بسنتی ذہنیت والے حکمران اور دعائے قنوت (قسط دوم)

دکھی دل سے عرض ہے کہ نئے پاکستان کا خواب دیکھنے والوں نے تو ریاستِ مدینہ کا بار بار نام لیکر ہمیں یاد کرایا کہ ہمارے بڑوں نے قربانیاں کیوں دیں؟ مگر افسوس موجودہ نئے حکمرانوں نے جلد ہی اپنے احکامات سے ثابت کر دیا وہ نظریہّ پاکستان، اسلام اسلامی روایات اور اعلیٰ معاشرتی اقدار سے کافی دور ہیں۔ کچھ اور بہی باتیں ہیں اپنے لیڈر کو ذ لیل اور غیر مقبول کرانے کے لئے۔ آگے آگے دیکھئے کیا گل کھلاتے ہیں یہ حکمران؟؟

مسلمانوں سے اقتدار چھین کر جب پنجاب میں سکھوں نے حکومت قائم کی تو انہوں نے زور و شور سے سرکاری سطح پر اس تہوار کو منانا شروع کر دیا اور عوام خاص کر اہلِ لاہور اس میلے میں بھرپور شرکت کرنے لگے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں لگنے والے میلوں اور عوامی مجلسوں میں رزمیہ اشعار گانے والے گلوکاروں اور اداکاروں نے سوانگ (نیم مذہبی کھیل) کے ذریعے حقیقت رائے کی زندگی کی مختلف جھلکیاں پیش کرکے اس کو ایک ایسے مذہبی سورماء کا درجہ دیا جو تعصب اور ناانصافی کے آگے جھکنے کی بجائے ہندو دھرم کی خاطر اپنی جان دے گیا۔ یوں بابا (عقیدت سے پکارا جانے والا نام) حقیقت رائے کے میلے پر ہونے والی پتنگ بازی آہستہ آہستہ لاہور کےعلاوہ ہندوستان کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی۔

تخلیق پاکستان اور اہل لاہور
چشم فلک گواہ ہے کہ زندہ دلانِ لاہور نے1940کے موسمِ بہار میں ایک عجیب منظر دیکھا ۔ اہلِ لاہور (ابھی تک بہت سارے لوگ بقید حیات ہیں)نے برصغیر کے نزدیک و دور مختلف دیہاتوں، قصبوں اور شہروں سے آنے والے مسلمان زعماء کو خوش آمدید کہا تھا۔ ان کی میزبانی کا شرف حاصل کیا تھا اور پھر مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کے حصول کیلئے 23 مارچ 1940کو متفقہ طور پر منظورہونے والی ’قراردادِ لاہور ‘ جس کو بعد میں ’قرار دادِ پاکستان ‘ کہا گیا، کی روشنی میں منظم کوشش کرنے کا عہد بھی کیا تھا۔ایک ایسا خطۂ زمین جہاں اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کیا جا سکے، جو مسلم امہ کی رہبری کر سکے، ہم سب کا نصب العین ٹھہرا اور پھر دوسروں مسلمانوں کے ساتھ مل کر اہلِ لاہور سات سال تک چیخ چیخ کر فلک شگاف نعرے لگاتے رہے ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ اور لے کے رہیں گے پاکستان۔

پاکستان کے حصول کی اس عظیم کوشش میں کتنی مائیں ، بہنیں، بوڑھے والدین اور گھبرو جوان ہندؤوں کے ہاتھوں جان سے گزر گئے ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔تاہم اندازہ ہے 50 لا کھ مسلمان شہیداورتاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت یعنی اندازاَ دو کروڑ مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ انتہائی گھمبیر قسم کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور دیگر مسائل نوزائیدہ مملکت کے لئے منہ کھولے کھڑے تھے۔ آگ اور خون کے دریاؤں سے گزر کر آزادی جیسی عظیم نعمت ہمارے حصے میں آئی۔ ایک ایساملک وجود میں آگیا جس کے بارے ہندو لیڈروں کو کامل یقین کہ پاکستان صرف چھ ماہ میں مجبور ہو کر گھٹنوں کے بل چل کر بھارت میں ضم ہونے کی درخواست کرے گا۔مگر اللہ کے فضل سے ملکِ پاکستان ابھی تک قائم و دائم ہے۔ لاہوریوں کو یہ بھی یاد ہوگا کہ انہوں نے بھارت سے آنے والے بیماری ،بھوک، تھکاوت، غم اور زخموں سے نڈھال لٹے پٹے مسلمان مہاجرین کے لئے انصارِ مدینہ جیسا حق ادا کرکے مملکتِ پاکستان کی بہت بڑی خدمت کی تھی۔

اہل لاہور اور دعائے قنوت

چمن میں میری تلخ نوائی گوارہ کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاق

پودوں کی کونپلیں نکل رہی ہیں، درخت گہرا سبز لباس زیبِ تن کر رہے ہیں۔ گھاس زمین کو سبز مخملی چادر سے ڈھانپ رہی ہے۔ رنگ برنگے پھول زمیں کی کھوکھ سے جنم لے رہے ہیں۔فضا میں پھیلی بھینی بھینی خوشبو جسم اور روح کو تازگی دے رہی ہے۔ دودھ کی طرح سفید بادلوں کی شکل میں پانی کے چھوٹے چھوٹے ذخیرے ہوا کے دوش پر سوار گہرے نیلے دھلے آسمان کی وسعتوں میں گم ہو رہے ہیں اور دور کہیں سوکھی اور پیاسی زمین کو سیراب کرنے جا رہے ہیں۔ معطر ہوائیں جسم اور روح کو ایک سکون اور تازگی مہیا کر رہی ہیں۔ اندھوں کو بھی محسوس ہو رہا ہے کہ یہ تبدیلی اللہ تعا لیٰ کی بہت بڑی نعمت کی نوید سنا رہی ہے یعنی بہار کی آمد آمدہے۔

ہم ہر روز عشا کی نماز میں کہتے ہیں: ونشکرک و لا نکفرک ’’اے اللہ ! ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور ہم تیری نا شکری نہیں کرتے۔‘‘ ویسے بھی بہار کا موسم ہمیں پیغام دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار کرتے ہوئے ہم حقِ بندگی ادا کریں اور اس کے آگے سر بسجود ہوجائیں۔ لیکن آےئے دیکھتے ہیں قیامِ پاکستان کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدوں اور اپنے آباؤاجداد کی اور خود اپنی قربانیوں کو اتنے تھوڑے عرصہ میں بھول جانے والے اہلِ لاہور موسمِ بہار کی آمد پر کس موڈ میں ہیں اور کس طرح اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں؟

بسنت جس کا دوسرا نام کمال ہوشیاری سے ’’جشن بہاراں‘‘ رکھ لیا گیا ہے ، کی آمد سے چند دن پہلے اور بسنت والے دن بازاروں میں ڈور اور پتنگ خریدنے والوں کا بے حد رش رہتا ہے ۔ بھارت سے لائی ہوئی بگھوان مارکہ، ریچھ مارکہ، پانج پانڈا مارکہ اور دو مور مارکہ ‘ ڈور کے منہ مانگے دام دےئے جاتے ہیں۔ مہنگی پتنگ خریدنا سٹیٹس سمبل کہلاتا ہے۔ہوٹلوں کے کمرے اور چھتیں بک کرائی جاتی ہیں۔ دوستوں اور رشتہ داروں کو دوسرے شہروں اور سمندر پار سے خاص طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔ طرح طرح کے کھانوں کا آرڈر دیا جاتا ہے۔ بسنت کے دن پہننے کے لئے عورتیں شوخ پیلے رنگ کے کپڑے ، پھولوں کے گجرے اور سونے کے زیورات بنواکر بیچارے خاوندو ں پر کمر شکن بوجھ ڈال دیتی ہیں۔

بسنت کی رات اور اگلے سارا دن کے لئے خاص اہتمام کچھ اس قسم کا ہوتا ہے۔ بڑی بڑی سرچ لائٹیں ، فل والیوم پر بجنے والے ڈیک اور لا ؤڈسپیکرپر لچر اور فحش انڈین گانے، بازاری فقرے ، بو کاٹا، کا بے ہنگم شور اور بار بار گولیوں کی بوچھاڑ ۔ نہ مسجد سے آنے والی اذان کی آوازکی پرواہ ، نہ نماز کے اوقات کا احساس، نہ طلباء و طالبات کے قیمتی وقت کا خیال، نہ بے خوابی کے شکار بوڑھوں اور آرام کے متلاشی مریضوں کی پرواہ اور نہ شب بیداری کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والوں کا خیال۔

غازی علم دین شہید کو بھلا کر گستاخِ رسول حقیقت رائے کی یاد میں یادِ بہاراں جوش و خروش سے مناتے وقت لاہور کے رشوت خور، ٹیکس چور، سمگلر، عیاش، اوباش اور نو دولتیے عیاشی، فضول خرچی، شراب نوشی اور فحاشی کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بسنت کے موقعہ پر لاہور کی معروف طوائفوں اور گلو کاروں کی بولیاں لگتی ہیں۔ بسنت 2000 میں لاہور کے ایک رئیس صنعتکار نے ایک نو خیز اداکارہ کے۔۔۔ میں ساری رات رقص سے مستفید ہونے اور شرکاء محفل کو محظوظ کرنے کے لئے پانچ لاکھ روپے میں بک کروایا۔ شراب و کباب پر اٹھنے والے اخراجات اس کے علاوہ تھے۔

بسنت کے موقعہ پر لاہور شہر میں سینکڑوں محلات اور کوٹھیاں اور حویلیاں ایسی ہیں جہاں اباحیت مطلقہ اور جنسی ہولناکیوں کے ایسے ہی مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان مجالس میں امراء کے علاوہ وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جن کا بنیادی فریضہ امن عامہ کا قیام اور جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری ہے۔رنجیت سنگھ کے زمانہ میں امرتسر اور لاہور کی طوائفیں بسنت تہوار میں شامل ہوتیں اور بادشا ہِ وقت انہیں انعام سے نوازتا۔ آج بھی طوائفیں اورفلمی اداکارائیں اس تہوار کو بے حد جوش و خروش سے مناتی ہیں اور انہیں مختلف فنکشنز کے لئے بھاری قیمت پر بک کیا جاتا ہے۔

ایاک نعبد ولک نصلی و نسجد ’’اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ مگر افسوس کی بات ہے کہ بسنت کی رات اور دن کو لاہوریوں کا یہ دعویٰ بالکل ہی الٹ ثابت ہوتا ہے۔ واہ رے بسنتی مسلمان۔

آتی ہے دم صبح صدا عرشِ بریں سے
کھویا گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک

بسنت کے دلدادہ زندہ دلان لاہور کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قصور، گوجرانوالا، سیالکوٹ، سرگودہا اور کچھ دیگر شہروں کے باسیوں نے بھی اس شیطانی میلے اور جشن کو اپنے ہاں مقبولِ عام کرنے کے لئے کوششیں تیز کر دیں ہیں تاکہ پاکستان میں کفریہ کلچر کو عام کرنے میں تاریخ کے صفحات پر ان کا نام جلی حروف میں رقم کیا جا سکے۔ بسنتی کلچر کو عام کرنے کے رسیا مسلمانوں اور ریاستِ مدینہ کا نظام لانے کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں اور ان کے نو رتنوں

آخری نبیﷺ سے پوچھا جائے کہ اگر تمہاری ان دل آزار حرکتوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی عدالت میں طمتہ ا لزہرا مقدمہ درج کرا دیا کہ ’’اے اللہ! یہ ہیں وہ بد بخت جو مجھے اور میری پیاری بیٹی فا کوگالیاں دینے والے حقیقت رائے کی یاد بسنت یا جشنِ بہاراں دھوم دھام سے مناتے تھے ۔ حالانکہ ہر رات سونے سے پہلے یہ کہتے تھے۔ و نخلع و نترک من یفجرک ’’اور ہم الگ کرتے ہیں اور ہم چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔‘‘

اے اللہ! یہ جھوٹے ہیں، انہوں نے تو بسنت منانے والوں کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ بلکہ یہ تو بسنت اور جشن بہاراں بڑھ چڑھ کر مناتے تھے۔ کیا انہوں نے ہندوؤں کے رسم و رواج کو گلے لگایا یا اس سے بچے ؟ اے اللہ! تو ہی انصاف کر۔

اے اللہ! ان سے پوچھ کہ بسنت اور جشن بہاراں کی سرکاری طورپر اجازت دیتے اور دعوم دھام سے مناتے وقت ان کا ایمان کہاں گیا؟ کہاں تھا ان کا عشق رسول اور پنجتن پاک سے محبت کے دعوے ؟ کہاں گئیں ان کی محافل نعت و درود شریف؟ جشنِ بہاراں مناتے وقت ان کا ضمیر ان کو ملامت کیو ں نہیں کرتا تھا؟ کہاں گئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عمال حکومت؟ کہاں گئے وہ دانشمند، فلاسفر اور ا قتصاد ی ماہرین؟ وہ اس اسراف پر چپ کیوں سادھے بیٹھے ہیں؟ کیا انبیاء کے وارثوں نے منبر و محراب سے عام مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے لئے پورا زور لگایا؟

دو قومی نظر یہ، نظریہ پاکستان اور پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ کو ذہنوں سے محو کرنے کی کوشش کے خلاف محبانِ وطن اور دانشورانِ قوم نے کیا کیا؟ کیا بسنت کے رسیا مسلمانانِ پاکستان، بھارتی لیڈر بال ٹھاکرے کے بیان ’’ لاہور میں بسنت کے تہوار کا انعقاد ہندو مذہب کی عظیم کامیابی ہے۔ پاکستانی مسلمان ہندو ثقافت اپنا لیتے تو لاکھوں زندگیاں بچ جاتیں۔‘‘ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں؟

یہ تو کہتے تھے: و الیک نسعی و نحفد ’’ ہم تیری ہی طرف دوڑتے ہیں اور خدمت کے لئے حاضر ہوتے ہیں ۔‘‘ لیکن اے اللہ! ان سے پوچھا جائے کہ یہ دوڑ مسجدوں کی طرف تھی یا مہنگی پتنگیں خریدنے کے لئے ، ہندوستان سے ڈور منگوانے، پاکستان کے دوسرے شہروں اور غیر ممالک میں رہائش پذیر رشتے داروں، دوستوں، اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے فلمی ایکٹروں کو مدعو کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی خاطر ہوٹلوں کے کمرے اور چھتیں بک کروانے اور عمدہ کھانوں کا آرڈر دینے ، نئے طلائی زیورات اور جدید فیشن کے کیسری رنگ کے ملبوسات کے لئے تھی؟ پتنگیں لوٹنے کے لئے اس میراتھن ریس میں بچے، نوجوان،ادھیڑ عمر کے لوگ اور بابے کیوں شامل ہو جاتے تھے؟ ان مسلمانوں کے قدم مساجدکی طرف کیوں نہیں اٹھتے تھے؟ حکومتِ وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے بسنت کی اجازات دے کر کس اچھے کام میں حصہ ڈالا؟

اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی دعویدار پاکستانی قوم جشن بہاراں کے موقع پر پتنگ بازوں، پاگلوں، فسق و فجور کی محفلوں کے رسیا، اسراف پر کمر بستہ افراد اور لٹیروں کا روپ کیوں دھار لیتی تھی؟ اے اللہ ! پاکستان کے مسلمان (ماسوائے چند ایک کے) ، یہ لاہوریے، یہ عمال حکومت، دشمنِ اسلام، دشمنِ پاکستان کے ثقافتی ریلے کے آگے بندھ باندھنے کی بجائے خود اس سیلاب میں کیوں بہے جا رہے تھے؟

اے جبار! ا ے قہار! یہ تو کہتے تھے: و نخشیٰ عذابک ان عذابک بالکفار ملحق ’’اے اللہ! ہم تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک تیرا عذاب کافروں کو ملنا ہے۔‘‘ اے اللہ ! ان کو معلوم تھا کہ جہنم کی آگ سے تو دنیا کی آگ بھی پناہ مانگتی ہے۔ یہ مسلمان سب کچھ جاننے کے باوجود تجھ سے نہ ڈرتے تھے تو ان کا ٹھکانہ کہاں ہونا چاہیے؟ یہ فیصلہ پتنگ باز مسلمان خود ہی کر لیں۔

بحیثیت قوم ہم سب پر فرض ہے کہ ہم سنجیدہ ہو کر سوچیں کہ ہمیں زندگی جیسی پیاری چیز اس لئے نہیں دی گئی تھی کہ کبھی کٹی پتنگ کی ڈور سے شہ رگ کٹوا کر ضائع ہو جائے اور کبھی اندھی گولی کی بھینٹ چڑھ جائے۔کیا والدین اور معاشرے نے نونہالوں کو صرف اس لئے پالا تھا کہ وہ چھت سے گر کر یا گاڑی کے نیچے آکر یا کر نٹ لگنے سے زندگی کی بازی ہار جائیں۔ اور یوں والدین کو زندگی بھر کے لئے آنسو دے جائیں یا اپاہج بن کر معاشرہ پر زندگی بھر بوجھ بنے رہیں۔

جشن بہاراں 2005حقیقت رائے کی برسی نے وطن عزیز سے60 قیمتی جانوں کا نذرانہ لے لیا۔ اس کے علاوہ500 کے قریب زخمی مسلمان اس برسی کی تقریبات میں شمولیت کے تمغے عمر بھراپنے سینوں پر سجائے رکھیں گے۔اچھرہ بازار میں دو پلازوں کے مکینوں اور مالکوں؍ کاروباری حضرات کو بسنت کیا گھاؤ لگا گیا ، ایک المناک داستان ہے۔ اسی طرح 2007 میں حکومت کی پوری احتیاطی تدابیر کے باوجود38 قیمتی جانیں اس برسی کی نذر ہوئیں۔ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے اور اس کے علاوہ کروڑوں روپئے کا واپڈا اور عوام کے برقی آلات کا نقصان ہوا۔ ہر سالی جانی اور مالی نقصان تسلل سے ہو رہا ہے۔ (جاری ہے)

Sarwar
About the Author: Sarwar Read More Articles by Sarwar: 66 Articles with 63706 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.