سپریم کوٹ کی کمانڈ بدل چکی اب دیکھیں نئے چیف جسٹس کھوسہ
اپنے دور میں اس ادارے کا کون سا روپ متعارف کرواتے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے
ادارے کو ایک غیرروایتی امیج دیا تھا۔برائے فروخت اور ہر آنے والے کو سیلوٹ
کرنے والی عدلیہ نے اپنا وجود منوایا۔چوہدری کورٹ نے ایک ایسی عدلیہ کا
امیج دیا جو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہے موڑی نہیں جاسکتی تھی۔اس عدلیہ نے
اپنی طرف بڑھتے ہاتھوں کو توڑ نے کا حوصلہ دکھایا۔بدقسمتی سے جو رعب
اوردبدبہ مدتوں بعد عدلیہ میں پیدا ہواتھاوہ باقی نہ رہا۔معدوم ہوتے ہوتے
ثاقب نثار دور میں بالکل مٹ گیا۔چوہدری کورٹ بدمست اور خود سر سسٹم کو
کراری چوٹ دے گیاجبکہ ثاقب نثار کے اہداف اور منازل بالکل برعکس نکلیں۔جن
لوگوں کی نیندیں چوہدری کورٹ نے اڑائے رکھیں،ثاقب نثار کے فیصلے ان لوگوں
کو آکسیجن دینے والے ثابت ہوئے۔جو لوگ چوہدری کورٹ کو مضبوط کرنے میں لگے
رہے انہیں ثاقب نثار کورٹ کے دوران ہلکان ہونا پڑا۔نئے چیف جسٹس آصف سعید
کھوسہ خود کو ان کا جڑواں قراردیا ہے۔اس کے باوجود ضروری نہیں کہ عملاًبھی
ان کے سوا گیارہ مہینے کی چیف جسٹسی میں جسٹس ثاقب نثار جیسا ماحول
رہے۔اپنی نامزدگی پر انہوں نے وہ باتیں کیں جو ثاقب نثار دور کی ضد ہیں
مثلا یہ کہ صدر کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث کی ضروت ہے۔ہمیں بات
کرنی چاہیے کہ ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی۔ازخود نوٹس وہاں
لوں گا جہاں کوئی دوسرا حل نہ ہو۔فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل ساری
دنیا میں غلط سمجھا جاتاہے۔فوج کا سول معاملات میں دخل نہیں ہونا چاہیے۔سول
اداروں کی بالادستی ہونی چاہیے-
نئے چیف جسٹس کی باتیں بڑی اہم ہیں۔اداروں کے باہمی ٹکراؤ کو کبھی بھی اچھا
نہیں سمجھا گیا۔ہر آنے والے حکمران نے اداروں کو اپنے اپنے دائرے کے اندر
رہ کر کام کرنے کا مشورہ دیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی وہی باتیں کرہے
ہیں۔سابق وزیراعظم نوازشریف کے ان دنوں جیل میں ہونے کا سبب بھی یہی موقف
ہے۔ وہ ذرا یک ہاتھ آگے نکل گئے۔زیادہ تر حکمرانوں نے محض واہ واہی کے لیے
جمہوریت کی بالادستی کی بات کی درپردہ وہ غیر جموری قوتوں کے خدمت گارپائے
گئے۔نوازشریف ایسے نہیں ثٓبت ہوئے تاریخ کے واحد حکمران ہیں جن کی باتوں
اور عمل میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔اپنے تینوں ادوار میں وہ جمہوریت پر شب
خون مارنے والوں سے سے نبرد آزمارہے۔انہوں نے دوسرے مداریوں کی طرح تماشہ
دیکھنے اور دکھانے کی باوجودسنجیدگی سے معاملات بہتر کرنے کی کوشش کی۔اب
بھی وہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں۔اس کی پاداش میں انہیں ایک
بہتر حکمرانی کے باوجود الیکشن سے ہروایا گیا۔ان کی محنت کی ستائش کی بجائے
جیل ڈال دیا گیا۔دوسری تمام سیاسی جماعتیں بھی ووٹ کی بے حرمتی سے مشتعل
ہیں مگر کم ہمتی کے سبب بے حرمتی کرنے والوں کے آگے کھڑی نہیں
ہوپارہیں۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ یہ لوگ بجائے اس کے کہ نوازشریف کی دلیری کی
تعریف کریں۔انہیں درپردہ سپورٹ کریں الٹا انہیں بددل کرنے کی کوششیں کرتے
ہیں۔
نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اداروں کے لیے حدو د طے کرنے کے متمنی ہیں
مگریہ کام بڑا مشکل ہے۔وہ نوازشریف کی بدحالی سے اندازہ لگالیں،یہ آسان کام
نہیں اس کے لیے انہیں اپنی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرنا ہوگا۔وہ خود کو
ثاقب نثار کا جڑواں قرار دیتے ہیں۔اگرکھوسہ وہی فلسفہ اپناتے ہیں توجو ان
کے جڑواں نے اپنایا تھاتو پھر اداروں کی حد بندیوں کا تصور دیوانے کی بڑسے
زیادہ کچھ نہ ہوگا۔بھلا عدلیہ کے اپنے ٹاسک حاصل ہوچکے تھے کہ چیف جسٹس
ثاقب نثار پانی ۔بجلی، صحت جیسے حکومتی معاملات میں ہاتھ پھنساتے رہے۔
حکومتی محکموں کی غفلت میں کوئی شک نہیں ۔محکموں اور اداروں میں بلا کی
نالائقیاں ہیں مگر کیا ضروری نہیں کہ صر ف متعلق محکمے کی جھاڑ جپٹ ہی کی
جائے۔ثاقب نثار نے بجلی اور پانی کے لیے از خود تحریک چلاکر نامناسب فیصلہ
کیا۔اپنے عدالتی کاموں کا بوجھ ناقابل برداشت ہوچلا ہو اور آپ دوسرے محکموں
کے کاموں کا بیڑا اٹھاتے رہے تو یہ کیسی عقلمندی ہوگی ؟نئے چیف جسٹس اداروں
کی ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کے حق میں نہ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ان
کے جڑواں کی طرف سے جو طرزکار اختیارکیا گیا وہ کھلم کھلا انتظای امور میں
مداخلت قراردیا جاتارہاہے۔اگر آصف سعید کھوسہ نے اگر وہی راستہ اپنانا ہے
تو ان کے سوا گیارہ مہینے بے ثمر رہیں گے۔البتہ اگر وہ نوازشریف والا راستہ
اپناتے ہیں تو یہ سوا گیارہ ماہ سواگیارہ سال سے بھی لمبے ہوسکتے ہیں۔ثاقب
نثا ر نے اداروں میں عدم مداخلت کے سب سے بڑے داعی نوازشریف کو جس طرح
نشانہ مشق بنایا وہ ان کے قول وفعل کے تضاد کے لیے وجہ کافی ہے۔
|