موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا،مگر
وراثت میں ملے حالات نے اس نئی نویلی حکومت کو وقت سے پہلے ہی طعنہ زنی اور
شدید تنقید کا شکار کردیاہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ زیادہ تنقید،عوام کی بجائے
وہ کررہے ہیں، جوملک کواس حال تک پہنچانے کے براہ ِ راست ذمہ دارہیں۔ جنہوں
نے تین،تین باریاں لیں۔ہربار عوام سے عہدوپیماں اور ترقی کے سہانے خواب
دکھائے۔ہربار اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کہاملک مقروض اورخزانہ خالی
ہے۔حالات ان کے بس میں نہیں،مہنگائی ان کے کنڑول میں نہیں،روزگاردے نہیں
سکتے،نئی ملازمتوں پرپابندی لگانی ہوگی۔عوام کو حکومت کی مدد کرنی ہوگی ۔
کشکول توڑنے کے لئے"قرض اتارو ،ملک سنواروـ"جیسی سکیمیں شروع کی گئیں۔
حالات سے مجبوراورغربت کے مارے عوام نے وطن عزیز کی خاطرحکمرانوں کی آواز
پرلبیک کہا۔اس اُمید اورآس پرکہ شاید اس طرح حالات بدل جائیں۔ہمارے لئے
نہیں توآنے والی نسلوں کے لئے کچھ بہتری کے آثارپیداہوں۔اس ملک کے غریب
عوام نے"قرض اتارو ،ملک سنواروـ"جیسی سکیموں میں اپنی حیثیت سے بڑھ کرحصہ
لیا ۔ ہماری ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی جمع پونجی ،زیورات اور جہیزتک "قرض
اتاروملک سنواروسکیم" میں جمع کروا دیا۔جن برے حالات کا
ہرباروایلاکیاجاتا،انہی حالات میں خودان مفاد پرستوں کے ذاتی کاروبار،
جاگیریں،جائیدایں،بیرون ملک بینکوں میں موجودان کی دولت کے انبار
روزبروزبڑھتے گئے مگرآج دن تک نہ تو پاکستان قرض کے بوجھ سے آزاد ہوا،نہ
غریب عوام کے حالات بدلے اور نہ ہی پاکستان کے حالات میں بہتری آئی، ہر دن
بلکہ ہر لمحہ گزشتہ لمحہ سے بدترہوتا گیا۔
نیت صاف ہو،صلاحیت اوراخلاص ہوتو وہ ذات پاک جوانسان کوحکومت اوراقتدار
عطاء کرتی ہے،وہ اس بات کی مہلت بھی دیتی ہے کہ اُس کی مخلوق کی داد رسی کی
جائے۔عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے حتی المقدورسعی کی جائے تواﷲ کی
ذات ضرورمددفرماتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان ملکی حالات کے سدھار میں سنجیدہ
اورمسلسل اس کوشش میں نظرآئے کہ عوام کوریلیف ملے، پاکستان کے انتظامی
ومالی مسائل حل ہوں اورخاص کرمعاشی محاذ پرپائی جانے والی غیریقینی کی صورت
حال بہترہو۔مگر حکومتی وزراء کی منطق سمجھ سے بالاترہے، جنہوں نے اپوزیشن
کی ہربات اور ہر تنقید پر اینٹ کاجواب پتھرسے دینے کی ٹھان رکھی ہے۔جس سے
خواہ مخواہ محاذآرائی کاماحول پیداہو رہا ہے۔ انہیں اس بات کاقطعی اندازہ
نہیں کہ ان کے اس طرح اُلجھنے کی وجہ سے عوام میں منفی ردعمل
پیداہوگا۔مخالفین کو پروپیگنڈہ کے زیادہ مواقع میسرآئیں گے اوراس طرح
وزیراعظم عمران خان کی ساری محنت رائیگاں جائے گی۔
لہٰذاجہاں وزیراعظم حالات میں بہتری کے لئے دیگراقدامات کررہے ہیں، وہیں
ایک احسان اورکردیں،کہ اپنے وزراء کو اس بات کا پابندکریں کہ وہ اپوزیشن سے
مخاطب ہونے کی بجائے،ان عوام سے مخاطب ہوں ،جنہوں نے آپ کومنتخب
کیاہے،انہیں حوصلہ دیں، عوام کو یقین دلائیں کہ حکومت ان مشکل اورکٹھن
حالات میں عوام کے ساتھ ہے اورعوام کے مسائل میں بتدریج واضح کمی کے لئے
کوشاں ہے۔ لمبی لمبی پھینکنے اورغلط بیانی کی بجائے عوام کوحقائق سے آگاہ
رکھیں۔
حکومتی حلقوں کی طرف سے حقائق کے برعکس مسلسل غلط بیانی اور بے مقصدسہانے
سپنے دکھانے سے ایک کہاوت یاد آگئی: کسی کے ہاں کوئی مہمان ٹھہرتا ہے ،
میزبان کے خیالی پلاؤ اتنے طویل تھے کہ ساری رات گزرگئی، میزبان رات بھر نہ
خود سویاہے اورنہ ہی مہمان کوآرام کرنے دیا،کبھی کہتا میرا فلاں مال
ترکستان میں پڑا ہے اورفلاں شے ہندوستان میں رکھی ہے۔کبھی سناتاسکندریہ
چلیں، وہاں کی ہوا بڑی خوشگوار ہے۔پھرخودی کہہ دیتا وہاں جائیں کیسے؟کبھی
کہتا کہ ، جس سفرکا میں نے ارادہ کررکھا ہے اگروہ پورا ہوجائے
توپھرعمربھرایک جگہ گوشہ عافیت میں بیٹھ کرقناعت سے بسرکروں گا۔
مہمان نے پوچھا بتائیے تو وہ کون ساسفرہے۔کہنے لگا،فارس سے چین میں گندھک
لے کے جاؤں گا۔سنا ہے وہاں اس کی بڑی قدروقمت ہے اورچین سے پیالیاں
خریدکرروم بیچوں گا اوروہاں سے ان کے عوض رومی کپڑاہندوستان لے کرجاؤں
گا۔ہندوستان سے ہندوستانی فولادحلب میں پہنچاؤں گا اوراس کے بدلے آئینے
خرید کریمن لے جاؤں گااورپھریمنی چادریں اپنے وطن میں لاکرفروخت کردوں
گا،باقی زندگی مزے سے گزاروں گا۔اسی طرح حکومتی وزراء نے بھی خیالی
پلاؤپھیلانے میں دن رات ایک کیا ہواہے کہ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب سے
امداد ملی،عرب امارات، ملائیشیا، چین اوراب قطرجائیں گے ، اسی طرح
دُنیابھرمیں موجوددوست ممالک سے موجودہ معاشی بحران کے حل کئے امداد ملے گی
اورہم بہت جلد عوام کوخوش خبری دیں گے۔ہماراشماردُنیا کی ترقی یافتہ قوموں
ہونے لگے گا۔ حکومتی وزراء نے عوام کوشیخ چلی جیسے سبزباغ دکھانے کا نہ
رکنے والا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
جبکہ حالات اورحقائق اس کے برعکس ہیں۔دوست ممالک کی امداد سے وقتی
طورپرتوریلیف مل جائے گا۔لیکن مستقل حل کے لئے اپنے دستیاب وسائل،ٹیکس
اوردیگرحکومتی آمدنی کے ذرائع میں بہتری لانے ہوگی،جس کے فی الحال کوئی
آثارنہیں۔بجلی اورگیس بحران کے باعث ملک بھرمیں صنعتوں کا دیوالیہ نکل گیا
ہے۔صنعت زوال پذیرہونے سے متوسط اورنچلاطبقہ بری طرح متاثرہورہاہے۔ صنعت سے
وابستہ ہزاروں محنت کش اورمزدورں کے لئے دووقت کی روٹی کاحصول مشکل
ہوگیاہے۔ڈالر کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ سرمایہ ملک سے باہرمنتقل
ہوچکاہے۔حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے،ادویات جوپہلے ہی غریب عوام
کی پہنچ سے باہرتھیں،میں یکلخت 15فیصد اضافہ کردیاگیا۔منی بجٹ میں عوام کی
معاشی مشکلات مزیدبڑھیں گی۔صحت، تعلیم،امن وامان،پولیس،پی آئی اے،معاشی
بحران ، انرجی کا بحران جیسے لاتعداد مسائل ہیں۔پوراملک مہنگائی ،بے
روزگاری کا شکار ہے ۔
بوریاں دیکھ کر اونٹ روئے تھے۔اُنہیں پتہ تھااس میں جومال ڈالا جائے گا،اُس
کا وزن اُنہوں نے ہی اُٹھانا ہوگا۔ سعودی عرب، امارات، ملائیشیا، چین ، قطر
اسی طرح دیگردوست ممالک سے جوامداد ملے گی،وہ قرض ہے ،جسے بہرحال پاکستانی
عوام نے ہی واپس کرنا ہے۔ پاکستان پہلے بھی مقروض تھا،اب مزیدمقروض ہوجائے
گا۔کارکردگی کی یہی صورت حال رہی ،ٹیکس اوردیگرحکومتی آمدنی کے ذرائع میں
بہتری نہ لائی گئی،وزیراسی طرح اپوزیشن سے محاذآرائی پرڈٹے رہے توپہلے سے
مایوس اورنااُمیدعوام سوچنے پرمجبور ہو جائیں گے کہ تبدیلی کے صرف نعرے
تھے۔ہمارا پرسان ِحال کوئی نہیں، ہم توپہلے بھی مشکلات اور مصائب سے دوچار
تھے اوراب بھی پریشان حال ہیں۔اگرحکومت کی سوچ اورنیت حالات میں بہتری لانے
کی ہوتی تواب تک ضرور کچھ بہتری کے آثار نظر آتے اوریہ کہ گزشتہ حکمرانوں
کی طرح موجودہ حکمرانوں کی بھی پاکستان اور پاکستانی عوام کی بہتری کی نیت
ہے اورنہ ہی صلاحیت ۔
|