یہ سال 2019 ہے ن لیگ کی حکومت کو گئے ہوئے آٹھ ماہ
ہونے کو ہیں ۔ نگران سیٹ کے بعد پھر عمران کی حکومت کو آئے ہوئے بھی پانچ
ماہ سے زائد گزرچکے ہیں ۔ دبنگ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا دور بھی
تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔سانحہ ماڈل ٹاون میں ملوث پولیس افسران نئی سیٹوں
پر براجمان ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت نے عملی طور پر ثابت کیا کہ اُس کی گڈ
گورنس کس شے کا نام ہے؟ ناصر خان درانی کا پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کا
ٹاسک بیچ میں ہی رہ گیا ہے۔پولیس گردی اُسی طرح جاری ہے جس طرح پچھلی حکومت
میں تھی۔افسوس تحریک انصاف کی حکومت کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی۔تحریک
انصاف کے وزراء کی بیان بازی دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ وہ فاتح ہیں اور
پاکستانی قوم مفتوع۔ وہی تھانہ کلچر وہی لوٹ مار۔
اِسی لوٹ مار کا شاخسانہ یہ ہے کہ لاہور ساہیوال روڈ پر قادر آباد کے قریب
سی ٹی ڈی پولیس کی فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے میاں‘ بیوی، بیٹی اور
ڈرائیور سمیت چار افراد جاں بحق اور دو کمسن بچے گولیاں لگنے سے شدید زخمی
ہو گئے جبکہ پانچ سالہ بچی معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔ سی ٹی ڈی کے مطابق
اُسے اطلاع ملی تھی دہشت گردوں کا ایک گروہ کار میں ساہیوال کی طرف جا رہا
ہے جس پر قادر آباد کے قریب ناکہ لگا کر پولیس کی بھاری نفری کھڑی تھی کہ
لاہور کی جانب سے کار میں سوار چونگی امرسدھو لاہور کا خلیل احمد اپنے
خاندان کے ہمراہ اپنے بھائی رضوان کے بیٹے کی شادی میں بورے والا جا رہا
تھا۔ جب وہ قادر آباد کے قریب پہنچے تو سی ٹی ڈی پولیس نے گولیاں برسا دیں
جس کے نتیجہ میں خلیل احمد، اسکی بیوی نبیلہ، بیٹی اریبہ اور ڈرائیور صوفی
ذیشان مو قع پر دم توڑ گئے جبکہ مقتول خلیل کا بیٹا عمیر10سالہ اور7سالہ
بچی منیبہ گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گئے۔ سی ٹی ڈی پنجاب نے واقعے کی
ابتدائی رپورٹ آئی جی پنجاب کو پیش کی۔رپورٹ کے مطابق ساہیوال سی ٹی ڈی ٹیم
نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر ساہیوال میں جوائنٹ
انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک
چار دہشت گرد ہلاک ہوگئے جبکہ انکے قبضے سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد
برآمد کر لیا گیا۔ذرائع کے مطابق ساہیوال آپریشن میں ہلاک ہونے والے ایک
دہشت گرد کا نام ذیشان ہے جبکہ عدیل حفیظ فیصل آباد آپریشن میں ہلاک ہوا
تھا۔داعش سے منسلک اس نیٹ ورک نے ملتان میں حساس ادارے سے منسلک تین افسران
اور فیصل آباد میں ایک پولیس آفیسر کو ہلاک کیا تھاجبکہ امریکن شہری وارن
وائن سٹائن اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے
اغوا میں بھی یہی دہشت گرد ملوث تھے۔ اس کے علاوہ مذکورہ دہشت گرد متعدد
کاروائیوں میں درجنوں معصوم شہریوں کو شہید کر چکے ہیں اور یہ پنجاب میں
داعش نیٹ ورک کے سب سے خطر ناک دہشت گردوں میں شامل ہیں۔ ہوم سیکرٹری نے
ساہیوال واقعے کی تفتیش کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دیدی ہے۔ جے
آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی پولیس اسٹیبلیشمنٹ سید اعجاز شاہ ہونگے
جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیز آئی ایس آئی اور آئی بی کے ممبرز بھی اس جے آئی ٹی
کا حصہ ہونگے۔ میڈیا نمائندے جب جائے وقوعہ پر پہنچے تو پولیس نے نعشیں ہٹا
دی تھیں اور مبینہ طور پر ثبوت بھی مٹانے کی کوشش کی۔ سی ٹی ڈی کارروائی
میں زخمی ہونے والے بچے عمیرخلیل کا کہنا ہے ’’ہم اپنے گاؤں بورے والا میں
چاچو رضوان کی شادی میں جارہے تھے، فائرنگ میں مرنے والی میری ماں کانام
نبیلہ اور والد کا خلیل بہن کا اریبہ ہے‘‘۔ بچے نے مزید بتایا ’’ہمارے ساتھ
پاپا کے دوست ذیشان بھی تھے، جنہیں مولوی کہتے تھے۔
ساہیوال میں پیش آئے واقعے نے پوری قوم کر ہلا کر رکھ دیا ہے جس کے بعد
وزیراعظم عمران خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے شفاف تحقیقات کرنے کا حکم
جاری کیا ہے – مگر سوچنے والی بات ہے کہ گاڑی میں ایسا کیا تھا جس کی وجہ
سے پولیس نے ایسی حرکت کی – جی ٹی روڈ پر ادا قادر کے قریب فائرنگ کے واقعے
کے عینی شاہدین نے لرزہ خیز انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ گاڑی سے کوئی
مزاحمت ہوئی اور نہ ہی کوئی اسلحہ، اور نہ ہی دستی بم وغیرہ برآمد ہوا بلکہ
گاڑی سے صرف بیگ اور گھریلو سامان ہی نکلا جو پولیس والے اپنے ساتھ لے
گئے۔تفصیلات کے مطابق واقعے کے ایک عینی شاہد نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے
ہوئے کہا کہ ہم نے گاڑی سے کوئی اسلحہ برآمد ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایک اور
عینی شاہد نے بتایا کہ گاڑی میں سوار ایک عورت کی عمر 40 سال کے قریب لگ
رہی تھی جبکہ دوسری بچی کی عمر 12 سے 13 سال تک تھی جبکہ دو مرد بھی تھے۔
پولیس والوں نے گولی چلائی اور وہ مر گئے جس کے بعد گاڑی سے تین بچے نکالے
گئے جو زخمی حالت میں تھے اور پولیس والے اپنے ساتھ لے گئے۔ ایک اور عینی
شاہد نے بتایا کہ گاڑی لاہور کی طرف سے آ رہی تھی جس کے پیچھے ایلیٹ فورس
کی ایک گاڑی آئی اور فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں دو عورتیں اور دو
مرد مارے گئے جس کے بعد گاڑی سے تین بچے برآمد ہوئے جن میں سے ایک بچہ زخمی
تھا، گاڑی میں سوار افراد نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کی اور تمام
فائرنگ ایلیٹ فورس کی جانب سے ہی کی گئی، پولیس والوں نے گاڑی سے لاشیں بھی
نکالیں لیکن ہم نے کوئی اسلحہ برآمد ہوتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ گاڑی سے
کپڑوں کا بیگ اور اس طرح کا گھریلو سامان ہی برآمد ہوا۔
حکومت کواس واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیتے ہوئے پولیس نظام اور اس کے
ساتھ جڑے دیگراداروں میں اصلاحات کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں،تاکہ
مستقبل میں اس طرح کے دل دہلانے والے واقعات سے بچا جاسکے۔ساہیوال واقعہ
انتہائی افسوسناک ہے اور سی ٹی ڈی پر الزام ہے کہ انہوں نے بغیرتصدیق
کاروائی میں ایک خاندان کے افراد کو معصوم بچوں کے سامنے فائرنگ کرکے قتل
کردینا یقیناسنگین مجرمانہ فعل ہے۔اس واقعہ کے بعدمعصوم بچوں پرکیا بیت رہی
ہوگی؟ ان کے سامنے والدین کا قتل نہ صرف ایک ڈراؤنا خواب بنا رہے گا، بلکہ
ان کی پوری زندگی نفسیاتی کشمکش میں گزرے گی،ایسے معصوم نونہال جن کے سامنے
ان کے والدین کو قتل کیا گیا اور پھر ان کو زخمی حالت میں ایک پٹرول پمپ پر
چھوڑدیا گیا، اس سے بھی بڑھ کر سی ٹی ڈی نے ان افراد کو قتل کرنے کے بعد
دہشتگرد ٹھہرانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اپنی رپورٹ میں کالعدم دہشتگرد
تنظیم داعش سے تعلق بھی جوڑ دیا۔سی ٹی ڈی نے مزید قرار دیا کہ یہ
دہشتگردسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے اور امریکی شہری وارن اسٹائن
کے اغواء میں بھی ملوث تھے۔تاہم سی ٹی ڈی کی کارروائی کا پول اس وقت کھلا
جب عینی شاہدین نے مجرمانہ آپریشن سے پردہ اٹھایا اور جاں بحق افراد کے
ورثاء نے فیروزپورروڈ لاہور میں بھرپور احتجاج کیا،اس موقع پر اہل علاقے نے
میڈیا کوبتایا کہ جاں بحق افراد بے گناہ ہیں ہم ان کو جانتے ہیں وہ یہاں
35برس سے رہائش پذیر ہیں۔ساہیوال واقعہ یقینا ایک عام واقعہ نہیں ہے کہ اس
واقعے کی تحقیقات کو اسی تک محدود رکھا جائے۔بلکہ یہ واقعہ کئی سوالات کو
بھی جنم دے رہا ہے کہ سی ٹی ڈی کی ماضی میں دہشتگردوں کیخلاف کی جانیوالی
کاروائیاں حقیقت تھیں یا ان میں بھی معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیااورپھر
دہشتگرد بنا کرقوم کے سامنے پیش کردیا گیا۔ پنجاب حکومت کو چاہیے اس تمام
واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لے اورجس طرح زینب کیس کے ملزموں کا فوری
ٹرائل کیا گیا اس کا ٹرائل بھی اسی طرح ہونا چاہیے ۔
|