مدینہ کی ریاست کا قانون کیا تھا۔۔؟

سانحہ ساہیوال کے تناطر میں

انڈیا کے ایک ادیب مسلمان سے انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کہ آپ تقسیم ہند کے وقت پاکستان کیوں نہیں گئے تو انہوں نے کہا کہ :’’میں مسلمان مرنا چاہتا ہوں ‘‘پوچھا گیا: کیا مطلب۔؟ تو انہوں نے کہا کہ وہاں معلوم نہیں کون کب دہشت گرد یا کفر کا فتویٰ لگا کر مار دے،یہاں کوئی مارے گا تو کم از کم مسلمان ہی سمجھ کر مارے گا اور مجھے کافر نہیں، مسلمان ہی مرنا ہے۔
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
 

image


آج میرے وطن عزیز کے رکھوالوں نے اس کی حالت کچھ ایسی ہی کر دی ہے کہ گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ ناجانے کب کون کسے کیا کہہ کر ماردے۔

عزتیں محفوظ ہیں نہ جان ومال۔کیا مدینہ والے نے مدینے کی ریاست ایسی بنائی تھی ۔۔؟ نہیں ۔۔!
مدینے کی ریاست میں ہر کسی کو مارنے کی اجازت نہ تھی ۔!
دشمن کے بچے کے قتل پر بھی مدینے والے نے پابندی لگا رکھی تھی۔!
عورتوں اور بوڑھوں کو میدان جہاد میں مارنا ممنوع تھا۔!
جب تک جرم ثابت نہ ہو جاتا سزا نہیں دی جاتی تھی۔۔!
مجرم جب تک جرم کا اعتراف نہ کر لیتا حد نافذ نہیں کی جاتی تھی ۔!
شک کی بنیادپر کسی کو تعزیر ابھی سزا دینا جرم تھا۔۔!
جرم ثابت ہو جاتا تو چورکے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے اسے جیل نہیں ہوتی تھی۔!
زانی کو پتھر مار مار کر رجم کردیا جاتا تھا۔!
قتل صرف قصاص میں ،ارتداد میں اور شادی کے بعد زنا پر جائز تھا اور وہ بھی صرف جج اور قاضی کے سربازار فیصلہ سنانے کے بعد۔۔!
ہر کسی عہددار کو سزا دینے کا حق نہ تھا۔۔!
مدینہ کا والی یتیم بچوں کو روپے پیسے دے کر چپ نہیں کرواتا تھا بلکہ اسے کہا جاتا تھا کہ آج کے بعد اپنے آپ کو یتیم نہ کہنا آج کے بعد محمد ﷺ تیرے باپ اور عائشہ تمہاری ماں ہیں۔!

وزیراعظم صاحب!جی آئی ٹی بنا کر مجرموں کے جرائم کا پتہ ہی نہ لگائیں وہ تو اب تک سب حکومتیں کرتی آ رہی ہیں۔زینب کا باپ آج بھی اپنی معصوم زینب کے قاتل کو زندہ دیکھ رہاہے۔

آج سے ستر سال پہلے ہوئے قتل کے قاتلوں کی کھوج میں پولیس لگی ہے جبکہ قاتل سربازار آزاد گھومتا ہے۔ بس آپ مجرموں کو سزا دینے کا سوچیں ۔تحقیقات کے بیانات نئے نہیں ہر دور حکومت کے یہ انداز نرالے مشہور ہیں آپ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں ۔ریاست مدینہ میں ایک یہودی نے ایک بکریاں چراتی بچی کا سر پتھر سے کچل دیا تھا آپ سرکار دو عالم نے اسے پکڑوایا اور سب کے سامنے پتھر سے اس کا سر کچل دیا تھا۔جب مدینہ کے ایک دیہات میں کچھ لوگوں نے آپ ﷺ کے چرواہے کی آنکھوں کو پھوڑا پھر شہید کیا اور اونٹ لے کر بھاگ گئے تو آپ ﷺ نے ان سب مجرموں کو پکڑ کر ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلاخیں مار کر انہیں سربازار قتل کروایا ۔یہ مدینہ کی ریاست کے حکمران کے فیصلے تھے ۔
 

image


وزیر اعظم صاحب اور وزیر اعلی صاحب سانحہ ساہیوال میں یتیم بچوں کو والدین آپ واپس نہیں دے سکتے۔ خلیل اور ذیشان کی ماں کو ان کا بیٹا آپ نہیں لوٹا سکتے۔ خدارا۔! ان کے مجرم کو سلاخوں کے پیچھے نہیں سولی پر آپ ضرور لٹکا سکتے ہیں ۔اب اپنی بات کو سچ کرنے کا وقت ہے کہ آپ مدینے کی ریاست کی صرف بات کرتے ہیں یا واقعی اس پاک سرزمین کو مدینے کی ریاست بنانا چاہتے ہیں ۔

YOU MAY ALSO LIKE:

The Constitution of Medina (Dustūr al-Madīnah), also known as the Charter of Medina was drawn up on behalf of the Islamic prophet Muhammad shortly after his arrival at Medina (then known as Yathrib) in 622 CE[1] (or 1 AH), following the Hijra from Mecca.