بھارت صدیوں سے سیکولر ملک رہا ہے۔اس ملک میں جب
بادشاہت کا دور تھا ، یعنی مسلمانوں کی اولین حکومت محمد بن قاسم سے لے کر
مغلوں کی آٹھ سو سال کی حکومت تک اور پھر کمپنی بہادر اور برٹش کی دو سؤ
برس کی حکومت کے درمیان کبھی بھی ان حکمرانوں نے
ا پنے مذہب کو اپنی حکومت کا بنیاد نہیں بنایا ۔ اس لئے کہ صدیوں سے یہ
تصور رہا ہے کہ جن ممالک میں بھی مخلوط آبادی ہو، مختلف مذاہب کے ماننے
والے ہوں ،وہاں اگر کامیاب حکومت کرنی ہے تو حکومت کو مذہب سے نہیں جوڑا
جانا چاہئے ۔بھارت کے مسلم حکمرانوں کا تعلق اسلام مذہب سے ضرور رہا ، لیکن
ان مسلم حکمرانوں کی حکومت کی پالیسی ہمیشہ سیکولر رہی اور صدیوں تک برسر
اقتدار رہنے والے مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی اپنے مذہب اسلام کی تبلیغ کے
لئے حکومت کے اثرات اور وسائل کا سہارا نہیں لیا ۔ مسلمانوں سے حکومت
چھیننے اور قبضہ جمانے والے انگریزوں نے بھی اپنے عیسائی مذہب کو اس ملک پر
مسلط کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی۔ ہاں چند ر گپت موریہ نے ضرور اپنے دور
حکومت میں اپنے جین مذہب کو حکومت کا مذہب قرار دیا تھا اور دوسرے راجہ
اشوک کا نام آتا ہے کہ اس نے بودھ مذہب کو حکومت کا مذہب نہ صرف تسلیم کیا
تھا، بلکہ اپنے بھائی مہندر کو پورے ملک میں حکومت کے خرچ پربودھ مذہب کی
تبلیغ کے لئے مامور کیا تھا ۔ان دو مثالوں کے علاوہ تیسری کوئی مثال اس ملک
میں ایسی نہیں ملتی ہے ۔یہی وجہ رہی ہے کہ ہمارے ملک بھارت کا صدیوں سے
سیکولر مزاج رہا ہے ۔ ہمارے ملک کو جب انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی ، تب
بھی آئین سازوں نے اس ملک کو کسی بھی حکومت کا مذہب نہیں بنایا ، بلکہ آئین
میں لفظ سیکولر یا سیکولرزم کی شمولیت کو بھی ضروری نہیں سمجھا گیا اور
آئین کے شق 15.1 میں بہت ہی واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ ’’ The state
shall not discriminate against any citizen on grounds only of religion,
race, cast, sex, place of birth or any of them " ـ ۔ آئین کے اس رو سے
ملک کے اندر مذہب ، ذات، صنف(سیکس)، جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی طرح
کی تفریق نہیں کی جائے گی ۔ برسہا برس تک آئین کے اس رو پر عمل بھی کیا
جاتا رہا اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا گیا کہ تمام مذاہب برابر ہیں ، کسی
مذہب کو بھی کسی دوسرے مذہب پر فوقیت حاصل نہیں اور ملک کے ہر شہری کو اپنی
پسند کا مذہب اختیار کرنے ، اسے ماننے کاحق حاصل ہے۔ لیکن آزادی کے کچھ
عرصہ بعد یہ محسوس کیا جانے لگا کہ ملک کے اندر فرقہ پرست عناصر سر ابھار
رہے ہیں اور ملک کے سیکولر کردار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ، ایسے
حالات میں یہ ضروری سمجھا گیا کہ ملک کے آئین میں لفط سیکولر کی شمولیت ہو۔
چنانچہ 1976 میں وزیر اعظم وقت اندرا گاندھی کی سربراہی میں آئین کی تمہید
میں 42 ویں ترمیم کے تحت لفظ ـ’’سیکولر‘‘ کو اس طرح شامل کیا گیا ۔ "
Secularism in india .....with the 42 nd Amendment of the contitution of
india enactedin 1976,the preamble to the constitution asserted that
india is a secular nation. However neither india's constitution nor its
laws define the relationship between religion and state."
دراصل سیکولرازم اور سیکولر کو مذہبی رواداری کی حد تک محدود نہیں کیا جانا
چاہئے ۔ بلکہ سیکولرازم کو آپسی خیرسگالی ، دوستی، محبت، اخوت اور قومی
یکجہتی کے معنوں میں بھی استعمال کیا جانا چاہئے کہ موجودہ وقت میں ، جس
طرح سے سیکولر اور سیکولرازم سے نفرت بڑھ رہی ہے ، غیر اعلان شدہ پابندی
عائد کی جا رہی ہے بلکہ انتہا تو یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ سیکولر اور
سیکولرازم کی جگہ راشٹر واد کو فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ اس کے پیچھے
منشا یہ ہے کہ کسی خاص طبقہ اور مذہب کے لوگوں کو حب الوطنی کے نام پر زد و
کوب کیا جائے ۔ انھیں خوف و دہشت میں رکھا جائے ۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج جو
لوگ بھی خود کو ملک کابہت بڑا خیر خواہ اور وطن پرست ثابت کر رہے ہیں ، ان
کی آزادی ہند کی تاریخ میں کہیں پر بھی ذکر نہیں ہے ، اس لئے ظاہر ہے ایسے
لوگ ، بقول شخصے نیا مسلمان پیاز زیادہ کھتا ہے ، کے مصداق ابھی نئے نئے
سامنے آنے والے حب الوطنوں کا ہے ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو آئین میں شامل الفاظ
سیکولر اور سیکولرازم کے معنٰی اور مطلب کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے ہیں ۔انھیں
معلوم ہونا چاہئے کہ سیکولر ہونے یا سیکولرازم کی تائید کرنے کا یہ قطئی
مطلب نہیں ہے کہ وہ لا مذہب یعنی کسی بھی مذہب کا ماننے والا نہیں۔ بلکہ
سیکولر ہونے والا اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والا اپنے پسندیدہ مذہب کا
پابند اور عقیدت مند رہنے کے ساتھ ساتھ دوسرے تمام مذاہب کو حقارت اور نفرت
سے نہ دیکھے ، بلکہ عزت و احترام کرے ۔ ملک کے بیالیسویں ترمیم میں اس نکتے
پر زور دیا گیا ہے کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے اور ملک کے آئین میں اور نہ
ہی قانون میں مذہب اور حکومت کے رشتہ کی تشریح کرتا ہے ۔یعنی اس ملک کے
آئین کے مطابق یہ ملک بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور اس ملک کی حکومت اور
مذہب کے درمیان کسی بھی طرح کوئی تعلق ہوگا ۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مضبوط اور ترقی یافتہ ممالک کے آئین اور قوانین
میں اس بات کا اعتراف بہت ہی واضح طور پرہے کہ ملک کا، حکومت اور مذہب سے
کسی طرح کا تعلق نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام جمہوری ممالک میں ہر شہری
کو اپنی پسند کا مذہب ماننے اور اپنے طور پر فروغ دینے کی آزادی ہے ۔ملک کی
حکومت کومذہب سے جوڑنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی ۔ امریکہ جیسے اتنے بڑے
جمہوری ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اس ملک میں مختلف مذاہب،ذات، سماج،
رنگ و نسل، رواج و رسوم کے لوگ بستے ہیں ، جنھیں ایک میلٹنگ پوڈ میں بدل
دیا گیا ہے ۔ بلا تفریق رنگ و نسل ہر شہری پہلے اپنے ملک کی ترقی، فلاح و
بہبود کو فوقیت اور اولیت دیتا ہے ۔ اگر کوئی سیاست داں ان راہوں سے بھٹک
کر الگ راہ چلنے کی کوشش کرتا ہے ، تو اس کے خلاف زبردست احتجاج اور مظاہرے
ہوتے ہیں ۔ امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن (1801-109)نے امریکہ کو آزادی
دلانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا تھا کہ ملک کی ترقی اس بات
پر مضمر ہے کہ ملک کو حکومت اور مذہب سے الگ رکھا جائے ۔ ان دونوں کے
درمیان کسی بھی طرح کاتعلق نہیں رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر ایسے ممالک
بشمول بھارت کسی بھی مندر، مسجد، چرچ، گرودوارہ،بودھ مٹھ وغیرہ میں ان
مذاہب کے عقیدت مندوں کی جانب سے دیئے گئے عطیات اور دیگر آمدنی کو ٹیکس کے
زمرے میں نہیں رکھا جاتا ہے ۔
لیکن ان دنوں جس طرح ملک کے آئین کو بدلنے اور خاص طور پر سیکولر کردار کو
ختم کرنے کی دانستہ کوششیں ہو رہی ہیں ، وہ بہت افسوسناک ہے ۔ ملک کے
اقتدار پر قابض رہنے اور اپنے خاص ایجنڈہ’ ہندوتوا‘ کے نفاذ کے لئے بہت ہی
منظم ، اور منصوبہ بند تریقے سے فرقہ واریت ، منافرت اور مذہبی جنون کو
بڑھاوا دینے والوں کو، ذمّہ دار منصب اور عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی حمائت مل
رہی ہے ، یہ لوگ درحقیقت مذہبی جنون یا پھر یوں کہیں کہ ملک کے اقتدار پر
قابض ہونے کے لئے اس قدر عجلت میں ہیں کہ انھیں ملک کے مستقبل کی بھی فکر
نہیں رہی ۔ کاش کہ یہ لوگ ماضی کی تاریخ کو سامنے رکھتے اور مطالعہ کرتے تو
انھیں اندازہ ہوتا کہ حکومت کا مذہب سے بے جا تعلق پیدا کر ، دوسر ے مذاہب
اور ان کے ماننے والوں کو آئے دن زد و کوب کر، منافرت بھرے نعرے لگا کر ،
ان مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کو طرح طرح دھمکیاں دے کر ، نوجوانوں
کو قتل کر ملک کی یکجہتی ، بھائی چارگی اور محبت کو ختم کر، ملک کے لئے
کوئی اہم کارنامہ انجام دے رہے ہیں ، تو نہ صرف ان کی بلکہ پردے کے پیچھے
بیٹھے ان کے آقاوں کی بہت بڑی بھول ہے ۔
افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اب آئے دن ملک کے سیکولر اور سیکولراز م کی بحث
چھیڑی جا رہی ہے ، ایک طرف تو ہمارے ملک کے نائب صدر جمہوریہ محترم وینکیا
نائڈو ایک مذہبی تقریب میں یہ اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ سیکولرازم تو اس
ملک کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ دوسری جانب ان کی حکومت کے ایک وزیر اننت
کمار ہیگڑے فرماتے ہیں کہ سیکولرازم کی بات کرنے والے کی ولدیت مشکوک ہے ۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نیتیش کمار جب لالو کی پارٹی ، راشٹریہ جنتا دل کو بائے
بائے کر جس پارٹی کو بہت بری اور فرقہ پرست پارٹی کہا کرتے تھے ، اس کی گود
میں جا بیٹھے ، او ر جب انھیں ہدف ملامت بنایا جانے لگا تو ، انھوں کہا کہ
انھیں اپنی سیکولرازم ثابت کرنے کے لئے کسی سے سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت
نہیں ہے ۔
اسی طرح ہمارے ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کوآئین کی تمہید میں 1976 ء
میں 42 ویں ترمیم کے ذریعہ ’’سیکولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ جیسے الفاظ کا شامل
کیا جانا بھی کافی بوجھ محسوس ہو رہا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ان الفاظ کا
سیاست میں غلط استعمال ہو رہا ہے، کیونکہ اس سے سماجی ہم آہنگی برقرار
رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان کے اس بیان سے حزب مخالف نے
سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ دراصل راج ناتھ سنگھ لفظ ’’سیکولر‘‘ کے معنیٰ
سے زیادہ اس لفظ کے اندر پوشیدہ جو جذبات اور روح ہیں ، ان سے وہ بہت
پریشان ہیں ۔ اگر ’’ سیکولر‘‘ اور’’ سوشلسٹ‘‘جیسے الفاظ بے معنیٰ ، بے مطلب
اور بے وقعت ہوتے ، تو اوّل تو انھیں 1976 میں آئین میں شامل نہیں کیا جاتا
، اور اگرشامل ہو ہی گیا تھا تو پھر 1977 میں جنتا پارٹی کی جو مرارجی
دیسائی کی سربراہی میں حکومت برسراقتدار آئی تھی ، جس میں اٹل بہاری باجپئی
اور لال کرشن اڈوانی جیسے دور اندیش اور ان ہی کے نظریہ کے حامی رہنمأ بھی
شامل تھے ۔ ان لوگوں نے ان دونوں الفاظ کو آئین سے کیوں نہیں حذف کرا دیا
تھا ۔ در حقیقت ہمارے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی پریشانی یہ ہے کہ ان کی
نظروں کے سامنے کھلم کھلا لفظ ’’سیکولر‘‘ کو معنوی اور جذباتی دونوں لحاظ
سے لہو لہان کیا جا رہا ہے ، لیکن یہ کچھ کر نہیں پا رہے ہیں ۔ آر ایس ایس
کی سخت گیری سے خوف زدہ اور مجبور ہیں ۔ کریں تو کیا کریں ۔ حکومت کے ایک
وزیر اننت کمار ہیگڑے فرماتے ہیں کہ سیکولرازم کی بات کرنے والے کی ولدیت
مشکوک ہے ۔
مشکل یہ ہے آج جو لوگ ملک میں بد امنی پھیلا رہے ہیں اور منافرت کو ہوا دے
رہے ہیں ، وہ اپنے ملک کی سنہری تاریخ سے واقف ہیں اور نہ ہی واقف ہونا
چاہتے ہیں ۔ میں مسلم مؤرخوں کی بیان کردہ تاریخ کی بجائے ہندو مذہب سے
تعلق رکھنے والے سیکولر ہندو تاریخ دانوں کے ،خاص طور پر حوالے دینا چاہتا
ہوں کہ یہ لوگ بپن چندرا،رومیلا تھاپڑ،تارا چرن،ہربنس مکھیا،راج کشور، بی
این پانڈے،رام چندر گوہا،پی سیتا رمیاوغیرہ کی لکھی تاریخ کا مطالعہ کریں ،
تو آنکھیں کھل جائینگی ۔لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کی سا لمیت سے مسلسل
کھلواڑ کر رہے ہیں اورانتہا یہ ہے کہ اگر کوئی پکّا ہندو مذہب کا ماننے
والابھی سیکولر اور سیکولرازم کی باتیں کرتا ہے ، وہ سیدھے ’دیش دروہ ‘
قرار دے دیا جاتا ہے ۔ دابھولکر، پنسارے ، گوری لنکیش وغیرہ جیسی سیکولرازم
کی علمبردار شخصیات کے خون میں ڈوبے سانحات ہمارے سامنے خوفناک شکل میں
سامنے ہیں کہ ان معصوم لوگوں کے ساتھ جیسا جابرانہ سلوک کیا گیا ، وہ کس
جرم کی پاداش میں کیا گیا ۔؟ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے
کہ ملک کو اگر ایک مثالی ملک بنانا ہے تو اس ملک کے سیکولر کردار کو ہر حال
میں بچانا ہوگا ، اور شکر ہے کہ اس ملک کی اکثریت اس سلسلے میں بہت سنجیدہ
ہے اور وہ سیکولرازم کو بچانے میں گالیاں اور گولیاں کھا کر بھی سرگرم عمل
ہے ۔
|