گا کار پر کیوں آیا؟اس کے دوست دیکھو جیسے کالے کلوٹے،دولہے
کی تو ناک بھی ٹیڑھی ہے،بھینگا دکھتا ہے، ارے یہ دیکھو ہاتھ ویسے کے ویسے
روکھے مہندی بھی نہیں لگائی۔۔۔وغیرہ وغیرہ
مخالفین تبدیلی کو جتنا جھٹلائیں ،حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے،تبدیلی تو
آئی ہے،مجھے تو ہرجگہ نظر آئی ہے،عمران خان کے کھلاڑی بھی دیکھ رہے ہیں،یہ
ن لیگی،جیالے اور یہ مولویوں کو کیوں نظر نہیں آرہی،ہاں انہوں نے تو کالی
عینک پہن رکھی ہے اور دیکھنے کی اداکاری کررہے ہیں،ہٹو میں ان کو دکھاتا
ہوں تبدیلی کیسے آئی ہے؟
تبدیلی کا آغاز بلوچستان کے شہر چاغی سے نہیں وزیر اعظم ہاؤس سے ہوا ہے،نو
پروٹوکول،نو لاؤ لشکر،سادگی ہی سادگی،اتنی کفایت شعاری کہ لاکھوں روپے خرچے
سے چلنے والا ہیلی کاپٹر پچپن روپے فی کلومیٹر پرچل رہا ہے،پہلی حکومتوں نے
ادارے بنائے،وزیر اعظم ہاؤس،گورنر ہاؤسز پر اربوں خرچ کردئیے ،ہم بیچ رہے
ہیں،ہیلی کاپٹر،گاڑیاں،بھینسیں،خرگوش،کتے،بلے سب بیچ دو۔۔بک گئے ہے ناں
تبدیلی،تبدیلی تو آئی ہے۔
اب دیکھئے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس چیز کی قیمت ایک بار بڑھ جائے کہ
پھر واپس اسی پوزیشن پر آ جائے،نہیں ناں! پاکستان کی موجودہ حکومت نے دلیری
کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کرڈالا،عوام روٹیاں کھا کھا کر موٹے ،سست اور
کاہل ہوگئے تھے، حکومت نے آتے ہی پہلے گیس مہنگی کی،پھر بجلی،ڈائٹ کروانے
کیلئے گندم افغانستان کو دے دی،کم کھائیں گے،کم سوئیں گے تو ملک کی خدمت کو
زیادہ وقت دینگے،بیمار بھی نہیں ہونگے،ادویات ،ہسپتالوں سے جان چھوٹے گی
اور خرچے بھی کم ہوجائینگے،اب نہ کہنا تبدیلی نہیں آئی،تبدیلی تو آئی
ہے،ویسے بھی ادویات مہنگی کرکے انہوں نے قوم کو ادویات کم استعمال کرنے کی
ترغیب دی ہے،ادویات کے زیادہ استعمال سے ایک تو صحت پر سائیڈ ایفکٹس پڑتے
ہیں دوسرا معاشی حالت بھی کمزور ہوجاتی ہے،اب ڈبل فائدہ ہوگا،صحت بھی
اچھی،بچت کی بچت بھی ۔ہے ناں تبدیلی؟
بیروز گاری کے خاتمے کیلئے ایک کروڑ نوکریاں دینا بھی سب سے بڑا مسئلہ
ہے،نئے پاکستان کی حکومت نے اس کا حل بھی نکالا ہے بھلا کیسے؟ ساڑھے پانچ
سو ملازمین کا وزیر اعظم ہاؤس میں کیا کام دو ،چار کافی ہیں،ریلوے کے
ہزاروں ملازمین فضول ہیں،سب کو نکال دو،یوٹیلٹی سٹورز حکومت پر بوجھ،عوام
کا کیا کام سستی اشیاء کھائیں،سٹورز بند کردو ،ملازمین کی چھٹی کرادو،ریڈیو
پاکستان کو کون سنتا ہے بند کردو،دانش سکول سے ایچیسن بہتر۔۔غریب کا کیا
کام کسی امیر کے برابر آن کھڑا ہو،بند کردو،ینگ ڈاکٹرز منہ پھٹ ہیں،فارغ
کردو،میٹرو پر ریڑھی بان،مزدور،طابعلم،بزرگ اور عورتیں باعزت سفر کیوں کرتی
ہیں،فنڈز روک دو،کنٹریکٹ ملازمین،ڈیلی ویجرز کو بھی گھر بھیج دو،دیکھ لو
موجودہ حکمران کتنے سیانے ہیں،سانپ بھی مر گیا لاٹھی بھی نہ ٹوٹی،ہوگئی ناں
ایک کروڑ نوکریاں پیدا،ایسی ہوتی ہے سمجھداری،ایسے ہی تبدیلی آئی ہے۔
پہلے یہ ہوتا تھا کہ وزیر اعظم،وزیر اعلیٰ اور ان کے وزیر مشیر
ہسپتالوں،سکولوں،پولیس سٹیشنوں کے دورے کرتے تھے،باہر سے کوئی مہمان آتا تو
ملک کے سربراہ سے ملاقات کرتا،دوسرے ممالک کے سفیر وزیر اعظم سے ملاقاتیں
کرتے تھے،قومی سلامتی کے معاملات پر سکیورٹی ادارے وزیر اعظم ہاؤس،پارلیمنٹ
میں آکر عوامی نمائندوں کو بریفنگ دیتے،اب آٹھ ،آٹھ گھنٹے جی ایچ کیو میں
وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو ’’تربیت‘‘دی جارہی ہے، چیف جسٹس صاحب اداروں
کے دورے،جنرل صاحب ملاقاتیں کرکے ملکی معاملات طے کررہے ہیں اور وزیر اعظم
صاحب بھینسیں،خرگوش بیچ رہے ہیں،کون کہتا ہے کچھ تبدیل نہیں ہوا ،تبدیلی تو
آئی ہے۔
پہلے وزیر ،مشیر صرف رشتہ دار بنتے تھے،نوابزادے کرسیاں سنبھالتے تھے اب
نیب زادے بنتے ہیں،عون چودھری نے رشتہ کرایا معاون خاص ،نعیم الحق نے ہر
راز چھپایا،معاون خاص،زلفی بخاری نے ہر تکلیف میں ساتھ نبھایا مشیر
خاص،علیم خان نے مفت عمرہ کرایا ،سینئر وزیر۔۔۔تبدیلی تو آئی ہے۔
کشکول توڑ دینگے،قرض نہیں کھائینگے،ملک کو مقروض نہیں کرینگے،موجودہ حکومت
نے کشکول تو نہیں توڑا قرض کا نام ہی تبدیل کردیا،مایوسیاں پھیلانے والے
دانشور کہتے ہیں کہ پاکستان ڈوب رہا ہے حقیقت میں ان کا خودساختہ نظریہ ڈوب
رہا ہے،آزادی کا یہ سورج ڈوبنے کیلئے نہیں طلوع ہوا تھا،یہ تو ہمیشہ روشنی
پھیلانے کیلئے کائنات کے سینے پر موجود رہے گا۔پاکستان ایک ایسا سورج ہے جو
اپنوں کو روشنی دیتا رہے گا اور جلنے والوں کو جلاتا رہے گا،یہ اپوزیشن ان
کا تو کام ہی شور مچانا ہے ہم نے بھی ایک عرصہ تک مچایا تھا،یہ تبدیلی کی
صرف ایک جھلک ہے،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!
|