کسی گاؤں میں ایک بزرگ رہتے تھے جن کے ساتھ تین ناسمجھ جوان بچے بھی رہتے
تھے۔ اس بزرگ کے پاس ایک بھینس تھی جو اس کے بچوں کا دودھ پورا کرتی تھی
اور ذریعہ معاش اس کا کھیتی باڑی تھا۔ بزرگ جہاں ان کی نا پختگی اور کم
عقلی پر انتہائی افسردہ تھا وہیں وہ بچوں سے بے حد محبت کرتا تھا۔ ایک رات
ایسا ہوا کہ کوئی چور بھینس کا باہر والا کلہ اکھاڑ لے گیا۔ صبح بزرگ نے
کلے کو غائب پا کر بچوں سے کہا کلہ ڈھونڈو، بچوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ
کیا اور باپ کو جھوٹ بولتے رہے، حالانکہ انہوں نے ڈھونڈنے کی کبھی کوشش
نہیں کی تھی۔ کچھ دنوں بعد بھینس کی وہ زنجیر بھی چوری ہو گئی جو بے دھیانی
میں بچوں نے باہر ہی چھوڑ دی تھی۔ بزرگ نے پھر سے بچوں کو کہا کہ کلہ
ڈھونڈو، بچے زنجیر ڈھونڈنے چل نکلے اور پھر چند دن بعد وہ بھی ڈھونڈنا چھوڑ
دیا ۔ لیکن بزرگ کا ایک ہی اصرار رہا کہ کلہ ڈھونڈو۔چند دنوں بعد بچوں نے
دوبارہ غیر ذمہ دارانہ حرکت کی اور رات سونے سے قبل بھینس کی کوئی دیکھ
بھال نہیں کی۔ اس رات بھینس باہر ہی بندھی رہ گئی اور چوری ہو گئی۔ بزرگ
طیش میں آئے اور پھر سے بچوں کو کلہ ڈھونڈنے کا حکم دیا۔ اس بار بزرگ کا
غصہ دیکھ کر بچے ڈر گئے اور بھینس کو چھوڑ کرکلہ ڈھونڈنے نکل پڑے۔ تھوڑی ہی
مشقت اور بھاگ دوڑ کے بعد کلہ مل گیا اور جہاں سے کلہ ملا وہیں سے بھینس
زنجیر سمیت مل گئی۔
|
|
اس کہانی میں کئی سبق پوشیدہ ہیں لیکن حال حاضر میں یہ کہانی محکمہ پولیس
کے بزرگوں اور بگڑے شہزادوں پر پوری طرح ثابت آتی ہے۔ محکمہ پولیس کے بگڑے
شہزادوں کو ایسی چھوٹ آج سے ہی نہیں بلکہ اول دنوں سے ملی ہوئی ہے۔ اگر ہم
برطانوی دور کا جائزہ لیں تو بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ
برطانیہ نے محکمہ پولیس لوگوں کو تحفظ دینے کی بجائے، جھوٹے، بدمعاشوں،
چوروں اور بے ایمان اشرافیہ کو تحفظ دینے اور عوام الناس کے ساتھ بدسلوکی
اور قتل غارت گری کیلئے منظم کیا تھا۔ مجھے ایک بزرگ کی بات یاد ہے کہ جب
عظیم ہجرتِ ثانی ہوئی اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو انہی دنوں میں ان
کا ایک ساتھی پولیس نے گرفتار کر لیا۔ میاں جی ذرا شریف طبیعت کے مالک اور
کچھ زیادہ معصوم تھے اسی لئے تھانیدار نے رعب ڈالتے ہوئے کہا کہ تمہارے
بندے پر غدار ی کا چارج لگا ہواہے اسے نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر تم نے کوئی رونے
دھونے کی کوشش کی یا زیادہ زبردستی کی تو ہم اسے مار کر پھینک دیں گے اور
تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پاؤ گے۔ میاں جی ذرا سہم گئے اور آہ و گریہ کرنے
لگے۔ تھانیدار نے چند روپوں کے عوض کہا کہ میں بندہ رہا کر دیتا ہوں۔ میاں
جی مستقیم جانتے تھے !سو کہنے لگے کہ ہم رشوت نہیں دیں گے یہ تو جہنمی
لوگوں کا شیوہ ہے ۔ جواباََ تھانیدار کہنے لگا ہمیں زیادہ دین نہیں سمجھاؤ
میاں! تمہارے پیسوں سے ہی ہم لوگو ں کا گھر چلتا ہے حکومت ہمیں جو تنخواہیں
دیتی ہے وہ پوری نہیں پڑتی۔ آپ کی اور ملک کی حفاظت کیلئے ہم دن رات کام
کرتے ہیں ۔ بس اس ایک جملے نے میاں صاحب کو موم کر دیا اور میاں صاحب پیسے
دے کر بے گناہ بندے کو پولیس کے چنگل سے چھڑا لے گئے۔
ان دنوں میں نہ تو میڈیا آزاد تھا ، نہ ہی ایسی سہولتیں تھیں جو میاں صاحب
ہلا گلا کر کے کوئی انقلاب کھڑا کر دیتے ۔ لیکن حال میں بھی وہی کام ہو
رہاہے۔ سابقہ حکومت نے تین ہزار پولیس اہلکاروں کو صرف اپنی رہائشگاہوں کی
حفاظت کیلئے معمور کیا ہوا تھا ۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کروایا جس کے گواہان اور
ثبوت منظرِ عام پر آ چکے ہیں ۔ کئی جاگیر دار، اشرافیہ آج بھی ایسے مذموم
عزائم کیلئے پولیس کا استعمال کرتے ہیں ۔ عوام الناس کی حفاظت کا حلف
اٹھانے والے خود عوام الناس کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ کراچی میں نقیب اﷲ کو
جعلی پولیس مقابلے میں شہید کر دیا گیا ۔ اسی طرح کے کئی واقعات ہمیں سننے
، دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسان پولیس محکمہ سے نفرت کئے بغیر نہیں رہ
سکتے۔گزشتہ چار سالوں میں اب تک 3345 افراد پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ کل
2117 پولیس مقابلوں میں 6610 مرد ، 23 خواتین اور بارہ بچے موت کا شکار
ہوئے۔پولیس مقابلوں میں سندھ سرفہرست ہے پنجاب میں 1036 پولیس مقابلوں میں
1556 افراد لقمہ اجل بنے جن میں پچیس پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ ہم مانتے
ہیں کہ ملک و ملت کی حفاظت کیلئے سی ٹی ڈی اور محکمہ پولیس نے بہت قربانیاں
دی ہیں لیکن اب ساہیوال کا سانحہ اور اس پر ریت قائم رکھتے ہوئے اعلیٰ
افسران کی طرف سے اپنے اہلکاروں کو بچانے کیلئے سارا ملبہ ایک ایسے شخص پر
ڈالا ہے جو شہید کر دیا گیا ہے، جو اپنی گواہی میں کچھ بول بھی نہیں سکتا؟۔
ذیشان کا بھائی خود ڈولفن فورس میں کام کرتا ہے جس نے اپنے سرپرستی میں
ذیشان کا نام دے رکھا ہے۔ اداروں کی مخبریاں اور خبریں اتنی کمزور ہیں کہ
انہوں نے معصوم جانوں کو ان کی اولاد کے سامنے دن دیہاڑے قتل کرنا شروع کر
دیا ہے۔ مجھے تو یہ سوچی سمجھی سازش لگتی ہے کہ پہلے بیان میں پولیس کی طرف
سے بتایا گیا کہ پورا خاندان دہشتگرد ہے ، پھر زور پڑنے پر سولہ پولیس
اہلکاروں کو نامزد کر کے پرچہ دے دیا گیا اور اب ذیشان پر سارا ملبہ ڈال کر
اسے دہشتگرد ثابت کیا جا رہا ہے۔
|
|
اگر اول دن سے پولیس افسران اپنے ماتحتوں کو ان کی غلطیوں پر سخت سزائیں
دیتے تو آج ہماری نسلیں ایسے غیر انسانی سانحات سے واقف نہ ہو تی۔ ساہیوال
کا سانحہ انتہائی دردناک اور اس پر محکمہ پولیس کے افسران کی ہٹ دھرمی قابل
تشویش ہے۔ پوری قوم سوگوار اور غم و غصے کا شکار ہے ۔ عمران خان نے دعویٰ
کیا ہے کہ وہ قطر سے واپس آکر اس المیہ کو ذاتی دلچسپی سے حل کریں گے۔ لیکن
میں چاہتا ہوں کہ محکمہ پولیس میں تمام پولیس اہلکارو افسران جن کے خلاف
کوئی بھی مقدمہ درج ہے ان کے خلاف کاروائی کی جائے اور اخلاقی اہداف اور
انسانیت کا جذبہ سینے میں رکھنے والے افسران کو آگے لایا جائے۔بے شک محکموں
میں ملازمین افسران کی اولاد کی طرح ہوتے ہیں لیکن ان کی تربیت میں کوتاہی
اور غیر ذمہ داری نہ صرف ذاتی طور پر بلکہ محکموں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
عوام الناس کو بھی چاہئے کہ وہ بھی انسانیت کا سبق پڑھے اور زندہ قوم ہونے
کا ثبوت پیش کرے۔ سوشل میڈیا پر بھاشن دینے کی بجائے پر امن احتجاج کرے
تاکہ ادارے اپنی اوقات میں رہ کام کریں۔دو شعر مقتدر طبقے کی نذر:
دن چڑھے مارے ہیں کئی معصوم
حاکِم وقت رب سے ڈرتا نہیں
جس طرح مسلے ہیں چمن کے پھول
خوف کیوں تو خدا کا کرتا نہیں |