میرا قلم اندر سے ٹوٹ چکا ہے، یہ قلم اب اس قابل نہیں رہا
کہ لوگوں کو یوم یکجہتی کشمیر کی دعوت دے، میرا قلم مجھے سے پوچھتا ہے کہ
وہ کونسا ظلم ہے جو کشمیر ،میانماریا فلسطین میں ہو رہا ہے اور پاکستان میں
نہیں ہو رہا!؟یوم یکجہتی کشمیر کا نعرہ کچھ انجانی طاقتوں کی طرف سے ہمارے
منہ میں ڈال دیا گیا ہے اور ہم پانچ فروری کو یہ نعرے لگا لگا کر ہلکان ہو
جاتے ہیں اور اگلے دن پھر پہلے کی طرح ظالم حکمران ، مظلوم لوگوں پر راج
کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اس یوم یکجہتی کشمیر کو یومِ مظلومیت انسانیت کے نام سے
منائیں،ہم اپنے عوام کو بتائیں کہ ہمارے ہاں آج تک ابھی پاکستان آزاد
نہیں ہوا ، ہم پر آج بھی برطانوی سامراج سے بدتر سامراج حکومت کر رہا ہے،
ہم عابد باکسر، گلوبٹ، انسپکٹر ظہیراحمد عرف گل اور راو انور کی سلطنت میں
جی رہے ہیں، یہاں ہر شہر میں سانحہ ماڈل ٹاون اور ہر روڈ پر سانحہ ساہیوال
جیسے سانحات پیش آتے ہیں، ان سانحات کے پیچھے شریف خاندان، نیازی خاندان،
بھٹو خاندان ، زرداری خاندان اور پتہ نہیں کیسے کیسے خاندان اپنی سیاست
چمکا رہے ہوتے ہیں،یہاں ریاست کی سیاست اور حفاظت کے نام پر سی ٹی ڈی جیسے
بے لگام ادارے بنائے جاتے ہیں اور راو انور، گلو بٹ اور عابد باکسر جیسے
پہلوان پالے جاتے ہیں۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست اور وردی کبھی ایک پیج پر نہیں
رہی تو اسے آدبھی بات کی سمجھ ہے جبکہ پوری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست
اور وردی کی ملی بھگت سے وزرائے اعظم تک کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔
پروفیسر مہدی حسن کے مطابق غلام محمد مرض المرگ میں ہذیانی کیفیت کا شکار
ہو کر چلاتا تھا کہ ”لیاقت کے قتل کا سارا الزام مجھ ہی پر کیوں دھرا جاتا
ہے۔ گورمانی بھی تو شریک تھا۔16 اکتوبر 1951 ءکو کمپنی باغ راولپنڈی میں جب
سید اکبر نامی شخص نے فائرنگ کر کے شہید ملت خان لیاقت علی خاں کو شہید کیا
توگولی کی آواز سنتے ہی پولیس افیسر نجف خاں نے پشتو میں چلا کر کہا، ’اسے
مارو‘۔ نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں
استعمال کی؟ کیا انہیں معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے؟ ان کے حکم پر سید اکبر
کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔ کیا تجربہ
کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے
کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے؟
اس کے بعد وردی اور سیاست نے مل جل کر کیا گل کھلائے وہ ہم سب کے سامنے
ہیں، ان میں سے چیدہ چیدہ کاذکر ہم کئے دیتے ہیں۔ پرانی باتیں نہیں کرتے
صرف پنجاب میں میاں شہباز شریف کی بنائی ہوئی سی ٹی ڈی کو ہی لیجئے، اب تک
سی ٹی ڈی کتنے افراد کو نگل چکی ہے، کتنے شہری لا پتہ ہو چکے ہیں اور کتنے
لوگ جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جا چکے ہیں!
مجھے افسوس ہے اپنے قلم اور اپنے جیسے لکھاریوں پر جو لاکھوں میل دور بیٹھ
کرمیانمار، فلسطین اور کشمیر کے درد پر تو قلم فرسائی کرتے ہیں لیکن اپنے
ہی گلی محلے اور اپنے وطن میں جاری بربریت پر لکھنے کے لئے ان کے پاس وقت
نہیں ہوتا، جو کشمیر اور فلسطین کے لئے تو کانفرنسیں کرتے ہیں لیکن سی ٹی
ڈی کے جرائم پر کوئی کانفرنس یا سیمینار منعقد نہیں کرتے۔
جب بھی کہیں ظلم ہوتا ہے اورعوام کی طرف سے ظالم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی
ہے تو سرکاری پیٹی بھائی مل کر ظالم کو بچا لیتے ہیں، زیادہ دور نہ جائیے
۲۰۱۷ میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر اورسیز پاکستانی ماں اور بیٹیوں کی FIA
کے عملے کے ہاتھوں بدترین پٹائی ہوئی ،پٹائی کی وجہ ایف آئی اے کے اہلکارکی
جانب سے اپنے ذاتی موبائل کے ساتھ خواتین کی ویڈیو بنانا تھی،احتجاج کرنے
پر ان بچیوں کو کمرے میں گھسیٹ کر لے جایا گیا اور مار مار کر بیہوش کر دیا
گیا،ان کی ماں سارے ائیر پورٹ پر مدد کے لیے پکارتی رہی بعد ازاں اس کی بھی
خوب پٹائی کی گئ ،ایف آئی اے کا مرد اسٹاف پیٹنے والے اسٹاف کو Support
فراہم کرتا رہا،ڈپٹی ڈائریکٹر FIA مظہر کاکاخیل نے ان اورسیز پاکستانی ماں
اور بچیوں کے خلاف FIR کاٹی اور ان کے والد کو معافی نامہ لکھنے پر مجبور
کیا…..یہ مظہر کآکا خیل خیبر پختون خواہ پولیس کاوە افسر ہے جو اسلحہ
خریدنے کے اسکینڈل میں ملوث تھا اور 2 ارب کے مالی غبن میں مطلوب تھا…پھر
اس نے 65 لاکھ NAB کو دیے اور ن لیگ کے ایماندار وزیر داخلہ چوہدری نثار نے
اسے اسلام آباد FIA میں انتہائی پرائس پوسٹ پر لگا دیااور پھر پچھلے بورڈ
میں اسے پروموشن بھی دی گئی- بعد ازاں سارا ملبہ ایک کانسٹیبل پر ڈال کر
بات ختم کر دی گئی۔
گزشتہ روز عینی شاہدین کا کہناہے کہ ساہیوال میں پولیس کی فائرنگ کا نشانہ
بنانے والی گاڑی لاہور کی جانب سے آرہی تھی، جسے ایلیٹ فورس کی گاڑی نے
روکا اور فائرنگ کردی جبکہ گاڑی کے اندر سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔عینی
شاہدین کے مطابق مرنے والی خواتین کی عمریں 40 سال اور 13 برس کے لگ بھگ
تھیں۔
عینی شاہدین نے مزید بتایا کہ گاڑی میں کپڑوں سے بھرے تین بیگ بھی موجود
تھے، جنہیں پولیس اپنے ساتھ لے گئی۔عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے فائرنگ
کے واقعے کے بعد زندہ بچ جانے والے بچوں کو قریبی پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا،
جہاں انہوں نے بتایا کہ ان کے والدین کو مار دیا گیا ہے۔اس کے بعد آئی جی
پنجاب امجد جاوید سلیمی کو یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ 'سی ٹی ڈی نے حساس ادارے
کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا، جس کے
نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔
ٹھیک ہے آج عوامی شور و غل بہت ہے لیکن یاد رکھئے یہاں بھی نتیجہ وہی نکلے
گا جو اسلام آباد ائیر پورٹ والے مسئلے کا نکلا تھا۔یعنی سی ٹی ڈی کو
محدود کرنے ، اعلی افیسرز پر ہاتھ ڈالنے یا اس وقعے کے پیچھے چھپے مجرم
دماغوں کو بے نقاب کرنے کے بجائے، لواحقین اور متاچرین سے ہی معافی نامے
لکھوائےجائیں گے ، انہوں تھانوں اور کچہریوں کے چکروں میں پسا جائے گا اور
بالاکر زیادہ سے زیادہ کسی ایک آدھ کالی بھیڑ کو قربان کر کے اس بے گناہ
خون پر پانی پھیر دیا جائے گا۔
ہمیں اس مرتبہ پانچ فروری کو قومی شعور کامظاہرہ کرنا چاہیے اور اس حقیقت
کو برملا کرنا چاہیے کہ کشمیر کیطرح ہم پاکستانی بھی ظلم، جبر اور استبداد
کے شکار ہیں، ہمارے ہاں بھی بے گناہ لوگ لاپتہ ہیں ، اقوام متحدہ کو اگر
کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نوٹس لینا چاہیے توپھر پاکستان
میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں خصوصا میاں شہباز شریف اور ان کی پالتو سی
ٹی ڈی کے جرائم کے بارے میں بھی تحقیقات کروانی چاہیے۔
اس مرتبہ پانچ فروری صرف یوم یکجہتی کشمیر نہیں بلکہ یوم یکجہتی پاکستان
بھی ہونا چاہیے، اس وقت جس طرح کشمیری تنہا ہیں اور انہیں یکجہتی کی ضرورت
ہے اسی طرح پاکستانی بھی تنہا ہیں اور انہیں بھی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔
ہم ایک طرف تو یہ ترانے پڑھتے ہیں کہ مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے اور
دوسری طرف اپنی ہی ائیرپورٹ پر اپنی خواتین کی پٹائی کی جاتی ہے اورننھے
منے بچوں کے سامنےان کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیاجاتا ہے۔ہمیں تسلیم
کرنا چاہیے کہ ہم ہی میں وہ کالی بھیڑیں ہیں جومجاہدین کے نام پر دہشت گرد
تیار کرتی ہیں اور پر امن شہریوں پر ظلم کر کے انہیں باغی بنانے کی کوشش
کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں وردی اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اس ساتھ کو سمجھنے
کے لئے عابی مکھنوی کے اس شعر کو سمجھئے:
پتھر سارے زنداں کی دیوار میں چُن کر حاکم نے
پاگل کتے چھوڑ رکھے ہیں ہم سب کی رکھوالی کو
|