سعادت حسن منٹو سے کسی نے پوچھا
کیا حال ہے آپ کے ملک کا؟
کہا؛ بالکل ویسا ہی ہے جیسا جیل میں ہونے والی جمعہ کی نماز کا ہوتا ہے
۔
اذان فراڈیا دیتا ہے امامت قاتل کرواتا ہےاور نماذی سب کے سب چور ہوتے
ہیں ۔
کافی دنوں سے ہمارے ملک میں کرپشن کا بہت شوروغل ہے۔ہمیں بتایا جارہا
ہے کہ ہمارے بیشتر سیاسی لیڈران اور بیوروکریٹ بدعنوان اور کرپٹ ہیں
جوکہ بات کافی حد تک درست بھی یے۔ ہر سمت چور چور کی گردان ہے ۔سابق
وزیراعظم کے اوپر الزام ہے کہ نے ان کے اثاثے انکی ظاہر کردہ آمدنی سے
بڑھ کر پائے گیے ۔، وہ منی لانڈرنگ کے مرتکب ہوے یعنی سرمایہ غیر
قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیا۔یہ پیسہ کالا دھن تھا ۔کالا اس لیے
کہ یہ سرمایہ انکی وہ آمدنی تھی جس پر حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کیا گیا
تھا۔موصوف آج کل اس الزام پر جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔
ہماری نفسیات پر اس کا گہرا اثر پڑا ہے۔
دل و دماغ میں ایک عجب کشمکش جاری ہے۔
ہمیں اچھا بھلا معزز کاروباری شخص بھی مروجہ دستور کے مطابق چور دکھائ
دینے لگا ہے۔
عبادت گزار متقی کاروباری حضرات کہ کثرت سجدہ سے جن کی جبینیں سجی
ہیں،پر نور چہروں پر خوبصورت ریش مبارک آراستہ ہیں ۔جو سال میں بارہا
مکتالمکرمہ اور مدینہ منورہ کی حاظری اور حج وعمرے کا شرف حاصل کرتے
ہیں۔
جن کے دم بقدم سے مساجد میں رونقیں ہیں۔مدارس کے انتظام وانتصرام جن کے
عطیات سے چل رہے ہیں ۔
جن کی جیب خاص سے نجانے کتنے یتیم مسکین غریب ونادار بچوں کے طعام و
قیام کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
وہ مدرسے کہ جہاں لاکھوں طلبہ مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہر سال
لاکھوں حفاظ اور علماء تیار ہوکر نکل رہے ہیں ۔وہ علماء کہ جنہوں نے
آگے چل کر قوم کی دینی راہنمائ کرنی ہے۔
یہ کہتے ہوے بڑی جھجک سی محسوس سی ہوتی ہے کیا یہ سب معزز کاروباری
حضرات المعروف حاجی صاحبان معاذاللہ چور ہیں
نہیں ہمارا دل یہ بات مانے کو تیار نہیں ہے۔
کیونکہ ہمارے یہاں ٹیکس کلچر کا رواج ہی نہیں ہے۔
بمشکل چند فیصد کاروباری لوگ ہوں گے جو انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔جو
دیتے بھی ہیں انکے وکیل صاحبان بھاری مشاہرے پر اس طرح ٹیکس ریٹرن فائل
کرتے ہیں کہ کم از کم ٹیکس ادا کرنا پڑے۔
بہت سی معزز کاروباری شخصیات سے ہم ذاتی طور پر واقف ہیں کہ جو
اسمگلنگ(حلال اشیا کی) سے وابستہ ہیں لیکن زکوہ و صدقات بھرپور طور پر
ادا کرتے ہیں۔اگر یہ سب چور ہی تو پھر پاک دامن کون ہے وہ سرکاری
اہلکار جوکہ ان کے سہولت کار ہیں یا وہ عوام جو ان کا مال سستا جان کر
خریدتے ہیں یا وہ علما کرام جو انکے غیر قانونی کاروبار کو شرعی طور پر
درست ثابت کرنے کے لیے تاویلیں تراشتے ہیں ۔
اس طرح تو ہمارا سارا سماجی نظام خطرے میں پڑ گیا ہے ۔ بھائی اگر یہی
حال رہا توہماری معیشت کا خدا ہی حافظ ہے کیونکہ ہمارے جیسے تھرڈ ورلڈ
ممالک میں بلیک منی ہی وہ سرمایہ ہے جو خون بن کر ملکی معیشت میں دوڑتا
ہے ورنہ IMF جیسے سرجن قرضہ دیتے ہوئے ہمارا وہ حال کریں گے کہ ساری
قوم آپریشن تھیٹرمیں لیٹی ہوگی۔
فی الوقت یماری قومی معیشت بھی سسکیاں لے رہی ہے کہ جہاں آپریشن تھیٹر
میں اطائیوں کا راج یے جو اس کے ساتھ ایسے ایسے تجربے کر رہے ہیں کہ
دنیا انگشت بدنداں ہے اور عوام حیران و پریسشان بالکل اس ،لاچار مریض
کی طرح ہے سرکاری ہسپتالوں میں جس کے منہ پر دوران آپریشن اسکی قمیض کا
پلو منہ پر ڈال کر یہ باور کرلیا جاتا ہے کہ آنکھوں پر پردہ ہوچکا اسے
کچھ نظر نہیں آرہا لہذا اس کے باقی جسم کو زیر تربیت ڈاکٹر خوب تختہ
مشق بنا تے ہیں۔
ارباب اقتدار کو چاہیے کہ پاناما کی طرح پاکستان کو بھی ٹیکس ہیون قرار
دے دیں۔لوگوں سے نہ پوچھیں کہ یہ پیسہ کہاں سے لاے۔سرمایہ داروں کو
کھلی چھوٹ دے دیں ۔ترغیب دینے کے لئے نمائشی وزارتیں ،سفارتیں اور
گورنر شپ وغیرہ بھی آفر کی جاسکتی ہیں۔
اس طرح ہماری معیشت کو وہ Boost ملے گا کہ وارے نیارے یوجایئں گے۔
سرمایہ کی وہ ریل پیل ہوگی کہ آنکھیں چندھیا جایئں گی۔۔دببئ ،ہانگ کانگ
کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ایک بار معیشت اپنے پاوں پر کھڑی ہوجائے اور
ترقی کی شاہراہ پر سر پٹ دوڑنے لگے تو پھر اس کالے دھن کو سفید بھی
کرلیں گے۔
ا اس گناہ سے اجتماعی توبہ کرلیں گے اور معافی کیلیے رقت آمیز دعاوں کا
اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔
در در پر جانے سے بہتر ہے کہ لوگ خود پیسے لیکر ہمارے پاس آئیں ۔
پانچ ماہ گزرنے کے بعد منی بجٹ میں خان گورنمنٹ نے کاروباری طبقے کی
اشک شوئی کی کچھ اچھی کوشش ضرور کی ہے۔مگر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
بہر کیف ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروباری طبقے کی عزت نفس بحال کی
جاے۔انہیں کم از کم چور کہنا مناسب بات نہیں ہے۔
چور کے بجائے کچھ اچھا سا نام دے دیں۔ ان کو نااہل کہہ لیں تو وہ بھی
قدرے بہتر ہے عوام خود ہی سمجھ جائے گی کہ یہ وہ لوگ ہیں جوکہ اپنی
ناجائز آمدنی کو جائز ثابت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔
علماء کرام کوئ ایسا شرعی حیلہ ڈھونڈیں کہ جس سے ٹیکس نا دہندگان یا
کالا دھن رکھنے والوں کے اوپر سے چور ی کی تہمت ہٹ جائے ۔ان ہی
کاروباری اور متمول حضرات کے دم سے تو ہمارے سماج کی رونقیں ہیں
خرد کا نام جنوں پڑ گیا اور جنوں کا جرد
جو چاہیے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے |