مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عمران خان نے ڈیلیور نہیں کیا مسئلہ
یہ ہے کہ ہمارے پیٹ پر لات تو نہ مارو۔عمران خان کے بڑے سرپرستوں نے بھی
ایک دم پینترا بدلا ہے کل تک جو ان کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے
ملاتے تھے وہ اب نکتہ چیں کیا مزاحمت پے اتر آئے ہیں ۔چلئے ہم تو ٹھہرے کم
فہم آپ جو اپنے آپ کو اتنا زیرک چالک دانا اور فہم و دانش کا مجموعہ سمجھتے
تھے آپ کو ایک دم کیا ہوا؟عمران خان نے آپ کی کون سی امیدوں پر پانی پھیرا
ہے۔ایک صاحب جو ٹی وی پر بیٹھ کر عقل و دانش کا سارا سودا عمران کے نام کیا
کرتے تھے وہ اب پتھر مارنے پر آ گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کیا عمران کو یہ
پتہ نہیں تھا کہ حکومت کے حالات برے ہیں اس نے اگر ان حالات سے جانکاری لے
لی تھی اور اسے علم تھا کہ معاشی صورت حال بری ہے تو ہاتھ کیوں ڈالا۔کوئی
ان سے پوچھے با با اگر آپ کو یہ علم تھا کہ عمران خان یہ سب کچھ بدل نہیں
سکتا تو ہم جیسوں کو امید کیوں دلائی۔در اصل مسئلہ یہ ہے کہ چینیل پر خالی
گپیں لگانے کی سات ہندسوں میں تنخوا ملتی تھی تو جب پیچھے سے می سوئچ بند
ہوا تو چیخیں سب کی نکلی ہیں ۔اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا کو کھلے کھابے
بند ہونا شروع ہوئے ہیں تو ان بقراطوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ جاؤ بابا
اب ہم آپ جیسے سفید ہاتھیوں کو نہیں پال سکتے۔صرف یہی نہیں جو ڈرامے اسلام
،نظریہ پاکستان اور کے خلاف تھے پیمرا نے ان پر بھی قینچی چلانا شروع کر دی
ہے۔میڈیا کے اوپر جو طاقتیں اربوں خرچ کرتی تھیں انہوں نے بھی ہاتھ کھینچ
لیا۔آپ نے دیکھا ہو گا ایک مشروب کی مچہوری جس میں ایک خاتون بڑی بے باکی
سے بے ہودہ اور لچر گفتگو کر رہی تھی اسے بھی بند کر دیا گیا۔یہ ایک علامت
تھی اس مشہوری کو غور سے دیکھئے اس میں ایک عورت تیز مرچی کے کرامات اور
خرافات اکٹھے کر رہی تھی محظ ایک دو پیغام دینے سے پیمرا نے اسے درست کر
دیا۔کروڑوں روپے کہ وہ ڈرامے جو چینیلز نے اس معاشرے کے بگاڑ کے لئے خرید
رکھے تھے انہیں جب پاکستان کی نظریاتی سوچ اور اسلامی معاشرے کے تناظر سے
پرکھا گیا تو انہیں بے ہودہ قرار دیا گیا۔
پاکستان میں ہمیشہ سے ان چینیلز سے انارکی کا درس دیا جاتا رہا۔فرقہ
بندی،آپس میں گروہوں کا ٹکراؤ ان کے مطمع نظر رہی۔اچھے خاصے پر امن لوگوں
کو زبان،فرقے کی بنیاد پر لڑا دینے والے اس میڈیا کو لگام دینے کی ضرورت
تھی۔حکومت نے انہیں ایسی روش اپنانے کی تلقین کی اور واضح طور پر پیغام دیا
گیا کہ بندے دے پتر بن کے اس قوم کو وہ دکھاؤ جو آپ اپنی ماں بہن بہو اور
بیٹی کے سامنے بیٹھ کر دیکھ سکتے ہو۔
اس نئی لہر کے پیچھے اشتہارات دہندہ لابی کا بھی بڑا اثر ہے۔سو میں سے ستر
کا جب کٹ لگا ہے تو چیخنا تو فرض بنتا ہے۔کہتے ہیں کہ پیٹ پر لات لگنے کا
زخم کسی چھری کے لگے زخم سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔جب سو میں سے ستر کٹیں گے
تو ضرب تو کہیں نہ کہیں لگے گی۔آپ کو یاد ہو گا ماضی کی حکومت میں لیٹرین
کے باہر بھی دو بھائیوں کی تصویریں لگی ہوتی تھیں۔اس کے پیسے بھی تشہیری
کھاتے میں دئے جاتے تھے کہتے ہیں لاہور کے بیسیوں پمپ ایک من چاہے کو دے
دئے گئے تھے جو سرکار کو دونی بھی نہیں دیتے تھے۔اس قسم کی ضرب لگے گی تو
چیخیں تو آسمان تک جائیں گی۔
میں اس اینکر اور کالم نویس سے صرف ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کس منہ سے
وہ عمران خان پر برس پڑے ہیں جن کے والی بائیس سال تک بنے رہے بلکہ وہ تو
یہ کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا نام بھی میں نے ہی رکھا ہے یہ تو
شکر ہے کہ وہ عمران خان کے ہم عمر ہیں ورنہ کہتے عمرن خان کا نام بھی میں
نے ہی رکھا ہے۔میں گزشتہ ماہ جناب ضیاء شاہد کے ساتھ ایک تقریب میں گیا
وہاں وزیر اطلاعات نے صحافیوں کی تنظیم کے عہدے داروں سے بات کرتے ہوئے کہا
کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اخبارات سچ بولیں ہمیں کسی کی حمائت اور بے جا
ستائش کی ضرورت نہیں ہے۔اب کوئی یہ بتائے کہ اس میں کیا برائی ہے۔اخبارات
کے ایڈیٹرز کی شکائت یہ تھی کہ ایجینسیاں جو ایک آڑھتی کا رول ادا کر رہی
ہیں ان کا یہ کردار ختم ہو۔ہم جانتے ہیں کہ کہ جہاں سے اشتہار نکلتاہے
ایجینسیوں کے ذریعے ہوتا ہوا پچیس تیس فی صد ان اخبارات تک پہنچتا ہے اصل
لوٹ مار تو مدح سرائی اور ستر پوشی کی مد میں بطور رشوت دینا بند ہوا ہے۔جو
زیادہ کھاتے تھے ان کے ملازم اینکرز اب چیخنا شروع ہوئے ہیں۔میں کسی حکومتی
پالیسی کی وضاحت نہیں کر رہا میں ایک کالم نویس کی حیثیت سے عرض کر رہا ہوں
کہ حضور قوم کی آنکھوں میں مٹی نہ جھونکیں۔یہ جو سر شام مختلف چینلز میں
بیٹھ کر ککڑ لڑاتے ہیں اور مال بٹورتے ہیں اب حکومت کو اس غرض نہیں ہے-
کل کا واقعہ بتانا چاہوں گا ایک چینل سے کال آئی ٹاک شو میں شرکت کریں۔بیٹا
دبئی گیا ہوا ہے اس کی گاڑی اور میری اپنی بھی نیچے کھڑی تھی۔ڈراؤر نے کہیں
جانا تھا میں نے پروڈیسر سے کہا گاڑی بھجوا دیں اس لئے کے میں خود نہیں چلا
سکتا۔اس نے معذرت کر لی۔یہ تو عالم ہے ان چینلز کا لاکھوں کمانے والے آپ پر
ایک ہزار نہیں خرچ سکتے۔اوپر سے ان کے کرتوت سیاہ یہ ہیں کہ سیاست دانوں کو
لڑاتے ہیں اور لڑائی کی ویڈیو یو ٹیوب کو بیچتے ہیں۔آپ نے جتنی شر انگیزیاں
دیکھی ہوں گی اس میں آف دی ریکارڈ گفتگو ہوتی ہے فیاض چوہان نے جو گالی دی
تھی وہ بھی آف دی ریکارڈ تھی۔میری شکیل اعوان سے جو لڑائی ہوئی وہ بھی
کیمرے کو بند کرنے کے اعلان کے بعد ہوئی۔شیخ رشید،طارق بشیر چیمہ کی آف دی
ریکارڈ گفتگو چلا کر ملینز کمانے والوں کو اب سمجھ لگ گئی ہے کہ ہمارا
دھندہ بند ہو رہا ہے۔
اسد عمر کے بارے میں ایک لابی شروع دن سے لگی ہوئی ہے۔پاکستانی روپے کی جو
قیمت گری ہے اس کا تاثر ایسے دیا جا رہا ہے جیسے اس نے وال سٹریٹ میں جواء
کھیلا ہے اور ہار گیا ہے۔اس ملک کی معاشی صورت حال جتنی بھی گری تھی اسی
ٹیم نے اسے سنبھالا دیا ہے۔اس سے پہلے باہر کے ملکوں نے جو مدد کی وہ خیرات
کی مد میں تھی اور بڑے قرضوں کی شکل میں تھی۔پی ٹی آئی حکومت نے سعودی
عرب،ابو ظہبی،ملائشیا اور قطر سے انویسٹمنٹ کی مد میں مدد لی ہے۔گوادر میں
دنیا کی تیسری بڑی ریفائنری لگ رہی ہے۔او ظہبی پراجیکٹ لگا رہا ہے قطر آپ
کی افرادی قوت کو لے جا رہا ہے،پانچ ہزار مکانات کا کام شروع ہو گیا
ہے،تاریخ میں پہلی بار شیلٹر ہوم بن رہے ہیں۔آپ کی درآمدات آٹھ فی صد کم
ہوئی ہیں برامدات چار فی صد بڑھ رہی ہیں۔سٹاک ایکسچینج میں تیزی آ رہی
ہے۔پاکستان کی تارخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کابینہ سر جوڑ کر آئے روز
بیٹھ رہی ہے۔وزیر اعظم ایک رات بیرونی دورے سے آتے ہی گھر جاتے ہوئے راستے
میں ایک ہسپتال کا دورہ کرتے ہیں وزیر صحت اس دورے کے بعد صبح پھر اسی
ہسپتال میں موجود ہوتا ہے۔آپ کے دیگر وزراء پر ان چھ ماہ میں کرپشن کے
معاملے پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔کام وہ ہورہے ہیں جو کبھی نہیں ہوئے
دنیا کی وہ رگ اب کراچی کے ساحلوں پر تیل تلاش کر رہی ہے جس کو اس کام میں
وسیع تجربہ ہے۔مجھے علم ہے کہ جس قدر آئل اینڈ گیس میں کام ہو رہا ہے اگر
اﷲ نے چاہا ایک بھی ڈسکوری ہوئی تو اس ملک کی تقدیر بدلے گی۔ہم نے کون سا
ایسا گناہ کیا ہے کہ ایران،اومان،اور منطقے کے دوسرے ممالک مالا مال ہوں
اور پاکستان کو کچھ نہ ملے۔چھوٹے تھے تو سنتے تھے کی تیل تو ہے مگر کوئی
نکالنے نہیں دیتا۔سچ پوچھین پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہونے والا
ہے۔دجالی میڈیا نہیں چاہتا کہ پاکستان کی اس حکومت کو سنبلنے دیا جائے
الیکٹانک میڈیا کے پھنے خان پاکستان کو سنبھلتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ایک اور
زعم ان اینکرز اور کالم نویسوں کو ہے کہ سورج ہماری مرضی سے نکلتا ہے اور
ہمیں ہی پوچھ کر غروب بھی ہوتا ہے۔یہ اکڑ یہ زعم یہ کرو فر دو ٹکے کے بھی
نہیں ہیں۔ان کی ذاتی زندگیاں دیکھئے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ عام لوگوں کی
طرح بھوکے مریں مگر یہ کون سے پیل مارتے ہیں کون سی کدال چلاتے ہیں کہ ان
کے ایک وار سے سونا نکلتا ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کی جرمن گاڑیاں اور
ذاتی جہاز ان کے ہاتھوں پر بندھی رولیکس گولڈ گھڑیاں کہاں سے آتی ہیں۔یہ
اپنے ٹاک شوز میں بیٹھ کر کسی کی عزت اچھال دیتے ہیں کسی کو ظالم اور جابر
لٹیرے کو ولی ثابت کر دیتے ہیں۔میں جس عمران خان کو جانتا ہوں وہ اس سے
نہیں گھبراتا اسے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ کوئی اس کے بارے میں کیا کہتا
ہے۔میڈیا سٹریٹجی کمیٹی کی میٹنگ میں اس کا کہنا تھا کہ عورت کی تضحیک نہ
کریں علماء جو مجھے گالی دیتے ہیں ان کو گالی نہیں دینی۔
جناب حسن نثار آپ کو بائیس سالہ باتوں کا بھی جواب دینا ہے۔اب شنید ہے کہ
آپ کو عمران خان کی ٹیم بھی اس قابل نہیں لگتی کہ وہ ملک چلا سکے حضور والا
اس فلسفے کاتو میں قائل نہیں ہوں۔انسان جس طرح کا ہوتا ہے اسی طرح کی ٹیم
اس کے ساتھ چلتی ہے۔ہمارے وزیر آپ کو کہاں اچھے لگیں گے۔جو مسجد کے ممبر پر
کھڑے ہو کر خطبہ دیں۔پچھلے دنوں شہر یار آفریدی گھر آئے تو اسی طرح کا
لیکچر دیا جو علماء ممبر پر دیتے ہیں اور پھر جماعت کرائی۔اس قسم کے وزیر
آپ کو کہاں ملیں گے جو راہ چلتے لوگوں کے ساتھ سلفیاں بناتے رہتے ہیں۔ہاں
شائد آپ کو تلاش ہو گی اس وزیر کی جس کے آگے پیچھے گاڑیوں کی قطاریں ہو ہٹو
بچو کی صدا ہو۔
پی ٹی آئی نے تہہ کر رکھا ہے کہ وہ اس ملک کے لوگوں کی تقدیر بدلے گی۔اس کے
وزراء پر دھیلے کی بات نہیں کروں گا اس لئے کہ وہ سکہ رائج الوقت نہیں دس
روپے کی کرپشن ثابت ہو اور وہ دوسرے دم منسٹر رہا تو بات پھر کہئے گا۔کوشش
یہ جاری ہے کہ کہ علیمہ خان کے اثاثوں کو زرداری،نواز شریف کے اثاثوں سے
ملایا جائے۔ایک نابینا،ایک فالودے والے،ایک ویلڈر اور ایک مرے ہوئے کے
اکاؤنٹ سے اربوں کی درآمدگی کو پی ٹی آئی کے ان اکاؤنٹس سے ملا دیا جائے جس
میں بیس روپے کی ٹرنسکیشن نہیں ہوئی۔علیمہ خان نے اگر کوئی بے قاعدگی کی تو
سپریم کورٹ نے اسے جرمانہ کیا۔ایف بی آر تو ان لوگوں کو بھی نوٹس دیتا رہا
جو تمام عمر باہر رہے اور ایک گھر بنایا۔عمران خان پر الزام لگا اس نے منی
ٹریل دی مجھ ناچیز کو اٹھاون لاکھ کا نوٹس تھمایا میں نے حساب دیا اس طرح
ہماری پارٹی کے ایک ایک بندے کا احتساب ہوا جو خود تحریک انصاف نے کیا جس
کسی نے ٹکٹ کی طلب کی ان سے حلف نامہ لیا کہ وہ نا دہندہ نہیں ہے۔حضور انور
آپ کو کوئی غلط فہمی ہے ہارون الرشید صاحب،حسن نثار صاحب اسے دور کیجئے۔کیا
آپ عمران خان کی صف سے نکل کر نواز شریف کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔جناب ہوش میں
آئے پی ٹی آئی کے کارکن ہی احتساب کرنے کو کافی ہیں اگر کسی وزیر مشیر نے
چوں چراں کی آپ خاطر جمع رکھئے تحریک انصاف ہے یہاں وہ لوگ نہیں رہتے جو
کہا کرتے ہیں کھاتا ہے لیکن لگاتا بھی ہے۔انصاف کے یہ ہر کارے یہ کارکن
اپنی صفوں میں کسی چور کو برداشت نہیں کرتے کوئی کر کے تو دکھائے یہ لوگ ان
کے گھروں کا گھیراؤ کریں گے جو انصاف کی حکومت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ
ثابت ہوں گے۔میڈیا اپنا قبلہ درست رکھے اور عمران خان کو اس ملک کی تقدیر
بدلنے دے۔ورنہ اس فقیر کا کیا ہے وہ قبیح آوازوں پر رکے گا نہیں۔سچ تو یہ
ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں نے بوریوں کے منہ کھول دئے ہیں۔اور بکاؤ مال اپنے
ضمیروں کو بیچنے ٹوکرے میں سجائے منڈی میں آ گئے ہیں۔اور صدائیں لگا رہے
ہیں ہر مال بکے گا دو آنے یہ کاغذ کشتی دو آنے ،یہ کالم شالم دو آنے۔ |