عمران خان وزیرِ اعظم کی خدمت میں کھلا خط۔

یقینِ محکم تھا کہ وزیرِ اعظم صاحب کوتین ماہ پہلے پاکستان پوسٹ کےذریعہ بھیجا گیا خط ضرور مل گیاہوگا۔ مگرافسوس میرا یہ خط پچھلی حکومتوں کے نقشِ پرچلتے ہوئے لال فیتہ اور افسرشاہی کی نذر ہو گیا۔ اب یہی حل تھا کہ ایک شہری کے خیالات آپ کے ذریعہ تبدیلی لانے کا دعویٰ کرنے والی اعلیٰ قیادت تک پہنچ جائیں۔

جناب عمران احمد خان نیازی، وزیرِ اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

۱۔ میں آپ کی قوتِ ارادی، استقامت، بلندحوصلگی، مسائل و خطرات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے وقت عزمِ صمیم اور بلند نظری کا مظاہرہ کرنے پر سلام پیش کرتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہٗ شکر ادا کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے پر آپ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں ۔

۲۔ میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اب صرف عمران احمد خان نیازی نہیں ہیں بلکہ آپ پی ٹی آئی کے سر براہ اور پاکستان کے وزیرِاعظم سے بڑھ کر ایک عظیم مدبر سیاستدان ، بین الاقوامی معیار کے لیڈر اور دینِ اسلام سے محبت کرنے والی شخصیت بن کراُبھرے ہیں۔ آپ کے ہاتھوں میں پاکستان ،اس کے عوام اور امتِ مسلمہ کی تقدیر ہے۔

۳۔ جس تبدیلی کی بات آپ عرصہ ۲۲سال سے کرتے آئے ہیں در حقیقت وہ تبدیلی آ گئی ہے۔اب اندرونی اور بیرونی محاذ پر تمام تر مخالفت کے باوجود اسلام، پاکستان اورپاکستانی عوام کے لئے آپ نے بڑے بڑے فیصلے کرنے اور اُن پرعمل کرانا ہے ۔ یقیناَ اللہ تعالیٰ کی مدد اور پاکستانی قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

۴۔ انتہائی دکھی دل سے یہ بات آپ کے گوش گزار کرتا ہوں کہ مملکتِ خدا داد پاکستان کے حصول میں ہمارے آباء و اجداد نے بیشمار مالی اور جانی قربانیاں دیں (دو کروڑ مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، ۵۰ لاکھ مسلمان آزاد اسلامی ملک تک پہنچنے کی حسرت لیے جان کی بازی ہار گئے۔ ۰۰۰، ۶۳ سے زائد مسلمان عورتیں ہندوؤں اور سکھوں نے اغوا کر لیں)۔ ہم نے تو اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ آزاد ملک میں ہم اسلامی نظام قائم کریں گے، اپنی زندگی کتابِ ہدائت اور سیرتِ نبی ﷺ کی روشنی میں بسرکریں گے مگر افسوس یہ سب کچھ نہ ہوا۔ ۔ہم قرآنِ پاک کی عبارت، اس کے ترجمہ، مفہوم، فرامین و احکامات، اور احادیث اور سیرتِ نبی ﷺ سے نا بلد رہے ۔ اس کی بڑی وجہ ہر معاملہ میں مغرب کی اندھی تقلیداور مغرب سے درآمد کردہ نظامِ تعلیم اور درسی کتب کے ذریعہ ہماری نوجوان نسلوں کو اسلام، اسلامی نظریہٗ حیات ، اسلامی اقدار، اور مشاہیر اسلام سے دور کر دیا گیا۔ ہماری افسر شاہی اور حکمرانوں نے مجرمانہ حد تک تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا۔ اس کے نتیجہ میں معاشرہ میں کرپشن، بے راہ روی، جھوٹ، فرائض سے غفلت، عوام کے حقوق سے بے اعتنائی، اسلامی، ملی اورمعاشرتی اقدار کی پامالی عام ہو گئی۔
ہم سب معاشرتی بگاڑ کے شاکی ہیں مگر اصلاح کے معاملہ میں بے بس۔ تاہم اس خرابی کا سب سے بڑا تریاق موجودہ حکومت کے پاس ہے، جس کے سربراہ آپ ہیں۔

۵۔ میں آپ کے انتہائی قیمتی وقت سے چند منٹ لینا چا ہتا ہوں ۔ کچھ گزارشات آ پ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا:

تعلیم سے متعلق اقدامات

۶۔ ہمارے سکولوں اور کالجوں کے تعلیمی نصاب میں قرآن ، سیرت نبیﷺ کو سمجھنے اور معاشرتی خرابیوں کی بیخ کنی پر بہت کم زور دیا دیا گیا۔ ہم اس کمی کو یوں پورا کر سکتے :
۷۔ جمعتہ ا لمبارک کی تقریر اور نمازیوں کی تعداد: بڑے دکھ سے گزارش ہے کہ جمعۃالمبارک والے دن خطیب صاحب کی تقریر ختم ہونے سے۵ منٹ پہلے تک اگر ہم کسی بھی مسجد کا جائزہ لیں تومعلوم ہوگا کہ سکول ، کالج میں پڑھنے والے صرف چند ایک طلبا ہی اس ہفتہ وار دینی بیان سے فائیدہ اٹھا سکتےہیں۔ جبکہ بہت سارے طلبا ٹریفک کے رش کی وجہ سے گھردیرسے پہنچتے ہیں اوریوں مسجد نہیں پہنچ پاتے۔ اس طرح وہ اس سعادت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم جمعتہ المبارک کو ۳۰ ۔ ۱۱بجے تک لازمی چھٹی کر دیں اور اساتذہ کرام جمعۃالمبارک کی نماز پڑھنے پرزور دیں تو یقیناَ سار ے طلباء وقت پر مسجد میں جا کرجمعتہ المبارک کی تقریر سے فائیدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ اس طر ح اُن کے ایمان اور اخلاقیات پر اچھے اثرات پڑیں گے۔ معاشرہ میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئیگی ۔ مجھے امیدہے کہ اس سارے کارِ خیر کے ثواب میں آپ کابھی حصہ ہوگا۔

سکو لوں ، کالجوں میں قرآنی اور دینی تعلیم

۸۔ قرآ ن مجید کے ترجمہ کو آسانی سے سیکھنے اور سمجھنے کیلئے ایک نہایت ہی مفید اورآسان کتاب ترجمہٗ قرآن، مولفہ مولانا محمد آصف کاظمی صاحب ، پبلشر گابا سنز ، کراچی ہے ۔ اس کتاب کے شروع میں آسان عربی الفاظ بمع معانی، گرامر کی بنیادی باتیں درج ہیں ۔بعد ازاں ہر سورت کے مشکل عربی الفاظ کا بالکل سادہ اور آسان اردو ترجمہ دیا گیا ہے تاہم وہی لفظ جب کسی اور سورت میں دوبارہ آئے تو اُس کا ترجمہ نہیں لکھا گیا۔ ہر قسم کے مسلک سے پاک یہ کتاب کسی بھی مسلمان کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ صرف دو بار غورسے پڑھ لینے کے بعد جب وہ امام صاحب سے نمازمیں قرآن سنے یا خود قرآن پڑھے تو وہ سمجھ رہا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کیا فر ما رہے ہیں؟

۹۔ اساتذ ہ کرام کی تربیت: مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خوش الحان قراء حضرات کی مدد سے سمعی ،بصری اور جدید سہولیات کواستعمال کرتے ہوئے پہلے مرحلہ میں تمام اساتذہ کرام کو قرآنِ مجید کے ترجمہ، مطلوبہ قرآنی اور دینی تعلیم سے مزین کرنے کیلئے چھٹیوں میں ایک ماہ کی تربیت دی جائے اس کے علاوہ درج بالا ترجمہٗ قرآ ن بھی پڑھایاجائے تاکہ بعد میں و ہی اساتذہ کرام ان قراء حضرا ت کی مدد سے مسلم طلباء اور طالبات کو مطلوبہ قرآنی اوردینی تعلیم دیں سکیں۔

۱۰۔ قرآ ن مجید کو پڑھنے کے لئے با وضو ہونا ضروری ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ روز انہ پہلاپیریڈ یا پہلے دو پیریڈ اس کام کے لئے مختص کیا جائیں۔ تاہم اخراجات کم رکھنے کے لئے جامعات سے ایک یا دوپیریڈ کے لئے جز وقتی قراء حضرات کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

کلاس ۱ول سے چہارم : درجہ بدرجہ قرآنِ مجید ناظرہ پڑھایا جائے۔ اس کے علاوہ روز مرہ کے معمول کے لحاظ سے ضروری مسنون دعائیں، پہلی دس سورتیں بمعہ ترجمہ اور اخلاقیات اورمعاشرتی اقدار کی بہتری کے لئے متعلقہ قرآنی آیات، احادیث، سیرت النبی ﷺ سے ضروری مواد زبانی یاد کرایا جائے اور مشاہیر اسلام کے واقعا ت ِ زندگی بھی پڑھائے جائیں۔
کلاس پنجم سے کلا س ہشتم : تر جمہٗ قرآن کی ممکنہ تقسیم اس طرح ہے ۔ تاہم اساتذہ کرام مناسب ردو بدل کر سکتے :ہیں
کلاس پنجم: حصہ گرامر ، سور ۃ فاتحہ اور آخری دس سورتوں کا ترجمہ۔
۔ کلاس ششم : دہرائی کلاس پنجم ، ترجمہ سورۃ البقرہ
کلاس ہفتم : دہرائی کلاس ششم اور ترجمہ سورۃ آل عمران شامل ۔
کلاس ہشتم: دہرائی کلاس ہفتم اور ترجمہ سورۃالنساء سے سورۃ التوبہ۔
کلاس نہمِ : دہرائی کلاس ہشتم اور ترجمہ سو رۃ یونس سے سورۃ بنی اسرائیل۔
کلاس دہم: دہر ائی کلاس نہم اور ترجمہ سو رۃ کہف سے سورۃ النمل تک۔
فرسٹ، سکینڈ ایر: وزارتِ تعلیم اور وزارتِ مذہبی امور مل کر دونوں کلاسز کا سلیبس طے کریں ۔

۱۱۔ بھاری سکول بیگ: ہر سکو ل اپنی آمدن بڑھانے کی خاطر زیادہ سے زیادہ مہنگی اورغیر ضروری فالتو کتب و سکول نوٹ بک اور سکول یونیفارم پر زوردیتا ہے۔یوں ایک طرف والدین پر بلا وجہ معاشی بوجھ اور دوسری طرف بچوں کا بیگ بلا وجہ بھاری ہو جاتا ہے۔ کم عمری میں جبکہ بچوں کی ہڈیاں اور جوڑ کمزورہوتے ہیں اُن کو اوسطاَ ۷ سے ۸ کلو وزنی بیگ اُٹھانا پڑتا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہم اپنی نسلوں کو ویٹ لفٹنگ مقابلوں کے لئے تیار کر رہے ہیں۔

۱۲۔ کھیل کے میدان: پڑھائی کے ساتھ ساتھ جسمانی نشو و نما کیلئے طلباء و طالبات کے سکولوں میں پرائمری لیول پر کم سے کم ایک کنال اور مڈل لیول کے لئے دو کنال اورمیٹرک لیول پر آٹھ سے دس کنال کا پلاٹ کھیلوں کے لئے مختص ہو۔ تمام کالونیوں میں سکولوں، کالجوں کے لئے سستے داموں پلاٹ دیئے جائیں۔

ضعیف اور شہید اوراقِ مقدسہ و اخبارات

۱۳۔ اوراق مقدسہ : مساجد، مدارس اور سکولوں میں قرآنِ پاک،دینی کتب اور اسلایات کی درسی کتب کے ضعیف اور شہید اوراقِ مقدسہ کو با ادب دفنانے کا مناسب بندوبست کرنے کے لئے ہر قصبہ اور شہر کی سطح پر چند مساجد میں قرآن محل بنائے جائیں۔ ادارہ تحفظ قرآنِ پاک و اوراقِ مقدسہ پاکستان، جامع مسجد بی بی عائشہ ممتاز ، لنک روڈ نڑیاں، ایبٹ آبا د چھاونی( ۵۲۰۰۰۵۲۔۰۳۱۳) کے بانی پیر شیخ گل محمد مرحوم والد ڈاکٹر علامہ پیر نورالحق وفاقی
وزیر مذہبی امور سے مناسب رہنمائی لی جا سکتی ہے۔تاہم ان مساجد کو ماہانہ بنیادوں پر کچھ وسائل دیئے جائیں ۔

۱۴۔ مقدس عبارات اور اخبارات و رسائل: بڑے افسوس سے عرض ہے کہ قرآنِ پاک اوراحادیث مبارکہ کی عبارت اورترجمہ والے اخبارات اور رسائل کے کاغذات ردی کی صورت میں اکثر کیچڑاور کوڑا کرکٹ کا حصہ بنتے ہیں۔ اس طرح ہم مقدس عبارت اور ترجمہ کی تعظیم وتکریم نہ کرنے کی وجہ سے بحثیت قوم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں۔لہٰذااخبارات و رسائل میں قرآنی آیات، احادیث مبارکہ کی عبارت اوراُن کا ترجمہ وغیرہ چھاپنے پر یا تو پابندی لگائی جائے یاپرانے اخبارات و رسائل کو ردی میں بیچنے کی بجائے ریسائیکل کرکے گتہ یاکوئی اور مفید اشیاء بنائی جائیں۔

۱۵۔ کینسر اور پرنٹنگ کی روشنائی: عام مشاہدہ ہے کہ گرم گرم پکوڑے، پراٹھے، روٹی اور نان ردی کاغذ میں لپیٹ کر گاہک کو دیئے جاتے ہیں۔ جدید تحقیق سے ثابتہے کہ پرنٹنگ میں استعمال ہونے والی روشنائی معدہ میں جا کر دیگر بیماریوں کے علاوہ کینسر جیسی موذی مرض کاباعث بنتی ہے۔اخبارات و رسائل کے کاغذوں کا یہ استعمال سختی سے روکا جائے۔ بہتر ہے ردی کاغذات کو ری سائیکل کر کے کوئی مفیداشیاء بنائی جائیں۔

۱۶۔ رہائشی کالونیاں: نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ شہروں کے ارد گر د نہایت ہی زرخیز زرعی زمین پر نفع کے لالچ میں کھمبیوں کی طرح نئی نئی کالونیاں اُگ رہی ہیں جبکہ اس سے پہلے والی رہائشی کالونیوں میں سالوں سے بہت زیادہ پلاٹ خالی پڑے ہیں۔ضروری ہے کہ زرعی اراضی دشمن رجحان کو سختی سے روکاجائے۔ تاہم ہر کالونی میں کم از کم تین مساجد ( عام طور پر ایک مسجد اور وہ بھی ایک طرف، سب سے کم قیمت والی جگہ پر بنانے کا رجحان ختم کرنا ہوگا) ، سکول، دفاتر،کاروباری سرگرمیوں اورکھیلوں کے لئے جگہ مخصوص ہو ، بعد میں کسی بھی صورت میں صوابدیدی اختیارات کی آڑ میں تبدیلی کی گنجائش نہ ہو ( ایک سکھ انجینئرکے ہاتھوں پلان کردہ ماڈل ٹاؤن ، لاہور، ہمارے ٹاؤن پلانرز کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔) زمین کے ضیاع کو روکنے کے لئے ہر کالونی میں رہائشی پلاٹوں کا سائز اور فیصد تناسب یوں ہونا چا ہیے :

۵ مرلہ ۲۰ فی صد (رہائشی فلیٹ تین منزل سے زیادہ اونچے نہ بنائے جائیں، مسائل پیدا ہوتے ہیں)*
۶ مرلہ ۲۰ فی صد
مرلہ ۲۰ فی صد
۱۰مرلہ ۲۰ فی صد
۱۲مرلہ ۱۰ فی صد
۲۰ مرلہ ۱۰ فی صد
نوٹ : رہائش کے لئے بڑے بڑے پلاٹ اور گھر بنانے کا رجحان ختم کرنا ہوگا۔
شجر کاری مہم : یہ تو بہت اچھا ہوا کہ قوم میں شعور پیدا ہوا اور وسیع پیمانہ پر شجر کاری کی گئی۔تاہم اس کوشش کو مزید فعال بنانے کے لئے موٹر وے،نہروں اورپارکوں میں شجر کاری کے لئے سکولوں ،کالجوں، یونیورسٹیوں اور بڑےبڑے بڑے اداروں اور محکموں کو علاقے الاٹ کیے جائیں، ان کی مناسب دیکھ بھال کی بجائے۔ درختوں کی کٹائی اور گھاس اور زیر درختی کو صاف کرنے کیلئے آگ نہ لگائی جائے۔ ۔درخت علاقہ کے موسمیاتی حالات کے کو د سامنے رکھ کر لگائے جائیں۔۔ کم سے کم دو ، تین سال کاپودا لگایا پچھلے سال میں سے کتنے پودے بچ پائے اس کوبھی ذہن میں رکھا جائے۔ ہر سال شجر کاریکرنے والے اداروں کا مقابلہ کرایاجائے اور انعامات دیئے جائیں۔ بڑی بڑی سڑکوں کے درمیان میں ۲۰ سے ۳۰ فٹ چوڑی گرین بیلٹ اوردونوں طرف ۸۰ سے ۱۰۰ فٹ جگہ ہو جہاں درخت لگائے جائیں۔ انگریز نے تو کئی صدیوں پہلے سڑک کے درمیان سے دونوں طرف ۲۲۰ فٹ جگہ چھوڑی تھی۔ملک میں تمام موٹر وییز پر درمیان والی گرین بیلٹ میں سامنے سے آنے والی ٹریفک کی لائٹ سے بچنے کے لئے چھوٹے سائز کے درخت یاپودے لگائے جائیں۔ ہاں البتہ سڑک کے دونوں طرف جنگلے تک گرین بیلٹ میں پھل دار درخت لگائے جائیں کیونکہ مستقل جنگلہ کی وجہ سے پھل دار درختوں کی حفاطت بھی آسان ہے اور سڑک کی وجہ سے باؤزر کے ذریعہ پانی دینا بھی آسان ہے۔ ملک میں پھلوں کی بہت زیادہ بہتات ہو جائے گی۔

۱۸۔ حکومت کے اندر قادیانی افسران : پاکستا نی مائیں نہ ہی بانجھ ہوئی ہیں اور نہ ہی پاکستان کے مسلمانوں میں قابل، محنتی اور با صلاحیت افراد کی کوئی کمی ہے۔آپ کی حکومت کسی اہم عہدہ کے لئے کسی شخص کا چناؤ کرنے سے پہلے اُس کے بارے اچھی طرح چھان بین کر لے تاکہ بعد میں خفت نہ اُٹھانی پڑے۔ آپ کے مخالفین پہلے ہی اس انتظارمیں رہتے ہیں کہ اُن کو تنقید کا موقعہ ملے۔ آپ کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پچھلی حکومتوں نے خاص مجبوری سے قادیانی عناصر کی پشت پناہی کی۔ عوام نے اُن کی اِن حرکتوں کو بہت ہی برا سمجھا۔اُن کی یہی حرکت اُن کے جلد زوال کا سبب بنی۔ آپ ایسے عناصر کوکوئی بھی ذمہ داری دیتے وقت یا اُن کی پشت پناہی کرکے اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول ﷺ اور پاکستانی مسلمانوں کی ناراضگی سے ڈریں۔ نواز حکومت کا زوال کوئی دور کی بات نہیں ۔ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہمارے لئے نشانِ عبرت ہی تو بنا بیٹھا ہے۔
۱۹۔ یوٹیلٹی بلز : ہر گھرانے کو ہر ماہ تین سے چاربل ادا کرنے پڑتے ہیں۔ یہ بل مختلف تاریخوں میں آتے ہیں اور یوں بل کی ادائیگی کے لئے تین، چار دفعہ بینک یا پوسٹ آفس کا چکر لگانا پڑتا ہے۔ متعلقہ اداروں کو حکم دیا جائے کہ ہر ماہ کی دس تاریخ تک بل صارفین تک پہنچ جائیں اور بغیر جرمانہ ادائیگی کی تاریخ بیس مقرر جائے۔ اس سے صارفین غیرضروری انتظار اور بل جمع کرانے کے لئے بار بار چکر لگانے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ ہر بل میں مختلف مدآت کے تحت جو رقم کاٹی جا رہی ہے اس کا بھی از سرِ نو جائزہ لیا جائے۔ اس سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔

۲۰۔ بجلی کی قلت ، بڑے بڑے بل بورڈ، ہورڈنگ اور نیوئن سائن : ملک میں بجلی کی سخت قلت ہے۔ جب ا ن بڑ ے بڑے بل بورڈ، ہورڈنگ اور نیوئن سائن کی مددسے مشہور کی جانے والی مطلو بہ اشیاء کو کئی بار دن کی روشنی میں بے شمار لوگوں نے دیکھ لیا تو کیا ضروری ہے کہ ان اشیاء کی بجلی کے قمقموں کی مدد سے ساری ساری رات مشہوری کی جائے۔ میرے خیال میں بجلی کے ذریعہ رات کی مشہوری پر پابندی لگا د ی جائے۔ بجلی کی بہت زیادہ بچت ہوگی۔

بے لگام نیوز چینلز

۲۱۔ اکثر نیوز چینلز کے بزرجمہر اینکر پرسنز نے اپنے طور پر فرض کر لیا ہے کہ ان کا شمار ملک کے دانش ور طبقہ میں ہوتا ہے۔ واجبی سی تعلیم، کم تجربہ ، مسلمان معاشرہ کی اقدار سے نا بلد، بات چیت کے آداب سے عاری مگر قینچی کی طرح تیز چلنے والی زبا ن کے حامل ان افراد سے کسی بھی مسلۂ پر بات کروالیں، لال بجھکڑ کی طرح ہر مسلۂ کا بہترین حل ان کے پاس ہوگا۔ مگرافسوس ہے کہ زیرِ بحث عنوان کے بارے بے نتیجہ ، بے سر و پا اور فضول بات چیت پر صرف وقت ضائع کر رہے ہونگے، بحث کو کبھی بھی منطقی انجام تک نہیں لیکر جائیں گے۔ ملکِ پاک کے اردگرد حالات سے بالکل لا تعلق ان چینلز کے متعلقہ ذمہ داران اور اُن کے چہیتے اینکرپرسن اپنے آپ میں مست چھوٹے چھوٹے اور فضول قسم کے موضوعات پر بات کرتے تھکتے نہیں ۔ ایسا لگتا ہے ان چینلزکے مالکان، اینکر پرسن اور پسند کے بلائے ہوئے تجزیہ نگاراور مہمان، سب ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔

۲۲۔ ان کا سب سے اہم کام کہ عوام کی فکری، ذہنی صلاحیتیوں کی آبیار ی کرنے کی بجائے ان پروگرامز کے ذریعہ عوام میں خلفشار اور مایوسی پھیلائی جائے ۔ اس کے علاوہ ساتھ ہی ساتھ ذہنی عیاشی اور ملکِ پاکستان کو لبرل بنانے کے طے شدہ پروگرام پر عمل کرتے ہوئے ،لچر قسم کے ڈائیلاگ، عریانی ، برائے نام کپڑوں میں ملبوس نوجوان لڑکیوں، لڑکوں کی اوٹ پٹانگ حرکات، اچھل کود، اور بعض اوقات ایک دوسرے کو بلا جھجک چھُونے، پکڑنے سے بھرپور فحش اشتہارات ( جب کہ پیش کی گئی چیز کا اس اشتہار سے بہت کم تعلق ہوتا ہے) کی بھرمار کے ذریعہ نئی نسل کے اخلاق کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک بہت بڑی سازش ہی تو ہے۔ اس کے علاوہ معمولی جرم سے متعلق واقعہ کو بریکنگ نیوز کے طور پر جس تواتر سے پیش کیا جاتاہے اس سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستانی بحثیت قوم جرائم کی دنیا میں اول نمبر پرہیں۔ میڈیا کا قبلہ درست کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ پیمرا کا سربراہ ایسا شخص ہونا چاہیے جو محبِ وطن ہواور وہ اسلام ، نظریہٗ پاکستان اور اسلامی اقدار کے خلاف کچھ بھی نشر کرنے کی اجازت نہ دے۔

۲۳۔ اِ نشا ء اللہ تعالیٰ پاکستان تا قیامت قائم رہے گا۔ہم سب اپنااپنا حصہ ڈالنے کے مکلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا اور آ پ کی ٹیم کاحامی و ناصر ہو۔

Sarwar
About the Author: Sarwar Read More Articles by Sarwar: 66 Articles with 57801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.