جدید صنعتی ترقی کے لیےنئی نسل کی صلاحیتوں کی تشکیل
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
جدید صنعتی ترقی کے لیےنئی نسل کی صلاحیتوں کی تشکیل تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین تعلیمی اعتبار سے ایک مضبوط ملک کی تعمیر کے اپنے طویل المیعاد ہدف کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اب مرکزی توجہ ایسے اعلیٰ تخلیقی اور اختراعی انسانی وسائل کی تیاری پر ہے جو مستقبل کی اسٹریٹجک صنعتوں کی ضروریات پوری کر سکیں۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی)، سیمی کنڈکٹرز، انٹیگریٹڈ سرکٹس اور جدید انجینئرنگ جیسے شعبوں کو مستقبل کے لیے فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے، اور چین ان ہی شعبوں میں عالمی سطح کے باصلاحیت افراد تیار کرنے کے لیے نئے ماڈلز پر کام شروع کر چکا ہے۔
چینی حکام کے مطابق ملک ایک ایسا جامع ٹیلنٹ کلٹیویشن میکانزم قائم کرے گا جو صنعتی ترقی کو ملکی اسٹریٹجک ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔ اس مقصد کے لیے یونیورسٹیوں میں شعبہ جات اور مضامین کے ڈھانچے کو ازسرنو ترتیب دیا جائے گا، جبکہ پیشہ ورانہ اور روایتی تعلیم کے باہمی انضمام، اور صنعت و تعلیم کے تعاون کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ آنے والے برسوں میں ملک بھر میں اعلیٰ مہارت یافتہ افراد کی کلسٹر ٹریننگ، تکنیکی تعلیم کی اصلاح، اور علاقائی صنعتی ضروریات کے مطابق پیشہ ورانہ تعلیم کا فروغ اہم ستون ہوں گے۔
اس ضمن میں بیجنگ میں ہونے والے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے اجلاس میں 2026 سے 2030 تک کے لیے پندرہویں پنج سالہ منصوبے کی سفارشات منظور کی گئیں، جن میں خاص زور اعلیٰ تعلیم کے پھیلاؤ، معیاری بیچلر پروگرامز میں داخلے کے اضافے، اور سائنس و ٹیکنالوجی میں خود کفالت کے فروغ پر دیا گیا ہے۔ ان سفارشات کا بنیادی مقصد تعلیم، سائنس اور انسانی وسائل کو مربوط انداز میں ترقی دینا ہے تاکہ چین مستقبل کی صنعتی مسابقت میں نمایاں مقام برقرار رکھ سکے۔
تعلیمی پالیسی سازوں کے مطابق، آئندہ پانچ برسوں میں ملک میں قومی سطح کے بین اللسانی ریسرچ سینٹرز قائم کیے جائیں گے، نوجوان سائنس دانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے گی، اور جدید سائنسی ایجادات کو عملی صنعتی قوت میں تبدیل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے علاقائی مراکز کا بہتر استعمال کیا جائے گا۔
چین تعلیمی اصلاحات کو مزید گہرا کرنے کے ساتھ ساتھ شعبۂ تعلیم میں عالمی ہم آہنگی کو بھی وسعت دے رہا ہے۔ کالج داخلہ نظام اور مڈل اسکول امتحانی ڈھانچے کی جامع اصلاح، بین الاقوامی علمی تبادلوں میں اضافہ، تعلیمی تحقیق میں تعاون اور عالمی تعلیمی طرزِ حکمرانی میں فعال شرکت آنے والے برسوں کی کلیدی ترجیحات ہوں گی۔
یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ چین میں بچوں کی اسکول جانے کی عمر میں تبدیلیوں کے پیشِ نظر، حکومت تعلیمی وسائل کی متحرک تقسیم کو بہتر بنائے گی۔ تعلیم کے توازن کو مضبوط کیا جائے گا، پری اسکول کی شمولیتی ترقی کو فروغ دیا جائے گا، اور خاص ضروریات رکھنے والے طلبہ کے لیے معیاری تعلیمی خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
چین نے 14ویں پنج سالہ منصوبے (2021–2025) کے دوران تعلیم کے میدان میں نمایاں پیش رفت کی۔ اس عرصے میں جامعات تقریباً 5 کروڑ 50 لاکھ گریجویٹ تیار کر چکی ہیں، جبکہ پیشہ ورانہ تعلیم کے نظام نے جدید صنعتوں کی ضرورت کے مطابق 70 فیصد نئے ہنرمند کارکن فراہم کیے ہیں۔
گزشتہ دو برسوں میں اسٹریٹجک شعبوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یونیورسٹیوں کے مضامین میں تبدیلی کی گئی، جو چین کے تعلیمی ڈھانچے کی لچک اور دوراندیشی کو ظاہر کرتی ہے۔
تعلیم کے ساتھ صحت مند سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے لیے پرائمری اور سکینڈری اسکولوں میں روزانہ دو گھنٹے کی جسمانی سرگرمی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر کلاس کے درمیان 15 منٹ کے وقفے کا نفاذ بھی طلبہ کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے اہم قدم ہے۔
ملک کے 2895 اضلاع میں لازمی تعلیم کا توازن بڑے پیمانے پر حاصل ہو چکا ہے۔ اس سال کے موسمِ خزاں میں مفت پری اسکول تعلیم کے مرحلہ وار منصوبے نے 1 کروڑ 20 لاکھ بچوں کو فائدہ پہنچایا۔
ساتھ ساتھ چین اضلاع کی سطح کے ہائی اسکولوں کی بہتری کے لیے ایکشن پلان پر عمل پیرا ہے تاکہ دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں کے طلبہ بھی اعلیٰ معیار کی سینئر ہائی اسکول تعلیم حاصل کر سکیں۔ خصوصی گروہوں کے تعلیمی حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ کم آمدنی والے گھرانوں کے طلبہ کو ہر سطح پر مکمل سپورٹ حاصل ہے۔مزید برآں، ملک نے مرکزی اور مغربی خطوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کو خصوصی تعاون پروگرام کے تحت تعینات کیا ہے۔
چین کا عالمی تعلیمی کردار بھی تیزی سے ابھر رہا ہے۔ شنگھائی میں قائم یونیسکو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ایس ٹی ای ایم ایجوکیشن عالمی تعلیمی جدت کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم ہے۔ اسی طرح اسمارٹ ایجوکیشن آف چائنا نامی ڈیجیٹل پلیٹ فارم اب دنیا کے 220 ممالک اور خطوں میں قابلِ رسائی ہے۔ |
|