امریکی خفیہ ایجنسی کے اہلکار
ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے فہیم کی بیوہ، پاکستان کی بیٹی اور
ہماری بہن ”شمائلہ“ نے زہریلی گولیاں کھاکر خود کشی کرلی۔ میڈیا کی رپورٹس
کے مطابق بعض پاکستانی ”امریکی دوستوں“کی جانب سے مقتول فہیم کے خاندان اور
خصوصاً اس کی بیوہ شمائلہ پر بہت زیادہ دباﺅ ڈالا جارہا تھا کہ وہ قاتل کو
معاف کرنے اور اپنے کیس سے دستبردار ہونے کا اعلان کرے، شمائلہ کو چونکہ
حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے کسی قسم کی امداد اور انصاف کا
ہرگز یقین نہ تھا چنانچہ اس نے یہی بہتر سمجھا کہ وہ اس دنیا میں نہ رہے،
اس نے یقیناً یہ بھی سوچا ہوگا کہ شائد اس کی موت سے کسی ”بڑے“ کو غیرت
آجائے یا پاکستانی قوم جو اس وقت بھی نیم غنودگی کی حالت میں ہے، جاگ جائے۔
آج فیضان اور فہیم کو سر عام بے گناہ ہونے کے باوجود گولیاں ماری گئی ہیں،
کل کو یہی کچھ کسی بھی عام پاکستانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔
میں نے اسی سلسلہ میں ایک کالم ”امریکی دہشت گرد اور ویانا کنونشن“ کے
عنوان سے لکھا تھا جو 31 جنوری کو مختلف ویب سائٹس پر جبکہ 3 فروری کو ہفت
روزہ لیڈر کینیڈا کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ ایک ویب سائٹ”میک پاکستان
بیٹر“ (makepakistanbetter.com) پر میرے متذکرہ بالا کالم پر امریکن سٹیٹ
ڈیپارٹمنٹ (US State Department) کی ڈیجیٹل آﺅٹ ریچ ٹیم (Digital Out Reach
team) کے ذوالفقار صاحب کی جانب سے جواب ملا، پہلے وہ جواب پڑھ لیں۔
ذوالفقار صاحب لکھتے ہیں ”سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ مجھے بہت ہی
حیرانگی ہورہی ہے کہ بہت سے تجزیہ نگار ویانا کنونشن کے تحت دی جانے والی
معافی کو سرے سے نظر انداز کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جاننے سے قاصر ہیں کہ یہ
قانون امریکہ اور پاکستان سمیت تمام ممالک پر جو اس پر دستخط کر چکے ہیں،
پر لاگو ہوتا ہے۔ پاکستان میں امریکی سفارتخانہ سفارتی استثنٰی اور لاہور
میں زیر حراست امریکی سفارتکار کے بارے میں مندرجہ ذیل حقائق فراہم کرنے کا
خواہاں ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اوپر لکھے گئے قوانین کے مطابق امریکی
سفارتخانے نے امریکی سفارتکار کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ کیوں کہ اس کا
تعلق امریکی سفارتخانے کے تکنیکی عملے سے ہے اس لیے وہ مکمل سفارتی استثنٰی
کا حقدار ہے۔ اسے ویانا کنونشن کے تحت گرفتار یا قید کرنے کا کوئی جواز
نہیں بنتا۔ ہمارے خیال میں اس نے یہ اقدام اپنی جان بچانے کے لیے کیا کیوں
کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق تھا۔ چند ہی منٹ قبل ان دو آدمیوں نے اسی علاقے
میں ایک پاکستانی شہری کو بندوق کی نوک پر لوٹا۔ امریکی سفارتخانہ پاکستانی
حکام کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے پورا تعاون فراہم کر رہا ہے۔
ذوالفقار – ڈیجیٹل آؤٹ ریچ ٹیم – یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ“، ذوالفقار صاحب
کے مندرجہ بالا کمنٹس makepakistanbetter.com پر میرے کالم ”امریکی دہشت
گرد اور ویانا کنونشن“ یا براہ راست مندرجہ ذیل لنک https://www.makepakistanbetter.com/Why_how_what_forumU.asp?GroupID=11&ArticleID=12759
پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو میں اپنی طرف سے اور اپنے جیسے عام پاکستانیوں کی طرف سے
امریکہ یا اس کے نمائندے ذوالفقار صاحب سے چند سوال پوچھنا چاہتا ہوں جو ہر
خاص و عام کی زبان پر ہیں لیکن ابھی تک امریکہ کی جانب سے کسی قسم کا کوئی
جواب نہیں مل سکا۔ پہلی بات جو ریکارڈ کی ہے وہ یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس اس
امریکی شہری کا اصل نام نہیں ہے جس نے قتل کئے تھے، امریکہ نے اس کا اصل
نام ابھی تک کیوں پوشیدہ رکھا ہوا ہے؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص
جعلی دستاویز پر کسی دوسرے ملک میں جائے، خواہ کسی ایمبیسی یا قونصلیٹ کا
ملازم یا اہلکار بن کر، تو کیا اس کے خلاف جعلسازی کا مقدمہ درج ہونا چاہئے
یا اس کو پروٹوکول اور استثنٰی ملنا چاہئے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ امریکی
قونصلیٹ نے ابھی تک وہ گاڑی اور ڈرائیور کیوں پولیس کے حوالے نہیں کئے جس
نے اسی روز ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عبادالرحمان کو کچل کر موت
کے گھاٹ اتار دیا تھا، اس ڈرائیور اور گاڑی کے بارے میں تو کسی قسم کے
استثنیٰ کا مطالبہ بھی نہیں کیا جارہا، پھر اس کو کیوں ابھی تک چھپایا
جارہا ہے؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر ایک منٹ کے لئے فرض بھی کرلیں کہ ریمنڈ
ڈیوس، قاتل کا اصل نام ہے، وہ ڈپلومیٹ ہے، اسے ویانا کنونشن کے تحت استثنیٰ
بھی حاصل ہے، تو کیا ویانا کنونشن کسی بھی ڈپلومیٹ کو ”License to Kill“ دے
دیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرے، کسی کو بھی قتل کردے، اگر ایسا ہی ہے تو امریکہ
نے جارجین سفیر، جس سے ایک حادثہ ہوگیا تھا، اس کو استثنیٰ کیوں نہیں دیا
تھا اور اگر کسی بھی ملک کا سفیر ، امریکہ میں کسی عام امریکی کو قتل کردے
تو کیا پھر بھی امریکہ ویانا کنونشن کا راگ ہی الاپتا رہے گا یا اسے اپنے
ملکی قوانین کے مطابق عدالتوں کے حوالے کردے گا اور اس وقت امریکہ کا رد
عمل کیا ہوگا اگر کوئی غیر ملکی سفیر کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کو ویانا
کنونشن کی آڑ لے کر جان سے مار دے؟پانچواں سوال یہ ہے کہ اگر کسی اور ملک
کی خفیہ ایجنسی کا کوئی اہلکار یا ”نان سٹیٹ ایکٹر“ سفارتی عملہ کے بھیس
میں امریکہ پہنچ کر ایسی کوئی حرکت کرے تو امریکی حکومت کیا کرے گی، اسے
سفارتی استثنیٰ دے گی؟ چھٹا سوال، جو پہلے بھی پوچھا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ
ریمنڈ ڈیوس پرائیویٹ کار اور جاسوسی کے آلات کے ساتھ مزنگ میں کیا کررہا
تھا؟ ساتواں سوال یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ محو سفر پاکستانی کون تھا؟
آٹھواں سوال یہ ہے کہ جب دونوں موٹر سائیکل سواروں نے ڈیوس پر فائرنگ کی ہی
نہیں تو اس نے ان پر فائر کیوں کھولا، کیونکہ ”سیلف ڈیفنس“ میں بھی سب سے
پہلے ہتھیار کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا جسم پر اس جگہ فائر کیا جاتا ہے جس
سے انسان کی موت واقع نہ ہوتی ہو، تو کیوں ڈیوس نے پیچھے سے مقتولین پر
تیرہ چودہ فائر کئے اور کیوں ایک زخمی کی موت کو یقینی بنانے کے لئے کار سے
اتر کر بھی فائر کیا؟ نواں سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کو ایک آزاد
ملک سمجھتا ہے، اگر ایسا ہے تو اسے پاکستانی عدالتوں پر اعتماد کیوں نہیں
ہے؟ اگر قاتل کو ویانا کنونشن کے تحت استثنیٰ حاصل ہے تو یقیناً پاکستانی
آزاد اور خود مختار عدالتیں اس کے ساتھ قانون کے مطابق ہی سلوک کریں گی،
چنانچہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ، پاکستانی عدالتوں کے بارے میں
شکوک و شبہات رکھتا ہے۔ دسواں سوال یہ ہے کہ جس امریکہ کو ایک آزاد اور
خودمختار ملک پر ڈرون حملے کرتے ہوئے کسی بین الاقوامی قانون کی ذرا بھی
پرواہ نہیں ہوتی، وہی امر یکہ دوسرے ملکوں پر ویانا کنونشن جیسے قوانین کی
عملداری پر کیسے زور دے سکتا ہے؟ امریکہ کے پاس کونسا اخلاقی جواز ہے جس کی
بنیاد پر اتنا دباﺅ ڈالا جارہا ہے؟اس سے ملتے جلتے بیشمار سوالات ہیں جو
عام پاکستانیوں کے ذہنوں میں کھلبلی مچائے ہوئے ہیں، کیا ڈیجیٹل آؤٹ ریچ
ٹیم ، یوا یس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ذوالفقار صاحب یا کوئی اور امریکی عہدیدار
ان تمام سوالات کے تشفی آمیز جوابات دے سکتا ہے؟ میرے ایک نوجوان قاری کا
کہنا ہے کہ میری طرف سے امریکہ کو کہہ دیں ”اگر ساری صورتحال کو سامنے رکھ
کر بھی امریکہ کا اصرار ہے کہ قاتل ریمنڈ ڈیوس کو ویانا کنونشن کے تحت
سفارتی استثنیٰ ملنا چاہئے اور پاکستان کو اسے باعزت رہا کردینا چاہئے تو
میں پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں کی جانب سے (کیونکہ حکومت و اپوزیشن کے
راہنما تو پہلے ہی امریکہ کے لے پالک اور پالتو ہیں)امریکہ کو بتا دینا
چاہتا ہوں کہ اب کوئی ”شمائلہ“ خودکشی نہیں کرے گی بلکہ اپنے ملک کی
عدالتوں پر اعتماد رکھے گی، اگر خدانخواستہ عدالتیں بھی اعتماد پر پورا
نہیں اتریں گی اور عدل و انصاف نہیں کریں گی تو ہمیں مرنا تو ہے لیکن اکیلے
نہیں مریں گے، ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ کے مصداق پھر
اس ملک میں امریکہ یا اس کے حواری قدم رنجہ نہیں فرما سکیں گے اور یہاں
مسلط حکمرانوں کو انشاءاللہ بحیرہ عرب میں غرق کردیں گے، وہاں سے چاہے
انہیں امریکی بحری بیڑہ لے جائے یا شارک مچھلیاں....!“ |