سحر ہے کہ نہیں ہے ؟

 قیام پاکستان سے پہلے ہی یہ طے کر لیا گیا تھا کہ پاکستان میں وہی نظام زندگی اور طرز حکومت رائج ہوگا جس کا حکم اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے جس کا عملی نمونہ ہمارے پیارے نبی ّ کی سیرت ہے تاکہ مسلمانوں کا جداگانہ تشخص قائم رہے اور اسی کو ہی نظریہ پاکستان کا نام دیا گیا تھا ۔ بے شک نظریہ ہی کسی قوم کی شناخت ہوتا ہے اور نظریاتی مقاصد کے حصول میں پرخلوص قیادت ہی معاون ثابت ہوتی ہے ۔سربراہان ملت کی اوللعزمی ،مستقل مزاجی اور شب و روز کی تگ و دو اقوام کو بنانے اور مٹانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمان اس مقصد کو بھلا چکا ہے جس کا حکم قرآن پاک میں دیا گیا ہے ۔مزید برآں جنھیں اس نظریے پر عملدرآمد کرنا اور کروانا تھا وہ مغربی چکا چوند، ہوس اقتدار ،دنیاوی مفادات اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں اسقدربدحال ہیں کہ آخرت کو فراموش کر چکے ہیں ۔سیاسی شعبدہ بازیاں تو عام ہیں مگر مذہبی جماعتوں کے سربراہان کا طرز عمل بھی سوالیہ نشان ہی رہا ہے کہ حالیہ الیکشن میں کامیابی کے لیے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قائم کی گئی 5 دینی جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی متحدہ مجلس عمل ایک بار پھر ٹوٹ چکی ہے ۔مذہبی جماعتوں کا اتحاد مشرف دور میں سامنے آیا تھا لیکن اس وقت عوام کی طرف سے پذیرائی اور سیاسی میدان میں بھی کامیابی ملی تھی کیونکہ عوام الناس پر قیادت کے اخلاص اور طرز حیات کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی مگر اب کے متحدہ مجلس عمل کا بننا اورٹوٹنا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ سچ کے لیے اٹھائی گئی آواز ہو ، فحاشی کے خلاف چلائی گئی مہم ہو یا سیاسی میدان کے شعبدہ بازوں کو بے نقاب کرنیکا عمل ہو سبھی میں اکثریت کا ایجنڈا یہی ہے کہ :
اس شرط پہ کھیلونگی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ،ہاروں تو پیا تیری

دینی زعماء کے اسی قول و فعل میں تضاد کیوجہ سے عوام نے انھیں انتخابات 2018 میں مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا کیونکہ عوام جان چکے ہیں کہ کچھ لوگ دین کے نام پر مختلف متنازعہ مسائل کا پراپیگنڈہ کر کے عوام کے درمیان نفرت اور دوری پیدا کرتے ہیں اور پھرگروہی اعتماد حاصل کرنے کے بعداپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں بنا لیتے ہیں۔ اﷲ اور نبی ؐ کے نام پر لا محدود فنڈز، چندے اور نذرانے اکٹھے کرتے ہیں اور پیسے کا بے دریغ استعمال کر کے سیاسی عہدہ بازی کے حصول کی جنگ لڑتے ہیں یہاں تک کہ دلکش عہدوں کے حصول کے لیے اپنے اپنے متنازعہ ایجنڈوں پر غیر مشروط اتحاد بنا لیتے ہیں اور جب کبھی ممبر رسول ؐپر جا کر اپنی اپنی مساجد میں کھڑے ہوتے ہیں تو وہی منافرت اور فرقہ واریت کا درس دیتے ہیں۔ اسی تضاد بیانی کیوجہ سے سیاسی شعبدہ بازوں کے حوصلے بھی بڑ گئے ہیں اور اب سیاست خدمت نہیں لوٹ مار بن چکی ہے لیکن اب تو شاید یوں لگتا ہے کہ ایک عرصہ یہ مذہبی سیاسی شعبدہ بازیاں نہیں چل سکیں گی ۔

ستر دہائیاں ہو گئیں مگر مذہبی یا سیاسی جماعتوں میں سے کوئی ایسا شخص سامنے نہیں آسکا کہ جس میں درست سمت کا تعین کرنے کی اہلیت ہوتی جو کہ اس بکھرے انبوہ کو لشکر جرار کی سطوت عطا کرتا اور گروہوں میں بٹے افراد کو ایک قوم بناتا۔ جس مقصد کے لیے یہ وطن حاصل کیا گیا تھا یعنی اسلام کے ایسے مضبوط قلعہ کی بنیاد رکھتا کہ پاکستان درحقیقت دنیا کی دوسری بڑی اسلامی ریاست بن کر ابھرتا ۔ہر آنے والا اسلامی فلاحی ریاست کا نقشہ کھینچتا رہا مگر اپنی مدت اقتدار کو اقربا پروری ،کرپشن اور اپنامستقبل محفوظ بنانے میں گزارا ۔۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے ستر برس پرانے موروثی سیاسی نظام کو توڑتے ہوئے جناب عمران خان کی قیادت پر بھرپور اعتماد دکھایا اور تبدیلی کے وعدوں پر ایمان لے آئے مگر جناب وزیراعظم نے نظریاتی جانثاروں کو نظر اندازکر کے مشرف کابینہ کے اراکین پر اعتماد کیا اوروہی گھسا پٹا نظام دوبارہ کھڑا کر دیا ہے اور سوال کرنے پر کہا جاتا ہے کہ :’’کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے ۔۔سوال ہی سارے غلط تھے ہم جواب کیا دیتے ‘‘۔

خیر درج بالا ریاستی مقاصد تو عام ریاستی ضروریات ہیں جبکہ تبدیلی سرکار نے تو ریاست مدینہ بنانے کا دعوی کیا تھا ۔۔ریاست مدینہ ۔۔؟جس کا ٰخیال آتے ہی نبی کریم ؐ کی مثالی طرز حکمرانی اور پھر خلفائے راشدین کی حکومتی اصلاحات اور عدل و انصاف ذہن میں ابھرنے لگتا ہے کہ وہ حکمران جن کے گزرنے پر شیطان بھی اپنا راستہ تبدیل کر لیتا تھا وہ پھر بھی عوامی کٹہرے میں کھڑے ہونا اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتے تھے بلکہ ہمہ وقت خود احتسابی کے لیے تیار رہتے تھے اور ایک ہمارے حکمران ہیں کہ پہلے میاں صاحب واویلا مچاتے رہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا ‘‘ اور اب۔۔حال ہی میں فواد چوہدری نے کہا ہے کہ نیب کا وزیراعظم سے سوال کرنا وزیراعظم کی توہین ہے ۔۔ایسے ہی جارحانہ رویوں کی وجہ سے عام تاثر یہی ہے کہ تبدیلی کے دعوے ہوائی قلعے ثابت ہو رہے ہیں کہ کچھ بھی منفرد اور دلفریب نہیں ہوا بلکہ حسبِ روایت غیر حقیقی وعدے فائلوں کی نظر ہو گئے ہیں ۔سربراہان کشکول اٹھائے شاہوں کے آستانوں پر بھٹک رہے ہیں اور عوام بجلی ،پانی ،گیس اوراشیائے ضروریہ کے لیے سسک رہے ہیں ۔پورا ملک سخت سردی کی لپیٹ میں ہے کہ دھند کا راج ہے اور حکومتی اور غیر حکومتی ترجمانوں کے اندھا دھند غیر مہذبانہ رویوں نے تبدیلی کے خواہشمندوں پر سکتہ طاری کر رکھا ہے کہ حلیف بھی کہنے پر مجبور ہیں :’’اپنے قولِ وفا کو بھول گئے ۔۔ تم تو بالکل خدا کو بھول گئے‘‘ ۔۔!!!

فکر کی بات تو ہے کہ تحریک انصاف جو کہ عوامی نمائندہ حکومت تھی اس کا کوئی واضح اصول یا منشور نظر نہیں آرہا بلکہ بے ہنگم طریقے سے امور مملکت کو گھسیٹا جا رہا ہے ۔ہر فیصلہ ’’یو ٹرن ‘‘ کا متقاضی ہوتا ہے ۔ ہر بیان پر معذرت اور ہر عمل پر شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے مگر ڈھٹائی سے غیر دانشورانہ مثالوں کے ذریعے قوت فیصلہ کی کمی کادفاع کیا جا تا ہے اور اپنے غلط طرز عمل پر ماضی کے حکمرانوں کے قصے بیان کئے جاتے ہیں پہلے پہل جناب وزیراعظم نے دوست ممالک سے ملنے والے امداد کی مد میں قرضوں سے یوں ظاہر کیا تھا کہ مذکورہ تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور امید کی کرن بھی نمودار ہوگئی تھی لیکن ہر چیز پر ٹیکس اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو دیکھتے ہوئے عوام الناس یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ سعودی عرب ، چین اور متحدہ عرب امارات سے ملنے والی امداد ی رقوم کہاں ہیں اور کہاں خرچ کی گئی ہیں ۔۔؟ اگرچہ دعوے بہت تھے مگرکرپشن کیسسز کا راگ آلاپنے اور امدادی چیک اکٹھے کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ۔

اگر احتساب کی بات کی جائے تو ایک ہی خاندان کا احتساب بھی سوالیہ نشان تھاجو مذید الجھ چکا ہے کہ میاں نواز شریف کو جس مبینہ الزام پر نااہل کیا گیا ،دس سال قید با مشقت سنائی گئی اس سے بری کر دیا گیا اور اب سات سال قید بامشقت سنا کر مزیدحیران کر دیا گیا جوکہ مبینہ طورپر میاں صاحب کے بہترین طرز عمل سے مذید کم ہو جائے گی ۔۔ گمان ہے کہ ضمانت بھی ہو جائے گی جبکہ انسانی حقوق کے چارٹر کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بحیثیت انسان سبھی انسان برابر ہیں اور جرمیات کے ضمن میں یہ طے کر لیا گیا ہے کہ قومی مجرم سب سے بڑا گنہگار ہے ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر سزاؤں کو کسی تخصیص کے ساتھ معاف ہی کرنا ہے تو مثالی طرز عمل کے لیے قیدیوں کو خصوصی وعظ و نصیحت کر کے ان کی سزاؤں کو کم سے کم وقت میں پورا کر کے ان پہ رحم و کرم کیا جائے اور ان کے گھرانوں کی دعائیں لی جائیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو کہ وہ دوبارہ معاشرے میں جا کر اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر سرگرم عمل ہو جائیں یوں لگتا ہے کہ جیسے انصاف کو خاص اور عام کے ساتھ مذاق بنا دیا گیا ہے ۔اگر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ اسی طرح کا ہی سلوک کرنا مناسب ہوتا ہے تو ملک و قوم ، اداروں اور وسائل کا نقصان کرنے والی عدالتوں کا بھی سر عام احتساب کرنا مناسب ہوگا کیونکہ قانون اور انصاف کوئی’’ تماشا‘‘ نہیں ہے کہ جس کے بارے آخری رائے یہ کام کی جا سکے کہ جو کچھ ہوا وہ صرف انتقامی کاروائی تھی ۔جو پھانسی گھاٹ پر لٹکا وہ اتنا گنہگار نہ تھا جتنی سزا پا گیا ۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان ان لوگوں کی جا گیر ہے جو خود کو’’ سیانا سیاستدان‘‘ سمجھتے ہیں ۔ یہ ملک اور عوام ان کے ہاتھوں کھلونا ہیں ،جمہوریت ان کے لیے اپنے مفادات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔یہ کونسا طرزحکومت ہے کہ عوام پر حکومت تو عوام کے نمائندگان کی ہو مگر نمائندگان ایوانوں میں عوام کی بجائے اپنے پیٹ بھرنے پر ڈٹے رہیں ۔اب وہ وقت آگیا ہے کہ یا تو’’ جمہوریت گڈ گورننس ‘‘قائم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی یا اس بات پر اجتہاد کرنا ہوگا کہ کونسا ایسا نظام حکومت لایا جائے جو اسلام کے بنیادی تقاضوں کے عین مطابق ہو اور زندگی کے جدید تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہوا ملک کے باسیوں کی زندگی کو ہر طرح کی آسودگی عطا کر سکے ۔۔!اگر ہماری مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت اور اعلیٰ عدلیہ اس طرف توجہ کریں اور حکومت کی زیر پرستی سیمنارز کروائیں جن سیمینارز کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا ہو کہ اب تلک ہمارے ملک میں جو نظام رائج رہے یا ہیں وہ کہاں تک ہمارے حالات اور ہمارے سیاستدانوں کے حربوں کے مطابق مناسب یا نا مناسب ہیں اور ان میں کونسی ترامیم ہونا اشد ضروری ہیں ۔

یہ طے ہے کہ آج کے رائج نظام کے مطابق یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی ایسا قانون متفقہ طور پر وجود میں آجائے کہ جس کا مقصد ملک میں اسلام اور مکمل طور پر عوامی فلاح ممکن ہو سکے۔تبدیلی سرکار نے دعوی تو کیا تھا لیکن پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی صورتحال انتہائی گھمبیر ہے کہ ہر قسم کا کاروبار جمود کا شکار ہوچکا ہے ۔ مارکیٹس سنسان ہیں کوئی گاہک دکھائی نہیں دیتا اور اگر ہے تو مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے ۔بجلی ، پانی ،گیس اور ادویات کی قیمتوں میں پندرہ فیصداضافہ کر دیا گیا ہے اور چینی دس گنا مہنگی ہو گئی ہے ۔الغرض افراط زر کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسوں کے نام پرلوٹ مار کا ایسا بازار گرم ہے جس کی پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہے یقینا فلاحی جمہوری ریاستوں میں انکم ٹیکس اور دیگرٹیکسوں کے لیے مربوط نظام رائج ہے اور بنیادی طور پر ٹیکسوں کا حصول اسی لیے ہوتا ہے کہ مخیر حضرات کو نادار افراد کی مالی معاونت میں شامل کیا جائے ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ معمولی سبزی فروش بھی ٹیکس ادا کرتا ہے اور ہمیشہ سے کر رہا ہے مگر اشرافیہ نے ہمیشہ ٹیکس سے راہ فرار اختیار کی ہے تو اب اگر ملکی خزانہ خالی ہے تو اس میں عام آدمی کا کیا قصور ہے ، اس پر زمین کیوں تنگ کی جا رہی ہے؟
 
ہر ذی شعور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا یہ وہی تبدیلی کے دعوے دار ہیں جو غریبوں کے لیے مسیحائی کا علم لیکر نکلے تھے اور ماضی کے حکمرانوں کی سفاکیت ،رعونت اور فرعونیت پر ’’استغفراﷲ ‘‘پڑھتے تھے ۔صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور اس پر حکومتی وزراء کا غیر مہذبانہ رویہ لمحہ فکریہ ہے ۔کیا یہی وہ تبدیلی ہے جس کا انتظار تھا ۔۔؟روز اول سے کہا جا رہا ہے کہ جناب وزیراعظم کو اپنی کابینہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اہل افراد کو ذمہ داریاں سونپنی چاہیے ۔۔بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ حسبِ روایت وفاداروں کو نواز دیا گیا بنا بریں تحریک انصاف حکومت کا گراف لمحہ بہ لمحہ گر رہا ہے ۔

بہر کیف یہ کشیدہ حالات متقاضی ہیں کہ برسر اقتدار زعماء اور کرتا دھرتا نظریہ پاکستان کو نشان منز ل سمجھتے ہوئے اپنی سمت متعین کریں کیونکہ ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا ‘‘ !اگر گھر میں ڈکیتی ہو جائے تو گھر کا سربراہ ڈکیتی کے پیسوں کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا رہتا بلکہ اگلے روز پہلے سے زیادہ تندہی سے کاروبار زندگی شروع کر دیتا ہے کیونکہ گھر کو چلانے کی ذمہ داری اور نقصان کی بھرپائی کا خیال اس کی نیندیں اڑا دیتا ہے جبکہ یہ تو بیس کروڑ افراد کی زندگیوں کا معاملہ ہے لیکن کرپشن بیانات سے دن کا آغاز ہوتا ہے اور انھی پر اختتام ہو جاتا ہے ۔۔لہذا مناسب یہی ہے کہ خوشامدیوں سے جان چھڑوا کر عوام الناس کے مسائل سنیں اور تنقید کو اپنے لیے اصلاح سمجھیں ، بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کریں، عوامی ریلیف کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کوئی واضح حکمت عملی تیار کریں ، بیروزگاری کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کے لیے میرٹ کو یقینی اور حقیقی بنائیں اور بیروزگار اور بے گھر ہونے والوں کے لیے متبادل روزگار کا اہتمام کریں ،ٹیکسوں کے نظام کو بہتر کریں لیکن ہر چیز پر ٹیکس لگا نے کی روش کوبدلیں کہ منی بجٹ آرہا ہے تو ’’ہتھ ہولا رکھیں‘‘ اور بد دعاؤں سے بچیں۔ چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عزتوں کے لٹیروں کو نشان عبرت بنائیں ،معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور فحاشی کی سرزنش سے کچھ نہیں ہوگا بے لگام مارننگ شوز اور دیگر ڈراموں کو جو شرم و حیا کے پردے اتار رہے ہیں ان کو لگام ڈالیں ۔عوام الناس کو ارزاں قیمتوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کو یقینی بنائیں اور حکومتی ترجمانوں کے لیے بھی کوئی حد مقرر کریں کہ معاشرتی اخلاقی زوال نسلوں کو تباہ کر دیتا ہے اور عدم برداشت برسر اختلاف کو جچتا ہے برسر اقتدار کو برداشت لازم ہے کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ آج میرے وطن کا ہر ذی شعور یہی پوچھ رہا ہے کہ میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں ہے ۔۔

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.