یونیورسٹی میں خزاں کا موسم / رخصتی اور آغاز کا سنگم
(MUHAMMAD ALI RAZA, Karachi)
|
یونیورسٹی میں خزاں کا موسم / رخصتی اور آغاز کا سنگم
تحریر: محمد علی رضا یونیورسٹی کے وسیع لان، درختوں سے جھڑتے پتے، اور راہداریوں میں گونجتی ہلکی سی خاموشی، سب کچھ آج ایک الگ سا منظر پیش کر رہا ہے، فضا میں اداسی بھی ہے اور امید کی خوشبو بھی،یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ خزاں صرف موسم کی نہیں بلکہ احساسات کی بھی ہے۔ یونیورسٹی میں وہ وقت آ پہنچا ہے جب کئی چہرے، جو کل تک انہی راہوں کے شناسا تھے، اپنی منزل کو پا کر اب رخصت ہونے جا رہے ہیں۔ ان میں کچھ کے چہروں پر اطمینان ہے، کچھ کی آنکھوں میں نمی، اور کچھ کے لبوں پر شکریے کے الفاظ۔یہی وہ طلبہ ہیں جنہوں نے دن رات محنت کر کے اپنی ڈگری مکمل کی، خوابوں کی تعبیر پائی، اور اب زندگی کے ایک نئے سفر کی جانب بڑھنے کو تیار ہیں۔ ان کے لیے یہ درسگاہ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک یادوں کا خزانہ ہے۔یہیں انہوں نے دوستی کے خوبصورت رشتے بنائے، کامیابی اور ناکامی دونوں کا ذائقہ چکھا، اور اپنے اندر وہ شعور جگایا جو آنے والے کل میں ان کا رہنما بنے گا۔ اب یہ طلبہ اپنی عملی زندگی کی دہلیز پر قدم رکھنے جا رہے ہیں۔ کوئی اپنے خوابوں کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانا چاہتا ہے، کوئی روزگار کی تلاش میں میدانِ عمل میں اترنے کو تیار ہے، اور کوئی اپنی صلاحیتوں سے سماج میں روشنی پھیلانے کا عزم رکھتا ہے۔یہ سب اس درسگاہ کی محنت اور تربیت کا نتیجہ ہے جو اب ان کے کردار سے جھلکے گا۔دوسری جانب، انہی راہداریوں میں کچھ نئے چہرے بھی نظر آ رہے ہیں۔تازہ جوش و جذبے کے ساتھ وہ یونیورسٹی کے ماحول میں قدم رکھ رہے ہیں۔ان کے چہروں پر خوابوں کی روشنی اور دلوں میں امید کی چمک ہے۔وہ اپنے مستقبل کو سنوارنے، اپنی پہچان بنانے اور زندگی کے نئے باب لکھنے آئے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے وقت ایک خوبصورت دائرے کی مانند ہے۔جہاں ایک کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے، وہیں دوسری کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔یہی تعلیم کی اصل خوبصورتی ہے کہ ہر اختتام، دراصل ایک نئے آغاز کی بنیاد بنتا ہے۔ خزاں کا یہ موسم، دراصل نئے موسمِ بہار کا پیغام ہے۔رخصت ہونے والے طلبہ کے لیے نیک تمنائیں، کہ وہ جہاں بھی جائیں، اپنی درسگاہ کا نام روشن کریں۔اور نئے آنے والوں کے لیے خوش آمدید،کہ اب اُن کی باری ہے خواب دیکھنے، محنت کرنے اور اپنی کامیابی کی نئی کہانی لکھنے کی۔ آخر میں بس اتنا کہنا مناسب ہے کہ۔ یونیورسٹی صرف تعلیم دینے کی جگہ نہیں، بلکہ زندگی جینے کا فن سکھانے کا مرکز ہے۔ یہاں ہر خزاں، دراصل ایک نئی بہار کی بشارت ہوتی ہے۔
|
|