سانحہ ساہیوال - ابتدائی رپورٹ پیش

جے,آئی,ٹی,سربراہ وزیر اعلٰی کو مطمئن نہ کر سکے, سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو پیش کردی ہے تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال کی جے آئی ٹی رپورٹ کے سلسلے میں سردار عثمان بزدار کی زیرصدارت ایوان وزیراعلیٰ میں اجلاس جاری ہے جس میں سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان، وزیرقانون پنجاب راجہ بشارت ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب شریک ہیں، ہوم ڈیپارٹمنٹ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکام بھی اجلاس میں موجود ہیں۔

ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ سانحہ ساہیوال کی جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی اعجاز شاہ کی جانب سے ابتدائی رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔ اجلاس کے دوران جے آئی ٹی سربراہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو مطمئن نہ کرسکے جس پر وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا انکوائری کو سنجیدگی سے نہ لینا مناسب رویہ ہے؟

اجلاس میں کہا گیا کہ اصل ملزمان کو بچا کر نچلے عملے کو پھنسایا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جے آئی ٹی اصل ذمہ داروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ اجلاس میں سی ٹی ڈی کے سربراہ اور ایس ایس پی آپریشن کی تبدیلی کا امکان ہے۔

یہ تو رہا اوپر اجلاس کی تفصیل اور وزیر اعلی کا ردعمل, اب آتا ہوں میرے موقف, تبصرے اور تجزیئے کی طرف۔

اول مجھے یقین تھا کہ رپورٹ پیش کرنے بلکہ بنانے میں ناانصافی کا عنصر غالب رہے گا پر اس کا اظہار کرنا قبل ازوقت ہوتا لہذا صرف انتظار پر اکتفاء کیا لیکن ساتھ ہی یہ شرط خود پر عائد رکھی کہ رپورٹ کیا کہتی ہے وہ اتنا اہمیت نہیں رکھتی کہ اس دن راجہ بشارت کی باتیں سن کر رپورٹ کا سمجھ آگیا تھا لیکن مجھے حکومتی ذمہ دارن خاص کر وزیر اعلی کے عمل اور ردعمل سے سروکار تھا کہ یہ کیا کرے گا اس رپورٹ پر جو آنے سے پہلے ہی مشکوک ہے۔

اور دیکھیں کہ مجھے حسن ظن تھا کہ یہ نئے پاکستان کے نئے پنجاب کا وزیر اعلی ہے یہ اتنی آسانی سے اس کیس پر دھول جمانے اور ناانصافی کو برداشت کرنے پر مطمئن نہیں ہوگا باوجود اس کی ابتک کی صفر بٹہ صفر کارکردگی۔

اس کو آپ عوامی ردعمل یا انصافین کے ایمانداری سے کیئے احتجاج سے نتھی کرلیں یا عمران خان کی پالیسیز سے یا جس مرضی مثبت پہلو سے جوڑ لیں پر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب وہ دھونس زبردستی اور لاپرواہی اتنی نہیں رہی جتنی سابقہ ادوار میں رہی دوسرے حکمرانوں کے رہتے۔

وزیر اعلی کو متعلقہ ذمہ دران مطمئن نہ کرسکے یہ خبر بھی پہلی دفعہ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ عوام کی تکلیف اور ردعمل کو خود وزیراعلی مطلب رعیت کا امیر اون کررہا ہے کہ مجھے یہ رپورٹ اور تمہاری کارکردگی مطمئن نہیں کرسکی اور تمہارا اتنا غیر مناسب رویہ سمجھ سے بالاتر ہے, یہاں تک ہی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ٹرانسفرز اور ڈی موشنز کا عندیہ دیکر ثابت کردیا کہ میں تمہارا نہیں عوام کا نمائندہ ہوں لہذا وہ کرو جو کرنے کا کہا ہے۔

میں اب بھی منتظر اور مطمئن ہوں کافی حد تک کہ یہ حکومت بیشک اور تیس دن لے لے پر یہ کیس کو دفناکر معاملہ رفع دفع نہیں کریگی اور یہ بات بھی بطور حسن ظن رکھتا ہوں کہ وزیر اعلی بیشک عمران کی ہدایت کے زیر اثر ہی سہی پر وہ چھوٹی مچھیلوں تک بات نمٹانے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ انہیں بڑے مگر مچھ کی تلاش ہے جو اس سب کا ذمہ دار تھا اور اب بچ رہا ہے, اور یہی ہم چاہتے ہیں اور یہی انصاف کا تقاضہ ہے اور اسی طرح نظام کو لگام اور اس کی تبدیلی ممکن ہوگی۔

میں پھر تلقین کروں کا کہ بیشک قانون کی دہشتگردی ہی ہے پر انصاف کے لیئے صبر اور تحقیقاتی حرکت و نقل پر شکر اور حکومت و ریاست سے ہماری مدد خواہ عملی یا مورل دونوں ضروری ہیں تبھی ہم وہ انصاف دیکھ پائیں گے جس کی ہمیں تمنا ہے۔

قانون ہاتھ میں لے کر ہم خود بھی ناانصافی کے مرتکب ہوسکتے ہیں اس لیئے اللہ پر بھروسہ رکھ کر انتظار ہی بہترین آپشن ہے۔
 

Muhammad Naeem Shahzad
About the Author: Muhammad Naeem Shahzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shahzad: 144 Articles with 107579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.