پروفیسری ہمیشہ برائی کے لیے ہی کیوں

ہمارے پیچھے رہ جانے کے پیچھے ایک سبب ٹیلنٹ کا ہمیشہ منفی استعمال ہوناہے۔ہماری ڈاکٹری اور پروفیسریاں معاملات بنانے کی بجائے بگاڑنے میں زیادہ صرف ہوئیں۔ ٹیلنٹ برائے فروخت ہے۔مجرم اور قانون شکنوں کے لیے مہارتیں خرید لینا عام بات ہے۔یہ مہارتیں لاقانونیت کے نت نئے ٹوٹکے دریافت کرنے کے کام آتی ہیں۔۔کچھ لوگ بدکاروں کے وکیل ہونے کی شہرت بھی رکھتے ہیں کچھ بڑے نام آئین شکنوں کے دفاع کرنے والوں کے حوالے سے مخصوص پہچان رکھتے ہیں۔دینی حلقوں میں بھی کچھ حضرات من پسند فتوے دینے کی سہولت فراہم کرنے کا نیک کام سرانجام سے رہے ہیں۔ٹیلنٹ برائے فروخت ہے۔ قاتل کو بے گناہ ثابت کرنا ، ڈکیت کوشریف بنانا اور گنہگار کو معصوم پیش کرنا جیسی خدمات آسانی سے دستیاب ہیں۔ٹیلنٹ سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے اس سے بگاڑ کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے کا کلچر ہوتو پھر دنیا ہم سے کئی قدم آگے کیوں نہ نکل جائے۔نا م تو ریاست کا اسلامی جمہوریہ ہے مگر ٹیلنٹ کے الٹے استعمال کے سبب یہاں نہ تو پورے کا پور ا اسلام نافذ ہو پایا نہ کبھی جمہوریت بالادست رہی۔ٹیلنٹ ہمیشہ ان دونوں کی راہ میں حائل رہا۔اگر بھولے سے کوئی اصل جمہوریت اور اسلامی نظام کا نام لیتا نظر آیا تو اسے نشان عبرت بناکر رکھ دیا گیا۔جب تک یہ کم عقل بندہ راستے سے ہٹانہ دیا گیا ٹیلنٹ پوری طرح متحرک رہا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ڈراپ سین آنے کو ہے۔فریقین کی مصلحت کوشی کے سبب یہ معاملہ لٹکتاچلا آرہا تھا۔اب سپریم کورٹ کے حکم پر اس معاملے کی تفتیش کے لیے نئی جے آئی ٹی قائم کردی گئی ہے۔جس ؂پر شہداء کے لواحقین پورا اعتماد کررہے ہیں۔اس سے قبل تفتیش کے عمل سے فریقین کو تسلی نہ تھی۔دونوں طرف سے اس واقعہ کو الجھانے اور لٹانے کے الزامات لگائے جاتے رہے اب اس نئی جے آئی ٹی کی طرف سے کام شروع کیے جانے پرقائد عوامی تحریک پروفیسر طاہر القادری بڑے مطمئن ہیں ان کا کہنا ہے کہ نئی تفتیش سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے12ماسٹر مائنڈز پکڑنے میں مدد ملے گی۔سابق حکمرانوں نے سانحہ کی غیر جانبدارانہ تفتیش روکنے کے لیے آخری دم تک ریاستی طاقت کا ناجائز استعمال کیا۔

سابق حکمرانوں سے مراد مرکز او ر پنجاب کی سابقہ حکومتیں ہیں۔تب میاں شہبازشریف وزیر اعلی ٰ پنجاب تھے او ر میاں نوازشریف وزیر اعظم پاکستان ۔علامہ صاحب سابقہ حکمرانوں کو ذمہ دا ران گردانتے ہیں جبکہ دوسری طرف سے اس وقوعے کو منہاج القران انتظامیہ کی غفلت کہا جاتارہا ہے۔کہا گیا کہ اگر علامہ پروفیسر طاہرالقادری صاحب منہاج القران انتظامیہ کو اشتعال انگیز خطابات نہ کرتے تویہ وقوعہ نہ وقوع پزیر ہوتا۔جب بیرئیر ہٹانے کے عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے پولیس ماڈل ٹاؤن پہنچی تو طاہر القادری کے خطابات سے مشتعل ادارہ منہاج القرا ن کی انتظامہ نے پولیس کاروائی کی راہ میں مزاحمت کی ۔انہیں بیرئیر ہٹانے سے روکا گیا جس پر حالات بگڑے ۔پولیس کو فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔پہلے پہل افہام وتفہیم سے کام لینے کی کوشش کی۔جب منہاج القران انتظامیہ نے ہٹ دھرمی دکھائی توپولیس کے پاس سختی کرنے کے سوا کیا چارہ تھا۔حکومت اس سارے فساد کی جڑ پروفیسر طاہر القادری کی ریاست سے باغیانہ شعلہ بیانیوں کو قرار دیتی ہے۔جب یہ وقوعہ ہوچکا تو اس کے بعد بھی بجائے اپنی کوتاہی تسلیم کرنے کی بجائے اس واقعہ کومظلومیت کا پرچار کرنے کا ایک ذریعہ بنالیا۔ انہوں نے ایسا طریقہ اختیارکیا جیسے اس واقعہ کو جان بوجھ کر لٹکانے کے خوہشمند ہوں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل ذمہ داران کو سامنے لانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ہر بات کا ایک وقت ہوتا۔فریقین کی بدنیتی کے سبب یہ معاملہ لٹکا۔اب یہ معاملہ فریقین کی قدرت سے نکل چکا۔نئے ارباب اختیارات نئی ترجیحات کے حامل ہیں۔انہیں نہ منہاج القران کی انتظامیہ سے کچھ لینا دینا ہے نہ سابقہ حکمرانوں سے کچھ دلچسپی ۔تب طاہرالقادری کا بھی پورا زورتھا۔ یہ الگ بدقسمتی ہے کہ یہ زور معاملات سدھارنے کی بجائے مذید بگاڑنے میں صر ف ہوا۔یہ زور کبھی سیاست نہیں ریاست بچانے کی ہیجان خیزی میں لگا۔کبھی انقلاب مارچ کی آڑ میں ریاستی رٹ کو للکارنے کا سبب بنا۔ علامہ صاحب کی پروفیسری بڑے بڑے معاملات تک ہی رہی سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے چھوٹے معاملات ان کی ہنر مندی سے محروم رہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.