ظلم و جبر کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پنجاب پولیس کے
ایک محکمے سی ٹی ڈی نے ایک ہی خاندان کو گولیوں سے بھون دیا۔ میرے رب کی
قدرت کا شاہکار ریکھیں کہ مرنے والی خاتون نے اپنے سینے پر 10 گولیاں کھا
کر اپنے تین بچوں کی زندگی بچائی۔ کالی وردی میں لپٹے اُن بھیڑیوں کی مراد
قتل کرنے پر ہی پوری نہ ہوئے بلکہ اُن درندوں نے کم سن بچوں کو گاڑی میں
ڈال کر ایک ویران پٹرول پمپ پر چھوڑ دیا۔ اندازہ کیجئے اُن بچوں پر کیا
گزری ہو گی جنکے سامنے ان کے ماں باپ کو لہو میں لت پت کر دیا گیا - پوسٹ
مارٹم رپورٹ کے مطابق بچوں کے والد کو 13 گولیاں جبکہ والدہ نبیلہ کو 10
گولیاں ماری گئی۔ CTD مسلسل مقتولین کو دہشتگرد ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں.
یا رب ! جب ان بچوں کی آہ نکلی ہو گی تب تیرا عرش بھی تو لڑکھرایا ہو گا .
معصوم بچے کس کے ہاتھ اپنے والدین کا لہو تلاش کریں ؟
کیا اس جنگل کے قانون میں ان بچوں کو انصاف ملے گا؟ گورنمنٹ نے حسب روایت
اہلکاروں کو معطل اور گرفتار کر لیا ہے اور JIT بھی بن گئی ہے۔ پنجاب حکومت
نے بھی لواحقین کے لئے
2 کروڑ امداد کا اعلان کر دیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک عوام اس ظلم کی بھینت چڑھتے رہے گے؟ آخر
کب تک یہ ادارے قتل و غارت کرتے رہے گے اور کب تک یہ عوام لاشیں اٹھاتی رہے
گی؟
کیا کسی کو جعلی مقابلے میں مار دینا ، دہشتگرد ڈکلئیر کرنا اور ملکی
سالمیت کیلئے خطرہ قرار دے کر غائب کر دینا ہی قانون اور انصاف کی حکمرانی
ہے؟
جہاں سیاستدانواں نے اپنی سیاست چمکائی وہیں ڈکٹیٹرز نے بھی سویلین اداروں
سے اپنے بوٹ پالش کروائے۔ لحاظہ امن اور انصاف اس عوام کا ہی داؤ پر لگتا
رہا ہے۔
دس سال تک شہباز شریف پنجاب میں برسراقتدار رہے لیکن پولیس گردی کو نہ بدل
سکے ۔ بلکہ انکی ہی حکومت میں ماڈل ٹاؤن
ہولناک واقعہ پیش آیا اور ذمہ دار آج بھی آزاد ہیں۔
تبدیلی سرکار جو بلند و بالا وعدے اور دعوے کر کے اقتدار میں آئی ، وہ بھی
ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جس نعرہ پر PTI نے الیکشن کمپین چلائی اور
کامیابی حاصل کی ”پنجاب میں پولیس کلچر کو بدلا جائے گا“۔ تبدیلی سرکار کے
فرنٹ مین عثمان بزدار بھی ناکام دکھائی دے رہے ہیں ۔
پاکپتن DPO تبادلہ کیس ہو یا اسلام آباد IG تبادلہ کیس ، سب میں ہی PTI
اپنے ہی منشور کے خلاف کھڑی نظر آئی۔
پولیس کا رویہ تب تک درست نہیں ہو سکتا جب تک اس محکمے کی ازسرِ نو تشکیل
نہیں کر دی جاتی ۔ بیوروکریسی کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا اور
عوام کے مال و جان کا تحفظ یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ یہ قوم اب مزید سیاسی
پوائنٹ اسکورنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ صرف اتنا ہی نہیں ، ہمیں بحیثیت
قوم اپنے رویے کو بدلنا ہو گا ۔ نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی
تعلیمات کے مطابق ہمیں اپنے اندر صبر اور برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہو گا !
تبدیلی کسی قوم کے حکمران بدلنے سے نہیں آتی۔ ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا
احساس کرنا ہو گا۔ اکائی بدلنے سے دہائی بدلے گی۔ دہائیوں کے بدلنے سے ہی
معاشرہ بدلے گا۔
الله اس ملک پر رحم فرمائے۔ |