تحریر۔ چوہدری عرفان اعجاز
صحافت کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اس دنیا میں جب کبھی کسی شخص نے سوچا
اور اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کا خیال آیا اسی دن صحافت کی بنیاد
پڑی صحافت کسی بھی معاملے بارے تحقیق اور پھر اسے بڑے پیمانے پر قارئین،
ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا ایک مکمل نام ہے۔ صحافت کا پیشہ
اختیارکرنے والے افراد کو صحافی کہتے ہیں۔ سب سے اہم بات جو صحافت سے منسلک
ہے وہ ہے کہ عوام کو باخبر رکھنا۔ شعبہ صحافت سے منسلک کاموں میں ادارت،
تصویری صحافت، فیچر اور ڈاکومنٹری وغیرہ شامل ہیں۔1605ء میں چھپنے والا
اخبار، Relation aller Fürnemmen und gedenck würdigen Historien دنیا میں
پہلا اخبار شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا انگریزی اخبار جو 1702ء
سے 1735ء تک جاری رہا، پہلا مقبول ترین اخبار سمجھا جاتا ہے جبکہ اردو کے
اخبارات میں مولوی محمد باقر کا اردو اخبار دہلی سے 1836سے 1857ء تک جاری
رہا۔ بعض کا یہ دعوی ہے کہ اردو کا پہلا اخبار ’’آگرہ اخبار‘‘ ہے جو
اکبرآباد سے 1831ء میں جاری کیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اردو کا سب سے
پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ تھا جو27مارچ 1823ء کو جاری ہوا اور 1824تک
نکلتا رہا اور پھر بند ہوکر دوبارہ 1825میں جاری ہوا۔ جناب یوسف کاظم عارف
کا دعویٰ ہے کہ ’’مرۃ الاخبار‘‘ اردو کا پہلا اخبار ہے جو 1821 میں کلکتہ
سے جاری ہوا۔ جس کے روح رواں راجا رام موہن رائے تھے۔ ایک اور دعویٰ یہ بھی
ہے کہ 1810ء میں کلکتہ سے کاظم علی نے ’’اردو اخبار‘‘ کے نام سے اردو صحافت
کا آغاز کیا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اردو اخبار کا آغاز ہندوستان سے ٹیپو
سلطان نے کیا تھا۔ جنہوں نے 1794ء میں ایک حکم صادر کیا کہ ایک سرکاری پریس
جاری کیا جائے جس میں عربی حروف میں ٹائپ کی چھپائی ہو۔ ان کے حکم کی تعمیل
ہوئی۔ ٹیپو سلطان کے حکم کے مطابق اس پریس سے اردو زبان کا اخبار جاری کیا
گیاجس کا نام ’’فوجی اخبار‘‘ رکھا گیا۔عبدالسلام خورشید کے مطابق 1857کے
بعد اردو روزناموں کا دور شروع ہوا۔جدید دور میں، صحافت مکمل طور پر نیا رخ
اختیار کر چکی ہے۔ عوام کا اخباروں پر معلومات کے حصول کے لیے اعتماد کرنا
صحافت کی کامیابی ہے۔ آج کی صحافت نے قلم سے کمپیوٹر تک کا سفر طے کرلیا ہے
اور اس نے بہت کچھ برادشت بھی کیا ہے کبھی آمریت تو کبھی حکومتوں کے زیر
عتاب آئی،کبھی ورکرز کو قاتلانہ حملوں اور اغواء کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر
پھر بھی بہادر لوگوں کی وجہ سے صحافت چلتی رہی لیکن آج میراقلم صحافت کی
آزادی کے ساتھ ساتھ اْن لوگوں کے لیے بھی ہے جن کا شعبہ صحافت سے دور دور
تک کوئی تعلق نہیں لیکن محض اپنے کاروبار کو وسعت دینے، یا پھر غلط کام کو
تحفظ فراہم کرنے کے لیئے صحافت کا سہارا لینا ہے ،قارئین کرام میں نے
اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے معروف کالم نگار محمد مظہر رشید چودھری کے کالم
صحافی کے لیے تعلیمی شرط کیوں نہیں؟( انگوٹھا چھاپ )کو پڑھا اور ساتھ ہی
کالم نگار سلمان احمد قریشی کے ریڈی میڈ صحافی کو بھی پڑھا جسے پڑھ کر مجھے
یقین ہوا کہ واقعی پاکستان میں لکھنے والے افراد موجود ہیں جو حق اور سچ کی
خاطر لکھتے چلے جاتے ہیں خواہ نقصان ہی کیوں نا ہو لیکن افسوس اس بات کا کہ
صحافت جیسے مقدس پیشے کو کچھ لوگ کیوں بدنام کرنے پر تلُے ہوئے ہیں ۔آجکل
میٹرک فیل کسی شخص کو اخبار کے ادارے اپنا نمائندہ کیوں بناتے ہیں ؟ چینلز
اپنا لوگو کیوں پیش کر دیتے ہیں کہ جائیں آج سے آپ کو صحافی بنا دیا گیا ہے
اور جب وہی شخص گلے میں کارڈ ڈال کر پھرتا ہے تو پڑھے لکھے اور قابل قدر
افراد کی اہمیت کم ہونے لگتی ہے کیونکہ جس محفل میں ایک پڑھا لکھا اور اپنے
پیشے سے مخلص صحافی بیٹھتا ہے وہیں وہ شخص بھی بیٹھ جاتا ہے۔ میری حکومت
وقت اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے گزارش ہے کہ جس طرح ڈاکٹر،انجینئر،وکیل
یا کوئی بھی پروفیشن اختیار کرنے کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی
صحافت سے منسلک افراد کے لیے زیادہ نہیں تو کم از کم گریجوایشن تک کی تعلیم
لازمی قرار دیں اور تمام اخبارات اور چینلز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ
ان کے نمائندگان کی تعلیمی اسناد کی تصدیق کی جائے تاکہ اس پیشے سے تعلیم
یافتہ لوگ منسلک ہوں ناکہ وہ لوگ جو اس شعبہ کے اہل ہی نہیں، اس طرح اچھے
اور دیانتدار لوگ اس شعبہ میں دل لگا کر کام کریں گے برصغیر کی اردو صحافت
اور آزادی کے علمبرداروں سے بھی یہی سبق حاصل ہوتا ہے ہمیں صحافت سے لگاؤ
ہونا چاہیے محبت کرنی چاہیے جیسے کہ پہلے اردو اخبار کے ایڈیٹر مولانا
باقرعلی،سرسید علی خان،مولاناظفر علی خان،مولانا جوہر علی،گوہر
علی،ابوالکلام آزاد،مولانا حسرت موہانی اور جناب خلیل الرحمٰن اور جناب
حمید نظامی اور جناب مجید نظامی اور جناب الماس عباسی اس میں شامل ہیں آیئے
اپنی روایات کو ذمہ دار صحافت کے اسلوب میں ڈھالیں اور پاکستان کی ترقی کے
لئے اپنا اپنا کام کریں۔ |